میاں صاحب آئی لو یو

نواز شریف کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا اور میں اس ہاتھ کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا،دل میں محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اورآنکھوں سے آنسو نکلنے کو بے تاب تھے مگر میں نے ضبط کا دامن نہیں چھوڑا، عشق توکہہ رہا تھا کہ اس سے لپٹ جاؤں اور ایک بار جی بھر کے رو لوں، مجھے ایکدم اپنا معصوم لڑکپن یاد آگیا جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنا تھااور سیلاب زدہ علاقوں میں خود پہنچ کر اپنے ہاتھوں سے گارا اٹھا کر غریبوں کے گھروں کو تعمیر کرنے کے مناظر پی ٹی وی پر دیکھ کر میرے دل سے اس شخص کے لئے دعا نکلتی تھی،میں مشکل سے15سال کا ہوں گا ،نواز شریف مختصر وزارت عظمیٰ کے بعد غلام اسحاق خان کی 58ٹو بی کا شکار ہوا ، 25 سال پہلے میں نے گتے کا ایک بورڈ بنایا اور اخبار سے نواز شریف کی رنگین تصویر کاٹ کے گوند سے اس پہ چسپاں کی پھونکیں مار مار کے اس کو سوکھایا اور دیوار پر آویزاں کر دیا تھا میں نے بچپن کی معصومیت میں بھی اسکے جانے کا دکھ اس طرح منایا تھا، اس معصوم سے لڑکے کو کتنا یقین تھا کہ یہ شخص میرے ملک کے لئے بہت ضروری ہے، آج وہ شخص گوجرانوالہ میں قیام کے دوران میرے پاس تھا، سوچا اس کا سیاسی شعور آج کی ٹی وی چینلز پر براجمان ان اینکرز نامی ’’بلاؤں ‘‘سے کہیں زیادہ پختہ تھا جو نواز شریف کی حب الوطنی دیانت اور قابلیت پر ذ ر ا سابھی شاکی نہ تھا اور اپوزیشن کے ’’سورمے‘‘ کتنی ڈھٹائی سے پوچھتے ہیں کہ نواز شریف بتاتے کیوں نہیں انکے خلاف کس نے سازش کی ہے ،۔۔۔۔ سب کو پتا ہے کہ پس چلمن کون بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔ یہ ٹھیک ہے آپ نصابی کتابوں میں کچے ذہنوں کو جھوٹ پڑھاتے آئے ہیں اور پڑھاتے رہیں گے ، لیکن کیا ووٹ کی طاقت سے بننے والے ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ ہمارا منہ نہیں چڑاتی کہ ہم 70سالوں میں 35سال ڈکٹیٹرز کے رحم و کرم پر رہے ہیں اور باقی سالوں میں بھی وزرائے اعظم کی بے بسی اور لاچاری کس سے چھپی ہوئی ہے،کیا یہ سچ نہیں مشرف پر غداری کے مقدمے کے بعد ہی نواز شریف کوزیر عتاب لانے کے فیصلے کئے جارہے تھے اور پھر ساری بدروحیں اسکے پیچھے لگا دی گئیں ،نواز شریف کو مودی کا یار ،کرپٹ ،توہین عدالت کا مرتکب اور نہ جانے کیا کیا کہنے والے یہ تجزیہ نگاراور اپوزیشن کے سیاسی لیڈر اس وقت کس بل میں چھپے ہوئے تھے جب وہ عدلیہ کی بحالی خاطر لاہور سے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلا تھا ،اس وقت عدلیہ کتنی مجبور اور محصور تھی ،ججز کے گھروں کے باہر تالے لگا دیئے گئے تھے اور انکے بچے امتحانات میں شریک نہیں ہو سکے تھے یہ کل ہی کی باتیں ہیں ،جتنی نوزائیدہ اس ملک میں جمہوریت ہے اتنی ہی آزاد عدلیہ بھی اس لئے ہم وطنوں سے بات کرنے کا حق مت چھینیں اور اس لیڈر سے تو بالکل نہیں جس نے اس ملک کی عزت سلامتی اور وقار کی خاطر اربوں ڈالرز اور منہ زور طاقتوں کی دھمکیوں کو ٹھکرا کے وطن کا جھنڈا بلند کیا تھا، ہماری بد نصیبی کا کوئی شمار نہیں کہ ایوب ،یحییٰ، ضیا ء اور مشرف آج بھی اپنی بدروحوں کی شکل میں ہماری جان نہیں چھوڑ رہے ،آمروں اور انکی باقیات کو جمہوریت پسند نہیں لیکن جمہوریت اتنی بری ہوتی ہے توسیاسی کارکنوں کو کوڑے لگانے اور منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر وزیر اعظم کو سولی پر لٹکا دینے والے آمر کے بیٹے اعجازالحق کی کیوں خواہش ہے کہ اسکے والد کو آمر نہ کہا جائے ،مشرف ملکی تاریخ کا بد ترین ڈکٹیٹر تھا مگر خود کو جمہوریت پسند کیوں کہتا تھا، اس لئے کہ دنیا اب آمروں کے لئے تنگ ہو چکی ہے،بادشاہتوں کی جگہ منتخب حکومتیں لے رہی ہیں اور ڈکٹیٹر کی کوئی عزت نہیں کرتا ، ڈکٹیٹر جھوٹ بول کر تاریخ مسخ کرتے ہیں لیکن تاریخ خود سچ بولتی ہے بس اسے وقت درکار ہوتا ہے پھر مؤرخ کسی کا محتاج نہیں رہتا، مشرف نے نواز شریف پر کیس طیارہ سازش کا بنایا اور اب کہتا ہے کہ میں نے عوامی فرمائش پر مارشل لاء لگایا تھا، مشرف کو آج بھی آئین شکنی پر افسوس نہیں ،اسکو معافی بھی ملے تو کیسے؟

بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہنے والی پیپلز پارٹی کوبھی معلوم نہیں کہ ووٹ کا تقدس ہمارے ملک میں کب کس نے پامامال کیا،رہی بات نواز شریف کی تویہ اتار چڑھاؤ اقتدار آنا جانا اس نے پہلی بار تو نہیں دیکھا اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی شخصیت میں پختگی آتی گئی اسکا اندر اور باہر ایکدم صاف شفاف ہے ،احتساب کی بات ہوئی تو اس نے اپنے اور اپنے خاندان کو پیش کر دیا ، انکا ر کی اسکے لئے کوئی وجہ ہی نہ تھی ،،دھرناون اور ٹو کی ناکامی کی طرح اسے یقین تھا کہ اسے ناپسند کرنے والی قوتوں کا دھرنا تھری بھی اسی طرح اپنی موت آپ مر جائے گا،اس لئے اسکا اعتماد اپنے نکتہ ء عروج کو چھو رہا تھا اسے یقین تھا کہ اپنی جان ہتھیلی پرر کھ کر اس نے جس عدلیہ کو آزادی دلائی تھی وہ اب اپنے فیصلے کسی سے نہیں لکھوائے گی اسے شاید اندازہ نہ تھا ستم شعاروں نے احتساب نامی جال جب بھی پھینکا ہے اپنے ذاتی مقاصدکو پورا کرنے کے لئے پھینکا ہے ، یہاں تو حکومتیں اپنے کسی عزیزدوست کو قانون کی پکڑ سے بچانے کے لئے نیب کے ادارے کوہی غیر فعال کر دیتی ہیں ، مشرف پر سنگین غداری کے مقدمے کے بعدکہیں کوئی انتقام کی آگ دہک رہی تھی جو نواز شریف کو اس منصب پر دیکھ کر بھڑک جاتی تھی،نواز شریف کی شکل اب آمروں کی بدروحوں کو پسند نہیں تھی، نواز شریف کو اقتدار میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹ جانے والوں نے اسکی ساکھ خراب کرنے کے لئے گالیوں والے نئے ٹی وی چینلز تک کھول لئے جہاں لمبی لمبی زبانیں نکالے ٹی وی اینکرز کے روپ میں چند گماشتوں کی یہ ذمہ داری لگ گئی کہ وہ دن رات نواز شریف اور انکے خاندان پر لعن طعن اور بدکلامی کے نئے ریکارڈقائم کریں گے ،ان لوگوں کے نزدیک ملک کے 70سالوں کے مسائل کی جڑ صرف نواز شریف اور اسکا خاندان ہے اور اسکو ہٹانے سے ہی پاکستان خوشحال ،کشمیر آزاد ،دہشت گردی کی جنگ ختم اور ملکی معیشت کا حجم امریکہ جتنا ہو جائے گا ،اسے کرپٹ چو ر،مغرور اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا رہا، اسکے حوصلوں کو ہر طرح سے آزمایا گیا ،یہاں تک کہ بیٹی کے بارے میں نازیبا گفتگو بھی معمول بن گئی ، اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں یہ شیطانی کھیل جاری رہا ،ادھر سیاستدان کے روپ میں غیر جمہوری قوتوں کا مہرہ عمران خان پانامہ کیس عدالت میں لگتے ہی استعفیٰ کی گردان کرنے لگا مگر مضبوط اعصاب کا مالک نواز شریف اپنی ٹیم کے ساتھ کام میں لگا رہا ،اس ٹیم نے ڈوبی ہوئی معیشت کو سنبھالا ، میں چشم دید گواہ ہوں کہ یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کا سٹیٹس لانے والے وفاقی وزیر خرم دستگیر خان نے نہ اپنی نیند پوری کی نہ آرام اور نہ خاندان کے لئے وقت دیا۔ نواز شریف کی ٹیم نے د نیا بھر کے ممالک سے امداد مانگنے کی روایت ختم کی ،امریکہ کی غلامی کا طوق اتارا اور چین جیسے دوست کے تعاون سے پاکستان میں سی پیک لے کر آئی،نواز شریف کا اعزازہے کہ اس کی چار سال کی حکومت کے خلاف کسی کوبدعنوانی کا الزام عائد کرنے کی بھی جرات نہ ہوئی ، انکے خلاف حالیہ کارروائی تو مشرف پر مقدمے کا’’ کراس ورشن‘‘ ہے،ہمارے معاشرے میں عام بات ہے ایک پارٹی ایف آئی آر کروا دے تو دوسری بھی کراس ورشن کے لئے بھاگ دوڑ شروع کر دیتی ہے ،اسکے بغیر بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ، اس مقصد کے لئے طاہرالقادری کو کینیڈاسے بلا کر ماڈل ٹاؤن میں جنگ چھیڑی گئی ،کیا یہ سازش نہیں تھی جس میں مسلح لوگوں کی پولیس کے ساتھ لڑائی میں قیمتی جانیں گئیں اوراسکا بھی نزلہ نواز شریف پر گرانے کی کوشش کی گئی،باوجود کہ صوبے کے انتظامی سربراہ شہباز شریف تھے۔ماڈل ٹاؤن، پانامہ اور اقامہ کی کہانیاں مشرف کے جرم کو کیسے ختم کر پائیں گی ،عدالتیں کس قانون کے تحت اسکو بری کریں گی۔۔۔سمجھ سے باہر ہے مگر نواز شریف کے خلاف ضرورایک کراس ورشن درج کر لی گئی ہے،مدعی کو دبانے کا ہمارے ملک میں سب سے پرانا فارمولا بھی یہی ہے کسی کو یاد ہے کہ طاہرالقادری جو آج ایک بار پھر جمہوریت کا درس دینے پہنچے ہیں اس سارے نظام کو لپیٹنے اسمبلیاں توڑ دینے جیسے غیر آئینی مطالبے کر تے نہیں تھکتے تھے ، عمران خان نے کون سا قانون نہیں تو ڑا ان کزنز کے غنڈوں نے سرکاری عمارتوں پر قبضے کئے پولیس حراست سے خود لوگوں کو چھڑوایا،چیئر مین تحریک انصاف نے کسی ادارے کو نہیں بخشا ٹی وی پر لائیو دھمکیاں دیں اور ہر تقریر میں کہا کہ اس ملک میں عدالتیں انصاف نہیں دیتیں اس لئے میں نے تحریک انصاف بنائی،پارلیمان ،الیکشن کمیشن سمیت کوئی ادارہ تھا جسے مطعون نہ کیا گیا ہو مگر وہی شخص آج عدلیہ کے حق میں بندے نکالنے کی بات کر رہا ہے اورعدلیہ بحال کرانے والے نواز شریف کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جا رہا ہے بس کریں ۔۔۔ اپنی اپنی بدروحوں کو قابو کریں ۔۔۔ ملک بنانے اسے تعمیر کرنے والی جماعت کی قیادت کو اتنا نہ دبائیں کہ تکلیف اور درد کے مارے کوئی ایسی ویسی چیخ نہ منہ سے نکل جائے ،ملک سے محبت کرنے والوں کو امتحان میں نہ ڈالیں ،سقوط ڈھاکہ کا سبق ہمارے لئے کافی ہونا چاہئے تھا مگر افسوس کہ آج بھی ملک کے مقبول ترین لیڈر نواز شریف کو دبانے والے کروڑوں عوام کی رائے کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں ،یاد رکھیئے ،دنیا میں وہی قومیں کامیاب ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں کی رائے کا احترام کیا ہے، پاکستان میں جمہوریت کو بہر حال پھلنا پھولنا اورا س ملک کو آگے جانا ہے ،آمر اور انکی بدروحیں بھٹکنے کے لئے ہیں سو بھٹکتی رہیں گی ، لوگوں کا پیار دیکھنا ہے تو نواز شریف کی ریلی کے وہ مناظر نکال کے دیکھیں ۔۔چلچلاتی دھوپ میں پاؤں میں چھالے لئے لوگ نواز شریف کی گاڑی کے ساتھ ساتھ دیوانوں کی طرح بھاگ رہے ہیں ،اسکی گاڑی کے بوسے لے رہے ہیں ، پوری جی ٹی روڈ پرکون سا ایساشہر تھا جس سے گزرتے ہوئے’’ وزیر اعظم نواز شریف ‘‘کے نعروں کی صدا کانوں میں نہ پڑی ہولوگوں نے سچ میں اسے بہت چاہاہے اوربے حساب چاہا ہے یوں بھی محبت میں توحساب کتاب کا پیمانہ ہی نہیں ہوتا ، اسی لئے نواز شریف کے خلاف ٹی وی پر 24گھنٹے کے غلیظ پراپیگنڈے نے عوام کی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالا، خرم دستگیر کے شہرگوجرانوالہ کے لوگوں نے اپنے محبت بھرے دل نکال کر نواز شریف کی راہوں میں بچھا دیئے ، میں نے 11اگست کونواز شریف کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگوں کو ماہی ء بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے دیکھا ہے۔۔۔۔ اس شہر کے باسیوں نے نواز شریف کی محبت کا جواب اپنے عشق سے دے دیا ہے ، نواز شریف کی موجودگی میں گوجرانوالہ کے نوجوانوں نے بھٹکی ہوئی بدروحوں تک اپنی یہ آواز پوری طاقت کے ساتھ پہنچا دی ہے کہ
’’میاں صاحب آئی لویو۔۔۔ اور۔۔۔۔وزیر اعظم نواز شریف ‘‘

 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 76341 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.