’خون سفید ہونا‘‘تو اردو زبان کا قدیم محاورہ ہے، لیکن
دنیا میں ایک قبیلہ ایسا بھی ہےجس کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ان کا خون
’’سیاہ‘‘ رنگ کا ہوتا ہے ، اس کے لیے وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ان کے بدن
میں موجود خون کی مخصوص رنگت اور سیاہ خلیوںکی وجہ سے ان کے جسموں پر سرد
موسم کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔یہ یورو قوم کے افراد ہیںہے جن کا شمار دنیا کی
قدیم ترین اقوام میں ہوتا ہےاور کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ’’اِنکا تہذیب‘‘ سے
بھی زیادہ قدیم ہیں ، جو پیرو اور بولیویا میں واقع جھیل ٹیٹیکاکا کے پانی
پر تیرتے ہوئے 42 جزائر میںرہائش پذیر ہیں جوپانی کے اندرخشک مٹی یا پہاڑی
چٹانوں کی بجائے چوبی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی تخلیق کاری میں قدرتی عوامل
کی بجائے انسانی ہاتھوں کی محنت و مشقت کارفرما ہے جس نے ایسا محیرالعقول
کارنامہ انجام دیا ہے جس سے موجود دور کے سائنسی ماہرین بھی حیران ہیں۔زمین
پرلکڑی کے تختوں اور پٹروں سے مکانات تودنیا میں بیشتر مقامات پرہیں لیکن
سطح آب پردرختوں کے موٹے تنوں ، نرسل، سرکنڈو ںاورگھاس پھوس سے 42 مصنوعی
جزائر کی تعمیر، حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ یورو قوم کے تین بڑے گروپ ہیں جن
کے نام یورو چپیاس، یوروموراتس اور یوروایروئتس ہیں، ان میں سے آخرالذکر
قبیلہ آج بھی ’’ ٹیٹیکاکا‘‘ جھیل میںبولیویا والے حصے اورپیرو میں دریائے
ڈیزاگواڈیروپرآبی بستیاں بنا کر رہتاہے۔ ان کی مذکورہ بستیاں اورمصنوعی
جزائر دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ مذکورہ قبیلہ ہزاروں سال
قبل پوکینانامی قصبے میں رہتا تھا جو بولیویا میں پہاڑوں پر واقع ہے لیکن
ایک طاقت ور قبیلے نے ان پر حملہ کرکے انہیں اس پہاڑی قصبے سے بے دخل
کردیا، جس کے بعد سے انہوں نے زمینی زندگی ترک کرکے بہتے پانی پر اپنی
تیرتی بستیاں آباد کرلیں۔ ان کی زبان بھی یورو اور پوکینا ہے ۔ اس قبیلے
کے بارے میں قدیم روایت ہے کہ جھیل ٹیٹیکاکا اور اس کے بہتے پانی کے اصل
مالک، اسی قوم کے افراد ہیں۔مذکورہ قبیلہ خود کو لوپی ہیکس بھی کہتا ہے ،
جو قدیم زبان کا لفظ ہے جس کےبولیویا کی مقامی زبان میں لغوی معنی ’’سورج
کے بیٹے‘‘ کے ہیں۔ٹیٹیکاکا جھیل ان کے لیے ایک مقدس حیثیت کی حامل ہے۔
ہزاروں سال سے اپنی قدیم روایات اوررسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کرنے
والا قبیلہ بھی کسی حد تک سائنسی ترقی سے متاثر ہوکر جدید ماحول میں مدغم
ہوگیا ہے ۔ یورو نسل کے زیادہ تر لوگ موجودہ دور میں نہ تو یورو زبان بولتے
ہیں اور نہ ہی اپنی قدیم روایات اور فرسودہ عقائد پر کاربند ہیں،
مگرمتعددافراد اپنی پرانی روایات اوررسم و رواج کو اپنے سینے سے لگائے ہوئے
ہیں اور انہیں کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ آج بھی سطح
آب پر رہتے ہیں اور ان میں سے بیشتر افراد کا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے۔
قبیلے کے لوگ اپنے مرُدوں کی آخری رسومات کے لیے انہیں جھیل کے پانی کے
حوالے نہیں کرتے، کیوں کہ ان کے عقیدے کے مطابق اس سے جھیل کا پانی ناپاک
ہوجاتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے خشکی پر اپنے مخصوص قبرستان بنارکھے
ہیں جہاں وہ قبیلے کی قدیم رسم و رواج کے مطابق تدفین کرتے ہیں۔ابتدا میں
انہیں پیٹ بھرنے کا مسئلہ بھی درپیش رہا، کیوں کہ وہ گوشت ، سبزیاں اور
دیگر اجناس کو پکا کر کھانے کے عادی ہیں۔ ان جزائر پر بسنے والے لوگوں کے
لیےسب سے بڑا مسئلہ آگ جلانا ہے، چوں کہ یہ تمام مصنوعی جزائردرختوں کے
سرکنڈوں ، جنگلی بیلوںاور نرسل کی رسیوںسے تیار کیے گئے ہیں۔ گھاس پھوس اور
لکڑی جلد آگ پکڑتی ہے۔اس خطرے کا تدارک کرنے کے لیےانہوں نے اپنے جزائر کے
قریب خشکی پر ننھے منے کچن ٹائپ کےکمرےبنالیے جن میں پتھروںکے چولہے بنا کر
ان میں آگ سلگاکر کھانا تیار کیا جاتا تھا۔پانی پر تیرنے والے ان جزائرکے
قیام کے بارے میں آج بھی متضاد باتیں کی جاتی ہیں ، اس پردنیا بھر کے
ماہرین نے تحقیق کی جس سے معلوم ہوا کہ جب بیرونی حملہ آوروں نےاس علاقے
پر حملہ کیا، قبیلے کے بے شمار افراد مارے ، گھر تباہ اور پہاڑی بستیوں پر
قبضہ کرلیا گیاتھا ۔ لوگ جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگے مگر خشکی پر موجود
کسی علاقے میں نہیں گئے، بلکہ پہاڑی چٹانوں کے نیچے موجود ’’ٹیٹیکاکا
‘‘جھیل کے پانی میں پناہ لی۔ ابتدا میں انہوں نے لکڑی کی قدیم طرز کی
کشتیاں بنا کران میں رہائش اختیار کی، بعدازاںاسی جھیل کی سطح آب پرمستقل
طورپر بستی بنالی۔ یہ ایسی بستی تھی جو زمین یا خشکی کے ٹکڑے کے بجائے پانی
پر بنائی گئی تھی اس کے بعد سے یہ لوگ خشکی کی بہ نسبت سطح آب پر رہنے کو
ترجیح دینے لگےجو یورو قوم نے دفاعی حصار کے طور پر تعمیر کی تھیں،بعد میں
مزید بستیاں وجود میں آتی گئیں اور کچھ ہی عرصے بعد، یہ آبی بستیاں جزائر
کی صورت میں مذکورہ جھیل میں پھیل گئیںجن کی تعداد اس وقت تقربیاً
42ہے۔آثار قدیمہ کے ماہرین حیران ہیں کہ ان تیرتے ہوئے چوبی جزائر کی
تعمیر میں ایسی کون سی اشیاء کااستعمال کیا گیاجن کی وجہ سے وہ پانی کی سطح
پر مستحکم حالت میں موجود ہیں۔ طویل تحقیق کے بعد علم ہوا کہ ان جزائر کی
تعمیر میںپیرو کے جنگلات کے درختوں کےموٹے تنوں اور پیڑ پودوں کو استعمال
کیا گیا ہے،ان سے پلیٹ فارم بنائے گئے جن پر گھاس پھوس اور نرسل کے سرکنڈے
پھیلاکر زمین کی شکل دی گئی ہے۔ ستونوں کی صورت میں سہارا دینے کے لیے جھیل
کی گہرائی میں لمبے لمبے بانس ڈالے گئےجنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے ان ہی
جنگلات میں اُگنے والی جنگلی بیلوں، نرسل اور سرکنڈوں کی مضبوط ڈوریوں سے
مدد لی گئی۔ جنگلی بیلوں اور ڈوریوں کو ملاکررسی کی صورت میںبٹنے کے بعد
ایک موٹی سی تہہ تیار کی جاتی ہے جسے مقامی زبان میں خیلی کہا جاتا ہے۔ یہ
تہہ لگ بھگ ایک سے دو میٹر موٹی ہوتی ہے، پھر لکڑی کے موٹے تختوں سے تیار
کیے گئے ان چوبی پلیٹ فارموں میں مضبوط رسیاں باندھی جاتی ہیں، یہ رسیاں
قبیلے کے ماہر غوطہ خور اور تیراک نیچے لے جاکر جھیل کی تہہ میں باندھ دیتے
ہیں۔ جزیروں کی تہوںمیں باندھی جانے والی یہ رسیاں چوں کہ جلد گل سڑکر خراب
ہوجاتی ہیں، اس لیے انہیں وقتاً فوقتاً تبدیل کیا جاتا ہے۔یہ سلسلہ ان
جزائر کے قیام سے لے کر اب تک مسلسل جاری ہے، ہر تین ماہ بعد ان سرکنڈوں
اور نرسل کی رسیوں کو بدلا جاتا ہے۔ یہ انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے جو
قبیلے کے افراداپنے تعمیر کیے ہوئے 42 چوبی جزائرکو قائم و دائم رکھنے کے
لیے صدیوں سے انجام دے رہے ہیں۔یورو قبیلےکی تیرتی ہوئی بستیاں سطح سمندر
سے لگ بھگ 3810میٹر یعنی 11,430فٹ بلندی پر بنائی گئی ہیں۔
سطح آب پر تعمیراتی فن کا یہ ایک عظیم کارنامہ ہے جو مذکورہ قبیلے کے
افراد نے انتہائی جاں فشانی سے انجام دیا ہے۔ مذکورہ چوبی جزائر،پونو پورٹ
کے مغربی جانب صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔خشکی پر رہنے والوں
کے لیے ان کی سیر ایک دل چسپ تجربہ ہوتی ہے ، جب کہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے
ایک بڑے ایڈونچر کی حیثیت رکھتا ہے۔ پیرو اور بولیویا کی سیاحت کے لیے آنے
والے افرادجھیل کے اندر واقع ان تیرتے ہوئےجزائرکو دیکھنے کے لیے ٹیٹیکاکا
جھیل پہنچتے ہیں ، جہاں وہ کئی روز تک قیام کرکے جزیروں کے پلیٹ فارموں کو
باہمی مربوط رکھنے والی رسیوں کی تبدیلی کے عمل کا انتظار کرتے ہیں، جوں ہی
وہ دن آتا ہے ، لوگ جھیل کے کنارے کھڑے ہوکر اس حیرت انگیز نظارےکا مشاہدہ
کرتے ہیں اوریورو قبیلے کے افراد کے اس پرُ خطر کام پر انہیں خراج تحسین
پیش کرتے ہیں۔ موسم برسات میں ان تیرتے ہوئے جزائر کی سیر کے لیے آنا اور
یہاں پر چہل قدمی کرنامقامی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے ایک ہیبت ناک تجربہ
ہوتا ہے ، کیوں کہ اس موسم میں سرکنڈوں اور نرسل سے تیار کردہ رسیاں جلد ہی
گل سڑ کر برباد ہوجاتی ہیں۔ جب لوگ اس مصنوعی جزیرے پر چلتے ہیں توہر قدم
اٹھانےکے ساتھ ان کے وزن سے جزیرے کا مذکورہ حصہ بعض مقامات سے پانی میں
ڈوب جاتا ہے، اور اس پر جتنا زیادہ بوجھ پڑتا ہے، وہ حصہ اتنا ہی زیادہ زیر
آب چلا جاتا ہے ۔بارش کے بعد جب سرکنڈوں اور نرسل کی رسیاں خشک ہوتی ہیں
تو لوگوں کے چلنےپھرنے کی وجہ سے وہ زیاد ہ تیزی سے ٹوٹنا شروع ہوجاتی
ہیں۔جب ان کی تہیں شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہیں تو ان کے اندر نمی داخل
ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ جلد ختم ہونے لگتی ہیں اور مذکورہ جزیرے کے پلیٹ
فارم کے غیر مستحکم ہونے کا خدشہ لاحق ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے یورو قبیلے کے
افرادمذکورہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے قبل از وقت سرکنڈوں ، بیلوں اور نرسل
کے ذریعے ڈوریاں یا رسیاں تیار کرکے رکھتے ہیں ، ضرورت پڑنے پر فوری طور پر
پرانی رسیاں کھول کر نئی رسیاں باندھ دی جاتی ہیں۔جزائر کے چوبی پلیٹ فارم
کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ قبیلے کے لوگوں کو سیاحوں پر بھی نظر رکھناپڑتی
ہے جو ان کی روزی کا ذریعہ ہیں ۔ وہ ان جزائر کی سیر کے لیے آنے والے
سیاحوں کے لیے اچھے میزبان ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی جاں
فشانی کے ساتھ 42جزائر پر مشتمل اپنے آبائی وطن کی حفاظت کے لیے پہریداری
کا فریضہ بھی انجام دیتےہیں۔
پانچ سو سال قبل یورو قبیلے کےزیادہ تر افراد نے اسی خطے میں خشکی پر رہنے
والےآئماراقبیلے کے ساتھ تعلقات استوار کرلیے تھے، جو ابتدا میں تو تجارتی
نوعیت کے تھے لیکن بعد میں یہ اس حد تک بڑھ گئے کہ انہوں نے آپس میں رشتہ
داریاں قائم کرلیں اور ایک دوسرے کی تہذیب و ثقافت میں مدغم ہوتے گئے۔اس کا
سب سے بڑا نقصان یورو قبیلے کو ہوا ،وہ اپنی قدیم زبان کو بھولتے گئے
اورقبیلے کے لوگوں میں آئمارا زبان اپنی جگہ بناتی گئی۔ آج کے یورو قبیلے
کی اکثریت نے روزگار کے لیے جدید طریقے اپنا لیے ہیں۔ ان میں سے بیشتر جدید
معاشرے کا حصہ بن گئے ہیںاور جدید ٹیکنالوجی کے حصول پر توجہ دے رہے
ہیںانہوں نے اپنی روایتی کشتیوں میں طاقت ور انجن لگا لیے ہیں جو پیٹرول یا
ڈیزل سے چلتے ہیں، نیز اپنے گھروں میںبھی شمسی توانائی سے استفادے کے لیے
سولر پینل لگا لیے ہیں،جن سے ٹی وی وغیرہ چلائے جاتے ہیں۔متعددتیرتے ہوئے
جزائر میںبچوں کی تدریس کے لیے مشنری اسکول قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن ان کے
بزرگوں کی اکثریت اپنی قدیم روایات کے مطابق زندگی بسر کررہی ہے۔1997کی
مردم شماری کے مطابق مذکورہ جزائر کی آبادی 2000 نفوس پر مشتمل تھی لیکن
اب وہاں سے زیادہ تر افراد نقل مکانی کرکے خشکی پر آباد ہوگئے ہیں ، ان
چوبی جزائر پر صرف چند سو افراد ہی رہائش پذیرہیں۔آنے والے دورمیںمصنوعی
طور سے بنائے گئے ان تاریخی جزائر کی معدومیت کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
یورو لوگ، اچھے دست کار بھی ہیں ، لکڑی اور مختلف دھاتوں کی مدد سے خوب
صورت اشیاء تیار کرتے ہیں، جنہیں وہ خشکی پر جاکر فروخت کرتے ہیں۔ اس کے
علاوہ ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ غیر ممالک سے آنے والے وہ سیاح ہیں جو
ایڈونچر کے شائق ہوتےہیں اور نت نئے تجربات کے شوق میں دنیا کے دور دراز
اور دشوار گزار علاقوں کا سفر کرتے ہیں۔ جھیل کے سینے پر تیرنے والے ان
جزائر کی کشش انہیں بولیویا اور پیرو کی’’ ٹیٹیکاکا‘‘ جھیل پر کھینچ کر لے
آتی ہے، جہاں وہ سطح آب پر قائم انوکھے اور بے مثال جزیروںاور جھیل کے
پانی میں تیرتی ہوئی یورو قوم کی چوبی بستیوں کو بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں۔
ان سیاحوں کے آنے سےیہاں کے لوگوں کو آمدنی کے وسیع مواقع بھی میسرہوجاتے
ہیں۔ یہاں کی سیر کرتے ہوئے مقامی افراد کے ہاتھوں سے بنائی گئی اشیاء کی
کشش انہیں اپنی جانب کھینچتی ہے اور وہ یورو قبیلے کے دست کاروں کی تیار
کردہ اشیاء کو سوغات سمجھ کر خریدتے ہیں ۔لیکن ان کا سارا کاروبار ، بارٹر
سسٹم کے تحت ہوتا ہے جس میں مختلف اشیاء کے بدلے اپنی ضرورت کی چیزیں لیتے
ہیں۔مذکورہ قبیلے کے افراد اپنی غذائی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مویشی اور
پرندے پالتے ہیں، جن سے انہیں لحمیاتی پکوان بنانے کے لیے گوشت مہیا ہوتا
ہے۔یہ لوگ آبی پرندے بھی پالتے ہیں جو ان کی خوراک کا انتظام کرنے کے لیے
جھیل کے گہرے پانی میں سے مچھلیاں پکڑ کر لاتے ہیں ۔ مقامی پرندہ آئی بس
پال کر وہ اس سے انڈے حاصل کرتے ہیں جب کہ یہ پرندہ ان کے لیے گوشت کے حصول
کا بھی ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بگلے، بطخوں اور دیگر آبی پرندوں کا بھی
شکار کرتے ہیں۔ اب یہ تاریخی قبیلہ اپنا وجود کھوتا جارہا ہے، اس کے تعمیر
کیے ہوئے تیرتے ہوئے مصنوعی جزائر ویران ہورہے ہیں، شاید آنے والے چند
سالوں میں مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ ’’سطح آب‘‘ سے ’’زیر
آب‘‘ چلے جائیں گے۔ |