پاکستان کے ستر اورہماری ویب کے دس سال مکمل

ہماری ویب پر آپ کو کرکٹ کا تازہ ترین اسکور مل جائے گا، اسٹاک مارکیٹ کےاتار چڑھاو کابھی پتہ لگ سکتا ہے یا پھر کسی بھی چینل سے تازہ ترین خبریں اور تو اور جناب منیر صاحب کے بقول ساس بہو کا ہی نہیں سسر اور بہو کے جھگڑئے کا حل بھی ’ہماری ویب‘ہی ہے۔

ہماری ویب رائٹرز کلب کے ارکان پروفیسر سحر انصاری کے ساتھ

ساڑھے چار سال پہلے میں اپنے مضامین شائع کروانے کے لیے کسی اچھی ویب سائٹ کی تلاش میں تھا کہ گوگل کے سرچ انجن نے میری ملاقات ’ہماری ویب‘ سے کرا دی۔ 8 جنوری 2013 کو’ ہماری ویب‘ پر میرا پہلا مضمون شائع ہوا اور 21 اگست 7201 کو 473 واں مضمون شایع ہوا۔ ہماری ویب سے جڑئے ہوئے مجھے ساڑھے چار سال ہوچکے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارا ساتھ کافی پرانا ہے۔میں پہلی مرتبہ’ہماری ویب‘ کی مارچ 2014 میں منعقد کی جانے والی ایک میٹنگ میں شریک ہوا، جہاں پہلی مرتبہ میری ملاقات’ہماری ویب‘ کے چیف ابرار احمد صاحب، ایڈیٹر/موڈریٹر مصدق رفیق صاحب ، ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب کے علاوہ بہت سارئے دوستوں سے ہوئی۔ اس میٹنگ میں لکھاری حضرات کے مسائل اور انکے حل کے علاوہ ’ہماری ویب‘ کے زیر اہتمام ایک رائیٹرز کلب کے قیام کی ابتدائی گفتگو بھی ہوئی۔ میٹنگ میں موجود تمام دوستوں نے اس خیال کو بہت پسند کیا اور اپنے تعاون کا یقین بھی دلایا ۔ 10 جنوری 2015 وہ مبارک دن تھا جب ’ہماری ویب‘ کی ایک میٹنگ میں ’ہماری ویب‘ کے زیر انتظام ’رائیٹرز کلب‘ کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ بہت تیزی کے ساتھ ’ہماری ویب‘ سے تعلق رکھنے والے لکھاری اس کلب کے ممبر بننے۔ اس کلب کو اب ’’ہماری ویب رائیٹرز کلب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کلب کے عہدے داروں میں جناب ابرار احمد صاحب چئیرمین، جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب صدر اور جناب عطا محمد تبسم صاحب جنرل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

اب اگر کوئی صاحب اپنے کسی مسئلے کا حل چاہتے ہیں تو’ ہماری ویب‘ کی سائٹ کھولیں اور منیر بن بشیر صاحب کا مضمون ’’ہماری ویب ۔۔ 3650راتیں(دس سال)‘‘ پڑھ لیں، سارے مسائل کے حل کےلیے وہ’ ہماری ویب‘ کا انتخاب کرتے ہیں ۔ وہ بلکل صحیح فرمارہے ہیں ’ہماری ویب ‘پر آپ کو کرکٹ کا تازہ ترین اسکور مل جائے گا، اسٹاک مارکیٹ کےاتار چڑھاؤ کابھی پتہ لگ سکتا ہے یا پھر کسی بھی چینل سے تازہ ترین خبریں اور تو اور جناب منیر صاحب کے بقول ساس بہو کا ہی نہیں سسر اور بہو کے جھگڑئے کا حل بھی ’ہماری ویب‘ہی ہے۔ آپ سوال کرینگے ایسا کیسے ہوگیا تو جناب عرض ہے کہ اب ’ہماری ویب‘ کی عمر دس سال ہوگئی ہے۔ اس موقعہ پر میں ’ہماری ویب‘ کے بانی اور ہماری ویب رائٹرز کلب کے چئیرمین جناب ابرار احمد صاحب اور انکی پوری ٹیم کو ہماری ویب کے دس سال مکمل ہونے پر دل کی گہرایوں سے مبارکباد دیتا ہوں، ساتھ ہی ایڈیٹر/موڈیٹرمصدق رفیق صاحب کا ذکر بھی کروں گا کہ جو ہر لکھاری کی مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ میں ہماری ویب رائٹرز کلب کے صدر جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب اورجنرل سیکرٹری جناب عطا محمد تبسم صاحب کو بھی ’’ہماری ویب رائٹرز کلب‘‘ کی شاندار کامیابی پرمبارکباد پیش کرتا ہوں۔ایک لکھاری کی حیثیت سے ’ہماری ویب‘ ہی میری پہچان ہے۔

بروز ہفتہ 19 اگست 2017 کو بوقت شام 5 بجے بمقام وی ورکرز ٹرسٹ، گلشن اقبال میں ہماری ویب رائٹرز کلب کی جانب سے پاکستان کے 70ویں یوم آزادی کے سلسلے میں ایک مجلس مکالمہ بعنوان “پاکستان کی آزادی کے 70 سال اور موجودہ تحریکیں“ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مجلس کا دعوت نامہ ہماری ویب رائٹرز کلب کے جنرل سیکرٹری جناب عطا محمد تبسم صاحب کی جانب سے موصول ہوا تھا۔ ساڑھے پانچ بجے تک تمام دوست آچکے تھے اس موقعہ پر ہماری ویب رائٹرز کلب کے چیرمین جناب ابراراحمد صاحب اپنے بھائی کی شدید بیماری کی وجہ موجود نہ تھے جن کی کمی سب نے ہی محسوس کی۔ تقریب کا آغاز جناب عطا محمد تبسم صاحب نے ایک خوشی کی خبر سے کیا، انہوں نے تمام حاضرین کومطلع کیا کہ ہماری ویب رائٹرز کلب کے صدر جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب اس سال حج کی سعادت حاصل کرینگے، تمام ہی حاضرین نے بہت ہی پرجوش انداز میں ڈاکٹرصاحب کو مبارک باد دی اور ہماری ویب کی جانب سے ڈاکٹر صاحب کو ہار پہنائے گئے۔ تقریب کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب عطا محمد تبسم صاحب نے پاکستان کی 70 سالہ زندگی، اور قائد اعظم محمد علی جناح اور آج کے حکمرانوں کی طرز حکمرانی پر روشنی ڈالی۔

جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب نے بھی 70 سال پرانے اور آج کے پاکستان کا ذکر کیا اور ساتھ ہی یہ بھی ذکر کر ڈالا کہ وہ بھی اب 70 سال کے ہونے والے ہیں، سب ہی نے ان کوتقریب کا بزرگ مان لیا لیکن جناب وہاں ایک صاحب ایسے بھی تھے جن کی عمر صرف 19 سال تھی، پروفیسر شفیع ملک صاحب جو اس تقریب کے روح رواں تھے ان کے مطابق جس وقت پاکستان کا وجود عمل میں آیا تھا پروفیسرصاحب صرف 19 سال کے تھے، انہوں نے بھی پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا ذکر کیا، ہماری ویب پر ابتک 900 سے زیادہ کالم تحریر کرنے والے کالم نگار جناب محمد اعظم عظیم اعظم صاحب نے گفتگو کرتے ہوئے ان عوامل پر روشنی ڈالی جن کے باعث آج کا پاکستان ابتری کا شکار ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید صاحب نے تفصیل سے قیام پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ارشادات بیان کیے انہوں نے شریف الدین پیرزادہ کی کتب کا حوالہ بھی دیا ۔ جناب عطا صاحب کے حکم پر ہم نے بھی اپنے لب کھولے، ہمارا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب زیادہ توجہ تعلیم پر دی جائے، اپنی گفتگو میں تعلیم کے حوالے ہم نے آکسفورڈ یونیورسٹی اور تاج محل کا ذکر بھی کیا، ہم کہنا چاہ رہے تھے کہ اگرشاہجان تاج محل کی جگہ ایک اسکول بناجاتے تو اچھا ہوتا۔ شاہجان نے تاج محل اپنی تیسری بیوی ارجمند بانو بیگم عرف ممتاز محل کی محبت میں بنوایا تھا۔ ممتاز محل کی موت شاہجان کے 14ویں بچے کو جنم دیتے ہوئے ہوئی تھی۔

تقریب میں موجود جناب غوری صاحب جو پیشے کے اعتبار سے آرکیٹیکچر ہیں انہوں نے ہماری بات کی بھرپور مخالفت کی اور فرمایا کہ آپکو آرکیٹیکچر کا علم ہی نہیں ہے، وہ تو اللہ بھلاکرئے جناب عطا صاحب کہ انہوں نے ہماری مدد کی اور غوری صاحب کو سمجھایا کہ ہم تعلیم پر بات کررہے ہیں ہم ہر گز گز آرکیٹیکچر اور بلڈنگ بنانے کے خلاف نہیں ہیں۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جناب محمد ارشد قریشی صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی بھی کمی نے بہت سے مسائل کھڑے کردیے، ساتھ ہی ان کا اور دوسرئے دوستوں کا کہنا تھا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ شعور کو بھی اجاگر کیا جائے۔ میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ گذشتہ چند صدیوں سے ہم نے تعلیم پر توجہ دینی چھوڑ دی ہے۔ اس تقریب کے دو روز بعد ہماری ویب رائٹرز کلب کے صدر جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب کی ایک ای میل موصول ہوئی ہے جس میں ان کا کہنا کہ ’’پاکستان کی آزادی کے 70 سال اور موجودہ تحریکیں میں آپ نے جو اظہار خیال کیا اس کا مکمل احاطہ یقینا نہیں ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ نے اس مجلس مکالمہ میں متعین موضوع پر جو اظہار خیال کیا ہےاُسے تحریر میں لے آئیں تاکہ اس مجلس مکالمہ کی تفصیلی رپورٹ تیار ہوسکے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب کا حکم سر آنکھوں پر انشااللہ بہت جلدہی ’پاکستان کے ستر سال اور تعلیم‘ کے موضوع پر19 اگست کو ہونے والے مجلس مکالمہ کے حوالے سے ایک علیحدہ مضمون لکھونگا، اپنے دیگر ساتھیوں سے بھی یہ امید ہے کہ وہ بھی جلد از جلد اپنے اپنے موضوع پر مضامین تحریر کرینگے، تاکہ مجلس مکالمہ کی ایک مشترکہ تفصیلی رپورٹ ہماری ویب رائٹرز کلب کے زیر اہتمام شایع ہوسکے۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی اس خوبصورت تقریب کا اختتام ہوا۔ تقریب کے آخر میں جناب پروفیسرشفیح ملک صاحب کی جانب سے انکی اپنی کتاب ’’اسلامی مزدور تحریک کی سفر کہانی‘‘ کی ایک ایک کاپی تمام حاضرین کو دی گیں، جس کے لیے میں پروفیسر شفیح صاحب کا بہت مشکور ہوں۔

آخری میں ہماری ویب رائٹرز کلب کے جنرل سیکرٹری جناب عطا محمد تبسم سے درخواست ہے کہ وہ کلب کی جانب سے سال میں کم از کم چار تقریب کا اہتمام کریں خواہ اس حکم کے ساتھ کہ چائے بسکٹ سب اپنے گھر سے کھا پی کر آیں۔ 25 اگست کو جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب حج کرنے کے لیے سعودی عرب تشریف لے جارہے ہیں، دعا ہے کہ انکا سفرخوشگوار گزرئےاور حج کے ارکان آسانی سے ہوں۔ تمام دوستوں سے گذارش ہے کہ وہ ہماری ویب کے چیرمین جناب ابرار احمد صاحب کے بھائی کی شفایابی کے لیے بھی دعا فرمایں۔ محترم دوستوں اپنی دعاؤں میں مجھے اور میرئے بچوں کو بھی یاد رکھیے گا۔۔۔ شکریہ

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 442594 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More