کے پی کے کے لوگ آج کل جشن منا رہے ہیں کہ جناب شہباز
شریف نے ڈینگی بچاؤ مہم میں ان کی مدد کی ہے۔ایک صحت مندانہ قافلہ انس و
محبت اسلام آباد سے ہوتا ہوا پشاور پہنچ گیا ہے۔فضاء میں شرلیوں پٹاخوں کا
شور ہے باد بہاراں چل نکلی ہے کہ لاہور سے پشور ایک مہک ہی مہک ہے۔سبحان اﷲ
کیا کام کیا ہے میاں شہباز شریف نے۔اس قسم کے مواقع اﷲ شہباز شریف کو
دیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن میاں صاحب سرور پیلیس کے ایک کونے میں تین
دن پرانی ہلکے نیلے رنگ کے سوٹ میں مجھے ملے بڑے پریشان تھے میں نے استفسار
کیا میاں صاحب کیا رولہ ہے فرمانے لگے دیکھ لیجئے۔ایک خبر تھی کہ ساہیوال
کے ایک گھرانے میں ڈاکہ پڑا اور خبر میں یہ خاص خبر تھی کہ لڑکی نے چیخیں
مارتے ہوئے چھوٹے میاں صاحب کو پکارا۔کسی راشدبٹ نامی شخص کو کہا گیا کہ
مبلغ پچاس ہزار روپے اس مظلوم لڑکی کو پہنچا دئے جائیں۔میاں صاحب کے ایسے
قصے زبان زد عام ہیں ویسے تو وہ شہباز دین بٹ کو بھول گئے جنہوں نے ان کے
لئے جدہ میں قربانیاں دیں اور ان لوگوں کو بھی جو مشرف ظالم کے سامنے ڈٹ
گئے اور نوازتے رہے ان کو جنہوں نے قلمی ستائیش کی۔میاں شہباز شریف کی ان
پھرتیوں سے زمانہ واقف ہے۔جہاں کہیں دو ووٹ ملنے کا سوال ہو وہاں ڈھیرے لگا
لیتے ہیں۔یہ ریکارڈ ہے کہ میاں شہباز نے ہر اس گاؤں کا دورہ کیا جہاں کسی
لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو۔ان کے ایم این اے اور ایم پی ایز اس بات کے
انتظار میں رہتے تھے کہ کاش ہمارے علاقے میں بھی ایسی کوئی واردات ہو جس کی
وجہ سے ہمارا ہمارے لیڈر سے آمنا سامنا ہو جائے بات پرانی ہے مگر ہے سچی اس
لئے یہ سارے واقعات میری آنکھوں کے سامنے گزرے ہیں ان دنوں مانسہرہ میں شاہ
لوگوں کی حکومت تھی ابھی گجر خوب غفلت میں ڈوبے پیروں کی خدمت کیا کرتے
تھے۔سردار یوسف شائد لندن میں تھے ۔سید قاسم شاہ کو میں نے مدینہ منورہ میں
اوبرائے ہوٹل کے باہر کھڑے دیکھا میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا پوچھا ادھر
کدھر آقائے دو جہاں ﷺ کا روضہ مبارک تو ادھر ہے۔کہنے لگے میاں صاحب (بڑے)
نماز سے واپسی پر آئیں گے تو ملاقات ہو جائے گی وہاں اسلام آباد میں کون
ملنے دیتا ہے۔یاد رہے میاں صاحب مدینہ منورہ میں موہن سنگھ اوبرائے کی چین
ہوٹل میں رہائیش پذیر ہوتے ہیں(جندالوں سے محبت آج سے نہیں)۔یہ ہوٹل ابھی
تک موجود ہے البتہ گرین پیلیس ہوٹل جس میں اسامہ بن لادن سے بریف کیس لیا
گیا وہ ان ساری تلخ یادوں سمیت دو سال پہلے زمین بوس ہو چکا ہے۔
ڈینگی پشاور میں حملہ آور ہوا ہے اور شور لاہور مچ گیا ہے کہ چلو چلو پشاور
والوں کی مدد کرو۔میں نے کب کہا ہے کہ یہ کام برا ہوا ہے لیکن سوال یہ پیدا
ہوتا ہے کہ جب پشاور اور ملحقہ علاقوں کے لوگ بجلی مانگتے ہیں تو ان پر
گولیاں چلوائی جاتی ہیں۔ہری پور جو خود بجلی پیدا کرتا ہے وہ خود اس کے
وولٹ وولٹ کوترستا ہے۔آج تین سال سے بالڈھیر فیڈر سے چالیس وولٹس سے اوپر
بجلی نہیں دی جاتی اسلام آباد کے پیچھے برکوٹ یونین کونسل،جبری یونین کونسل
سے لے کر حویلیاں تک ایبٹ آباد اور ہری پور کے دیہات بجلی بجلی کر رہے ہیں
کوئی احتجاج کرے تو مرکز کی طرف سے بغاوت کے مقدمات بنانے کا حکم آ جاتا
ہے۔پچھلے دنوں آئی ایس ایف کا ایک لیڈر بھی لیوی نے مار دیا۔یعنی سوئی جہاں
سے گیس نکلتی ہے اسے گیس نہ دو اور تربیلہ جہاں سے پاکستان روشن ہوتا ہے اس
کے باسیوں کو ترسا ترسا کے مارو۔لیکن ڈینگی جو خدائی آفت ہے اس پر سیاست
کرو۔میاں جی جان دیو۔میں صرف ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اٹھارویں ترمیم کے
بعد زلزلے اور دیگر قدرتی آفات بھی صوبوں کے ذمے ہیں؟اگر نہیں تو اسلام
آبادی حکومت سو کلو میٹر دور پشاور کو کیوں نظر انداز کر رہی ہے۔ہلال احمر
کے ڈاکٹر سعید الہی کیوں نہیں پہنچے؟پرویز خٹک کا کمال یہ ہے کہ وہ ان
بازاری قسم کے ہتھکنڈوں کو استعمال نہیں کرتے ورنہ میو ہسپتال اور صوبے کے
سارے ہسپتالوں میں ایک بیڈ پر تین تین مریضوں کی موجوگی پر وہ بھی سیاست کر
سکتے تھے۔پچھلے سال جب پنڈی پر ڈینگی ڈینگی ہو رہی تھی تو اس وقت پرویز خٹک
نے کوئی سیاست نہیں کی اور نہ ہی کسی قسم کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش
کی۔راولپنڈی کارڈیالوجی ہسپتال بنانے پر بڑا شور شرابہ کیا گیا میں اپنی
بیگم کو وہاں لے کر گیا ان کی مشین ٹیسٹ کرنے کے قابل نہ تھی اور ہمیں کہا
گیا کہ یہ ٹیسٹ سی ایم ایچ سے کرا لیں۔بے نظیر ہسپتال کی حالت قابل مذمت ہے
یہاں کا عملہ سردیوں میں گیس کے ہیٹروں سے اٹھتا نہ تھا اور ہم ایمر جینسی
میں مارے مارے پھرتے رہے۔اب تو ان ہسپتالوں میں با عزت مرنے کے لئے جایا
جاتا ہے پرائیویٹ ہسپتال تو ٹھگوں کی آماجگا ہیں ۔شفاء کے نام پر ان
ہسپتالوں نے جیب کتروں کو سفید کوٹ پہنا دیا ہے۔انسان جائے تو جائے کہاں۔
پنجاب کے ڈاکٹروں اور خاص طور پر ینگ ڈاکٹروں کو فاقہ کشی پر مجبور کر دیا
گیا ہے ان بے چاروں کو ایک رویہ تنخواہ نہیں دی جاتی ٹیچینگ ہسپتال میں کام
کرنے کا عوضانہ ایک روپیہ نہیں ملتا جب کے ہفتے میں اڑتالیس گھنٹے تواتر
بھی کام لیا جاتا ہے۔میرے اپنے گھر میں دو ڈاکٹر ہیں مجھے معلوم ہے کہ وہ
کس طرح گزر بسر کر رہے ہیں۔میں نے اپنے بچوں سے بات کی تو کہنے لگے کاش ہم
بھی کے پی کے میں ہوتے کم از کم ایک سے دو لاکھ روپے تنخواہ تو ملتی۔ایک
مچھر کی آڑ میں سیاسی شعبدہ بازی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔اﷲ رب العزت نے
آپ کو پنجاب کیا پاکستان بھر کی تقدیر بدلنے کا موقع دیا مگر آپ ہیں کہ
حصار ذات سے باہر نکلنا توہین سمجھتے ہیں۔میں یہاں کے پی کے حکومت سے کہوں
گا کہ آپ بھی روز ایک سپیکر لگا کر لوگوں کو بتا دیا کریں کہ آپ نے کیا کیا
ہے؟تعلیم کے نظام میں بہتری ہوئی ہے مگر آپ اسے بتا نہیں سکے،جنگلات میں آپ
نے وہ کارنامے انجامدئے جو دنیا نے مانے اور انہیں سراہا مگر آپ اس میدان
میں گونگے بنے بیٹھے ہیں۔آپ نے میگا پراجیکٹ سڑکیں اور پل نہیں سمجھے تعلیم
صحت اور پولیس کو سمجھا بلکل ٹھیک مگر جو سڑکیں آپ نے بنائیں جو پل آپ نے
بنائے اور جو سستی ایکسپریس ویز بنیں اس کا ذکر کون کرے گا،بابا دھنا یا
ماڈو ۔افسوس کہ آپ کرتے ہیں مگر بتاتے نہیں۔آپ نے کم از کم اس میڈیا کا منہ
بند کیا ہوتا اشتہارات دئے ہوتے،روز تعمیر و ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹتے تو آج
بدنام تو نہ ہوتے۔یہاں لوگوں نے چودہ چودہ قتل کئے اور پھر بھی حاجی صاحب
بنے بیٹھے ہیں آپ نے شہد کی نہریں تو نہ بہائیں مگر خون کی ندیاں بھی تو
نہیں بہائی گئیں۔سچ پوچھئے جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے ۔لوگ تعلیمی انقلاب کو
پسند کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کھوتے پر بیٹھ کرجائیں
تعلیم حاصل کرنے۔کے پی کے میں سڑکیں بھی بنائیں ایک سڑک ایوب خان کے دور سے
شروع ہعتی ہے اور اس روز اس کا پوتا میرا ساتھ سفید بالوں کے ساتھ افتتاح
کرتا ہے۔خدارا پیر سوہاوا ٹاپ سے کوہالہ روڈ کو پختہ کیا جائے اعلان نہیں
عمل۔اسی طرح ہزارہ کی سڑکیں اف توبہ۔اس روز پیر عابد ،زیشان نثار کے ساتھ
دکھن پیسر گیا راجہ مسکین کے پاس تو اﷲ قسم وکھیاں پیڑ کر گئیں۔سڑک نامی
چیز ہی نہیں یہ علاقہ ڈپٹی سپیکر کا ہے جو لاکوسٹے کی عینکیں پہن کر بیوٹی
پارلر سے تیار ہو کر جنازوں میں آتے ہیں۔ڈوب مرنے کا طعنہ دینا مناسب نہیں
لیکن کچھ شرم تو کرنی چاہئے میں صرف نون غنوں کو نہیں کہہ رہا ہے پی ٹی آئی
کے لوگ بھی شامل ہیں بجلی کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ ہے شاہد خاقان عباسی جو
لورہ تحصیل کے ہمسائے ہیں خدارا اس مسئلے کو حل کرائیں۔ایبٹ آباد والے تو
ویسے اﷲ کے کرموں میں ہیں آپس میں لڑ لڑ کر لہو لہان ہیں یوسف ایوب پر کوئی
انگلی نہیں اٹھا سکتا۔کے پی کے میں بہت کچھ کرنا ہے اور جو کچھ کیا جا چکا
ہے اسے اجاگر کرنا ہے۔ میڈیا مینیجرز،کے پی کے صحافیوں کو اسلام آباد
بلائیں اچھے ہوٹل میں ان کی ضیافت کریں ۔یہ کام ضلع وار کریں اور ان تک
پارٹی کی بات پہنچائیں۔ اس روز ڈاکٹر یاسمین کے حلقے میں تھا جو میاں صاحب
کا حلقہ ہے افسوس کہ اس سے تو گجرانوالہ کا باغبانپورہ بہتر ہے۔کے پی کے
میں ڈینگی کے نام پر سیاست کرنے والے مہربان اپنے گریبان میں جھانکیں۔یک
جیتی جاگتی جان کو لالہ موسی میں کچل کر چلے گئے ریسکیو ۱۱۲۲ کی گاڑیاں نہ
رکیں اور چنگچی پر اس بچے کو لے جایا گیا جو جانبر نہ ہو سکا۔
پشاور کس منہ سے آئے ہو میاں |