بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سٹی پبلک ہائیر سیکنڈری سکول بلدیہ روڈ چشتیاں کے چیئر مین جناب حافظ اختر
صاحب کے والد محترم حاجی حبیب اللہ صاحب بروز جمعرات 10-08-2017 کو بقاضائے
الہی انتقال کر گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ چونکہ اختر صاحب کا
آبائی شہر خانیوال ہے لہٰذا ہمیں نماز جنازہ کی ادائیگی کے لئے خانیوال کا
سفر کرنا تھا۔ خبر ملتے ہی رخت سفر باندھنے لگے ۔ جلد ہی تیاری مکمل ہو گئی
۔ آکسفورڈ سکول حاصلپور کے چیئرمین جناب اعجاز صاحب اور ان کے بر خوردار
سمید صاحب ، زاہد مجید صاحب اور زبیر الرحمن صاحب کے ہمراہ 3 بجے کے قریب
سفر شروع ہوا۔
گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی ۔ سائق کے فرائض جناب اعجاز صاحب سر
انجام دے رہے تھے ۔ ہیڈ اسلام دریائے ستلج سے گزر کر ہم شہر لڈن پہنچے ۔
لڈن دریائے ستلج سے 8 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ یہ وہاڑی ، حاصل پور
، بورے والا اور کر م پور کےسنگم پر واقع ہے ۔ ضلع وہاڑی کی یہ ایک سب
تحصیل ہے ۔ اسلام کی اشاعت یہاں 713ھ میں محمد بن قاسم ؒکی آمد ہی سے شروع
ہو گئی تھی۔ جب محمد بن قاسمؒ نے گھوتو وال موجودہ دیوان صاحب کے راجہ کو
شکست دی اور شیخ چاولی مشائخ دیوان حاجی شیر صاحب مشرف بہ اسلام ہوئے تو
علاقہ بھر میں اسلام کی کرنیں پھیلنے لگیں۔
شیر شاہ سوری کے زمانے میں صوبہ ملتان اور دار الخلافہ دہلی کو ملانے والی
جرنیلی سڑک لڈن کے مقام سے گزر کر جاتی تھی اور یہاں جامع مسجد کے قریب ان
کی ڈاک چوکی تھی۔ 1779 ء میں ان علاقوں پر سکھوں نے قبضہ کر لیا تھا ۔ بعد
ازاں 1849 ء میں جب انگریز وں نے ان سب علاقوں پر قبضہ کیا تو لڈن کوضلع
ملتان کی سب تحصیل بنا دیا ۔ 1942 ء کے بعد لڈن کو ضلع وہاڑی سے جوڑ دیا
گیا۔
شہرلڈن بہت بڑا نہیں مگر تاریخی حیثیت سے اہم نام و مقام کا حامل شہر ہے ۔
گنا ، کپاس ، چاول اور گندم کی پیداوارکا بہترین علاقہ ہے ۔ یہاں پر معروف
خاندان جوئیہ ، دولتانہ ، خاکوانی ، سید ، ارائیں ، ورک ، لنگڑیال ، سنپال
، کملانہ ، بھٹی ، چدھڑ اور جٹ آباد ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں یہاں کے دولتانہ خاندان نے خوب نام حاصل کیا ہےاور
قومی اسمبلی کے کئی افراد ممبر رہے ۔ جیسے میاں ممتاز دولتانہ ، جاوید
ممتاز دولتانہ ، میاں ریاض احمد خان دولتانہ اور صاحبزادی تہمینہ دولتانہ
صاحبہ ۔
گاڑی بڑی تیزی سے اپنی منزل کی جانب بڑھ رہی تھی ۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی
کہ جس طرح موت کسی کا انتظار نہیں کرتی ایسے ہی لوگ نماز جنازہ کی نماز کی
پابندی میں بھی بے مثا ل کردار ادا کرتے ہیں ۔
پل بھی ہوتی نہیں آگے پیچھے
موت ہے وقت کی پابند بہت
حاصل پور سے 50 کلو میٹر کے فاصلے پر شہر وہاڑی جو کہ لڈن کا صدر مقام ہے ،اب
ہماری گاڑی وھاڑی سے گزر رہی تھی۔ شہر وہاڑی دو دریاؤں ستلج اور سکھر بیاس
کے درمیان واقع ہے ۔ ماضی میں یہ علاقہ نیلی بار کہلاتا تھا ۔ یہاں میں آپ
کو وہاڑی کی وجہ تسمیہ تک لے چلتا ہوں۔ ضلع وہاڑی کے علاقے میں دریائے بیاس
جسے آج کل مقامی لوگ سکھ ویاہ (خشک بیاس) کہتے ہیں ،جب بیاس سوکھ گیا تو
برساتی نالے کی گزر گاہ کے لئے بھی لفظ"ویاہ" استعمال ہونے لگا۔ چنانچہ
برساتی نالوں کے قریب آباد بستیاں جو لفظ "ویاہ " کی نسبت سے " ویاڑی" اور
پھر ہوتے ہوتے " وھاڑی" کہلائیں ،اس علاقے میں کئی بستیاں مثلاً وھاڑی
سموراںوالی ، اور وھاڑی ملکاں والی وغیرہ ہیں ۔ وھاڑی دراصل "وھاڑی لُڑکیاں
والی " اک بستی تھی ۔ یہاں آج کل اسلامیہ ہائی سکول ہے رفتہ رفتہ اس نام
کا تخصیصی حصہ "لُڑکیاں والی " کثرت استعمال سے حذف ہو گیا اور اس پرانی
بستی کی جگہ جواب ناپید ہو چکی ہے نئ آباد ہونے والی بستی صرف " وھاڑی"
کہلائی ۔ شہر وھاڑی کو پہلے پہل میلسی سے جوڑا گیا پھر ملتان سے اور اب
وھاڑی خود ایک ضلع کی حیثیت رکھتا ہے ۔
شہروھاڑی سے ہم براستہ کچا کھوہ خانیوال جانے کی نیت سے نکلے تھے ۔ کچا
کھوہ حاصل پور سے 95 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔
دوران سفر گاڑی کا Bluetoth آن تھا ۔ ہم بیانات اور چند شعراء کے سنجیدہ
کلام سے محظوظ ہورہے تھے ۔ چونکہ یہ سفر صرف اور صرف رضائے الٰہی کے لئے
نماز جنازہ میں شرکت اور تعزیت کی غرض سے تھا اور تمام رفقاء پر سنجیدگی کے
آثار نمایاں تھے ۔ ہمارے قافلے میں چشتیاں سے آنے والے احباب مولانا زاہد
سلفی صاحب، جناب عرفان صاحب ،جناب شانی صاحب،جناب مصطفی صاحب ،جناب
عبدالسلام بن عبد القدوس صاحب ، ڈاکٹر اسلم صدیقی صاحب ،نواز ٹوڈھی صاحب
اور بھائی عبدا لرحمن صاحب بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں شامل تھے ۔ یقینا یہ
سب بھائی رسول کریمؐ کے فرمان عالیشان کی صداقت کو قبول کر کے اجر عظیم کے
حصول کے لیے خانیوال پہنچ رہے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:
((مَنْ عَزّٰی اَخَاہُ الْمُؤْمِنَ فِی مُصِیْبَۃٍ کَسَاہُ اﷲُ حُلَّۃً
خَضْرَآئَ یُحْبَرُ بِھَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ))
’’ جو شخص اپنے مومن بھائی کو اس تکلیف میں تسلی کی تلقین کرے اور اس کی
تعزیت کرے اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن سبز رنگ کا لباس پہنائے گا ۔‘‘
صحابہ کرام ث نے پوچھا : ((یحبر بہا)) کیا مطلب ہے ؟آپ نے فرمایا اس پرر
شک کیا جائے گا دوسرے اس پر رشک کریں گے کاش یہ لباس ہمیں بھی مل جائے ۔
تاریخ بغداد(۷؍۳۹۷)
حاصل پور سے خانیوال ایک سو پچیس( 125 )کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ ہم
5 بجے کے لگ بھگ شہر میں داخل ہو گئے ۔
شہر خانیوال کے مشرق میں ساہیوال ، مغرب میں ملتان ، شمال میں جھنگ اورٹوبہ
ٹیک سنگ اور جنوب میں وھاڑی اور حاصل پور واقع ہیں۔
خانیوال کو جولائی 1985 ء کو ضلع کی حیثیت دی گئی اس سے پہلے یہ ملتان کی
ایک تحصیل تھا۔ اس کی چار معروف تحصیلیں ہیں : خانیوال ، میاں چنوں ، کبیر
والا اور جہانیاں ۔ قدیم دور میں یہ بستی "گورشاں والی" مشہور تھی ۔ یہاں
پر پنجاب کی مشہور برادری "ڈاہا" کی ایک چھوٹی سی بستی تھی ۔ ڈاہا برادری
کے لوگ اپنے آپ کو خان کہلاتے تھے۔ چنانچہ یہ بستی "خانہ والا" کہلانے لگی
جو ہوتے ہوتے خانیوال بن گئی۔
یہاں پر سکھوں کا راج تھا۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے وقت ڈاہا قبیلہ کے
سردار حسن خان کے پوتے زیادت خان نے انگریزوں کی بھر پور مدد کی ۔ جس کے
صلے میں اسے بہت سی مراعات ملیں۔ یہی وجہ ہے کہ خانیوال اس ڈاہا قبیلے کا
مرکز بن گیا۔
خانیوال میں پہنچ کر سب احباب نے جناب اختر صاحب سے تعزیت کی اور انہیں
مسنون دعا دی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعزیت کے وقت دیا کرتے تھے۔
نبی اکرم ؐ تعزیت کے وقت یہ دعاپڑھا کرتے تھے:
((إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِنْدَهُ
بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ))
’’جو چیز اللہ تعالیٰ لے جائے وہ اللہ کی ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ عطا
کردے وہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ اور ہر چیزکااللہ تعالیٰ کے ہاں وقت مقرر
ہے ‘بس صبر کرو اور ثواب کی امید رکھو۔‘‘
صحیح بخاری، الجنائز ( ۱۲۸۴)
سورج اپنی آب و تاب آہستہ آہستہ کھو رہا تھا اور ہمیں نماز عصر کی
ادائیگی کی فکر لاحق تھی ۔ معلوم ہوا نماز جنازہ چھ بجے جامعہ سعیدیہ سلفیہ
میں ادا کی جائے گی ۔ ہم نے اختر صاحب سے اجازت لی اور جامعہ میں پہنچ گئے
ہمارا ستقبال صاحبزادہ حافظ مسعود اظہر صاحب نے کیا ۔ مختصر سلام کے بعد
نماز عصر باجماعت تمام ساتھیوں نے ادا کی ۔ بعد ازاں حافظ مسعود اظہر صاحب
نے جامعہ کی لائبریری کا وزٹ کروایا ۔ حافظ عبد الرشیداظہررحمہ اللہ کے
صاحبزادوں میں قابل ترین حافظ مسعود اظہر صاحب ہی ہیں ۔
حافظ مسعود عبد الرشید اظہر صاحب فاضل کلیہ اصول الدین جامعہ الامام محمد
بن سعود الاسلامیہ الریاض(1999تا2005) ہیں انہیں نے عربی میں ایم فل اور پی
ایچ ڈی بھی کی ہوئی ہے،اور آجکل جامعہ سعیدیہ سلفیہ خانیوال کے مدیر ورئیس
ہیں اور جماعت کی طرف سے ناظم تعلیمات پنجاب اور نائب امیر مرکزی جمعیت
اہلحدیث ضلع خانیوال بھی ہیں۔
جامعہ سعیدیہ سلفیہ خانیوال ہی سے ان کے والد محترم حافظ عبد الرشید اظہر
رحمہ اللہ نے سند فراغت فرمائی ،یہاں میں حافظ صاحب کا مختصر تعارف پیش کر
دیتا ہوں تاکہ خانیوال کی معروف علمی شخصیت کی یاد تازہ کی جا سکے۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر �صاحب یکم فروری 1953ء کوراقم کے ضلع بہاولپور
میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب ہندوستان کے ضلع فیروز پور، تحصیل زیرہ کے
ایک گاؤں امین والا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ وہاں ان کی کچھ زرعی
زمین تھی اور کھیتی باڑی ہی ان کا مشغلہ تھا۔قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت
کر کے پاکستان آئے توپراپرٹی کے انتقال کے لئے ابھی حکومتی کاروائیاں مکمل
ہونا باقی تھیں ،اس لیے وہ ہجرت کے بعد بہاولپور میں ڈاکٹر صاحب کے ننھیال
میں کچھ عرصہ ٹھہرے رہے۔ اسی دوران ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر پیدا ہوئے۔
بعد میں ان کے والد صاحب کو چیچہ وطنی کے قریب ایک گاؤں 170؍9 ایل ،میں
زرعی زمین الاٹ ہو گئی تو وہ وہاں منتقل ہو گئے۔اسی گاؤں کے حافظ عبدالغنی
جو کہ بصارت سے محروم تھے مگر صاحبِ بصیرت تھے ، سے ننھے عبدالرشید نے
قرآن پاک حفظ کیا۔ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر رحمہ اللہ بتایا کرتے تھے کہ
حفظ کرتے کرتے ہی میں نے اُردو لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا اور مجھے
اُردو لکھنے اور پڑھنے میں کوئی دشواری نہ ہوتی تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ
اُردو لکھنے اور پڑھنے میں میرا کوئی استاد نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب یہ بھی بتایا
کرتے تھے کہ حافظ عبدالغنی میرے اُستاد بھی تھے اور شاگرد بھی ۔ شاگرد یوں
کہ اُنہوں نے پوری مشکوٰۃ شریف مجھ سے حفظ کی ۔ وہ مجھ سے روزانہ دو تین
احادیث سنتے تھے اور پھر اُن کو یاد کر لیتے تھے ، ان کا حافظہ بہت تیز
تھا، اُنہوں نے پوری مشکوٰۃ شریف مجھ سے سن سن کرحفظ کر لی تھی۔ قرآن پاک
کے ساتھ شغف بھی اُن ہی کی وجہ سے ہوا، وہ روزانہ مجھ سے مختلف تفاسیر سنا
کرتے تھے ۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کا ترجمہ اور تفسیر موضح القرآن اور
مولانا محمود الحسن دیوبندی � اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی تفسیر عثمانی،
از اوّل تا آخر میں نے اُنہیں پڑھ کر سنائی۔ وہیں سے قرآنِ پاک کے ساتھ
تعلق کی ابتدا ہوئی۔
حفظِ قرآن کے بعد آپ کو جامعہ سعیدیہ خانیوال میں داخل کروا دیا گیا۔ چار
سال کے بعد وہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد چلے گئے اور وہیں سے سند ِفراغت حاصل
کی۔ جہاں مولانا عبداللہ بڈھیمالوی اور مولانا حافظ بنیامین طور جیسے
اساتذہ سے وہ از حد متاثر ہوئے ۔ جامعہ سلفیہ سے درس نظامی مکمل کرنے کے
بعد حافظ عبدالرشید اظہر �جامعہ سعیدیہ خانیوال سمیت مختلف مدارس میں
پڑھاتے پڑھاتے آخر کار جامعہ سلفیہ میں پڑھانے لگے، جہاں اُنہوں نے تعلیم
و تربیت کے ساتھ ساتھ جامعہ کے شعبہ تصنیف و تالیف کی بنیاد رکھی اور کئی
کتب بھی شائع کیں۔شعبان سن 1400ھ بمطابق1978 ء میں اُن کا داخلہ عالم اسلام
کی معروف یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ میں ہو گیا جہاں وہ اگست
1984ء تک علم کی اعلیٰ منازل طے کرتے رہے۔ وہ تعلیم مکمل کر کے واپس
پاکستان آئے تو30ستمبر1984ء کو اُنہیں مکتب الدعوۃ میں داعی کی ذمہ داریاں
سونپ دی گئیں ، تب مکتب کا دفتر لا ہور میں تھا۔ یکم ستمبر1987ء کو مکتب
الدعوۃ کا دفتر لا ہور سے اسلام آباد منتقل ہوا تو ڈاکٹر صاحب نے بھی
اسلام آباد کواپنا مسکن بنا لیا مگراپنے آبائی علاقے سے اُنہوں نے اپنا
ناطہ ٹوٹنے نہ دیا اور وہاں بھی دعوت و تبلیغ اور اشاعتِ دین کا کا م پورے
شد و مد کے ساتھ جاری رکھا۔
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر �کے حالاتِ زندگی، اُن کی تعلیم و تعلّم کے
دوران کے دلچسپ احوال و واقعات، دعوت و تبلیغ کے میدان میں اُن کے طویل
تجربات اور سعودی عرب کے علما اور زعما کے ساتھ اُن کے گہرے تعلقات و مراسم
کی تفصیلات کا احاطہ کسی ایک مضمون میں کرنا ممکن نہیں ، یہ ایک ضخیم کتاب
کا موضوع ہے۔
آپ ساری زندگی مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ وابستہ رہے تاہم پاکستان کے
تمام مکاتبِ فکر اور دینی و علمی حلقوں میں اُنہیں انتہائی عزت و احترام کی
نگا ہوں سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی
رہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے مداحوں اور چاہنے والوں کا حلقہ تمام مکاتبِ فکر
اور پوری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔
آپ بجا طور پر ایک مفکر ِاسلام، قرآن و سنت کے سچے داعی، امن کے علم
بردار اور علوم شریعت کے ماہر اور حاذق تھے۔
بلا شبہ ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر �عالمِ اسلام کا ایک قیمتی اثاثہ
تھے،جنہیں سترہ مارچ 2012ءکو وفاقی دارالحکومت میں دن دیہاڑے شہید کر دیا
گیا اور سفاک قاتل اُن کی گاڑی، موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیا ءلے کر
فرار ہو گئے۔ گزشتہ چند سال قبل پشاور سکول کے بچوں کو جب بڑی سفاکی سےشہید
کیا گیا تو اس وقت کسی نے اک شعر کہا تھا جومجھے آج یاد آ رہا ہے:
جو علم کے سفیر تھے انہیں شہید کر دیا
جو روشنی کی امید تھے انہیں کا خون کر دیا
کوئی تو پوچھے ان ظالموں سے جرم ان سے کیا ہوا ؟
مسقبل کے معماروں کو خاک و خون میں بھر دیا
حافظ مسعود اظہر صاحب آج بھی تن تنہا بغیر کسی عزیز اور بغیر کسی جماعتی
سپورٹ کے سفاک قاتلوں کے خلاف کیس لڑ رہے ہیں اور ابھی بھی کیس ھائیکورٹ
میں چل رہا ہے یقینا ا کیس سے ڈاکٹر صاحب واپس تو نہیں آ جائیں گے مگر اک
کوشش ضرور ہے کہ قاتلوں کو کیف کردار تک پہنچایا جائے تاکہ کل کوئی بھی کسی
محدث ،عالم ،علم دوست اور دین کے داعی کی طرف انگلی نہ اٹھائے۔یقینا ایسے
علماء کا دنیا سے اٹھ جانا علم کے زوال کی طرف اشارہ ہے۔
نماز جنازہ سے قبل مجھے حکم ملا اور چند منٹ گفتگو کی اور نماز جنازہ حافظ
ظہیر احمد سعیدی صاحب(فاضل مدینہ یونیورسٹی) نے بڑے رقت آمیز لہجے میں
پڑھائی ۔
نماز جنازہ کے بعد خانیوال کے بہت سے دوستوں سے ملاقات ہوئی جن میں محترم
جناب مولانا خبیب سعیدی صاحب، عرفان شانی ، چوہدی عزیز لطیف صاحب نائب امیر
جماعت اسلامی پنجاب، جماعۃ الدعوۃ خانیوال کے ذمہ داران محترم عبد اللہ
عمیر صاحب ، محترم سیف اللہ صاحب ، عبد الحکیم سے ہمارے فاضل بھائی عامر
شریف صاحب سرفہرست ہیں ۔
عامر بھائی کے حکم پر خانیوال میں کچھ دیر ٹھہرے ۔ ان کی پرخلوص ضیافت کو
قبول کیا ، جامع مسجد ابو بکرصدیقؓ میں نماز مغرب کی ادئیگی کے بعد چند منٹ
درس قراآن دیا اور ملی مسلم لیگ کے مرکزی دفتر کا بھی وزٹ کیا اور اجازت
لے کر واپسی کا سفر شروع کر دیا ۔
واپسی پر وھاڑی شہر میں شہر کے معروف عالم دین مولانا حافظ بلال ربانی صاحب
کی زیادرت کی اور ضیافت سے بھی لطف اندوز ہوئے ۔ حافظ مسعود اظہر صاحب ،
محترم عامر شریف صاحب اورحافظ بلال ربانی صاحب کی محبت اور خلوص کو ہمیشہ
یاد رکھا جائے گا۔
|