امریکہ نے جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان
کیا ہے جس میں پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کی خدمات کو ایک بار پھر مشکوک
قرار دیا گیا ہے امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے پالیسی خطاب میں کہا ہے کہ
پاکستان پر اربوں ڈالرلگائے ہیں مگر پاکستان آج بھی ہمارے دشمنوں کو تحفظ
فراہم کئے ہوئے ہے ،اب مزید برداشت نہیں ہوگا امداد لینی ہے تو ہماری
توقعات پر پورا اترنا ہوگا ،ورنہ حقہ پانی بند کردیا جائے گا ،پاکستان نے
اس پالیسی کے بعد تا حال قومی پالیسی کا اعلان تو نہیں کیا البتہ قوم کو
ایک بار پھر امریکہ نے تشویش میں مبتلاکردیا ہے ،امریکی نئی پالیسی سے صاف
نظر آرہا ہے کہ امریکہ پاکستان کو عملی طور پر اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے
،بلکہ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ وہ پاکستان کو اپنی کالونی سمجھ کر آڈر کر
رہا ہے تو بے جا نہ ہوگاایسا ہو کیوں نہ، جب ہمارے ارباب اقتدار چند ڈالروں
کے عوض امریکی مقاصد کیلئے کام کریں گے تو یہی ہوگا ،ہمارے حکمران لگتا ہے
دولت اکٹھی کرنے میں اس قدر مست ہو گئے ہیں کہ انھیں
اسلامی،اخلاقی،معاشرتی،انسانی اقدار کا ذرا بھی خیال نہیں رہا ۔ہمارا ماضی
اس حوالے سے کس قدر شرمناک ہے کہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈالرز کے
عوض اپنی ماں بیچ دیتے ہیں یہ کہاوت امریکیوں نے کیوں بنائی ،اس میں اصلیت
ہے یا نہیں ؟ جواب ہاں میں آئے گا کیونکہ پاکستانی حکمرانوں نے کبھی افغان
طالبان پر جابرانہ وارمسلط کروانے کرنے کیلئے اڈے دئیے تو کبھی چند ڈالرز
کے عوض قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو فروخت کردیا گیاجب ہمارے حکمران
دولت کی ہوس میں اس قدر اندھے ہو جائیں گے تو پھر اسی طرح ڈو مور کے مطالبے
ہوتے رہیں گے ۔
امریکہ کے حاکمانہ انداز سے ظاہر ہوتا ہے وہ پاکستان کے خلاف کوئی منظم
پلان کا آغاز کرنا چاہتا ہے محب وطن ،بااثر پاکستانیوں کو محتاط ہو نا ہوگا
اور دفاع وطن کیلئے منظم پلان مرتب کرنا ہوگا ۔اس اعلان کے بعد قومی قائدین
کی طرف سے مختلف انداز میں بیانات بھی جاری ہوئے جو روایتی انداز کی عکاسی
ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں ،جیسا کہ امریکہ پاکستان کو افغانستان نہ سمجھے یہ
پاکستان ہے اور امریکہ یاد رکھے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے،ہم امریکہ کی
اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مذہبی قائدین کی طرف سے کچھ اس طرح
کے بیانات جاری ہوئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا پاکستان کے
متعلق بیان قابل مذمت ہے بیان سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ یہودونصاریٰ
اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ،قرآن کی روشنی میں جب تک مسلمان دین اسلام
کو تک کرکے ان کے جھوٹے ،خودساختہ دین کو اختیار نہیں کریں گے یہ خو ش نہیں
ہوں گے،مسلمان دنیائے کفر سے امیدیں وابستہ کرنے کی بجائے عالم اسلام سے
تعلقات مضبوط کریں ،امریکی منافقانہ پالیسیوں کے باعث دنیا آگ وخون کی زد
میں ہے ،امریکہ کی نظر میں ہر مسلمان دہشت گرد ہے ، امریکہ دہشت گردی کے
نام پر صلیبی جنگ لڑ رہا ہے ،امریکہ کے نزدیک سب مسلمان دہشت گرد ہیں ۔امریکہ
تقسیم کرو اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو قتل کرنے کی پالیسی پر گامزن
ہے ،مسلمان حکمرانوں کو غیرت ،ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امریکی منافقانہ پا
لیسی کو ترک کرنا ہوگا ۔ قرآن مجید کی روشنی میں امریکہ ،اسرائیل اور اس کے
حواری مسلمانوں کو کافر بنانے تک ان سے خوش نہیں ہو ں گے ،صلیبی جنگ سے لا
تعلقی اختیارکرنا ہوگی ،مسلمان امریکہ کی ظالمانہ پالیسیوں کو ناکام بنانے
کیلئے اسلامی ادارہ خلافت بحال کرکے امیر المومنین کا تقرر کریں تاکہ امت
کی قوت یکجا ہو کر کفر کی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکے، امریکی ظالمانہ
پالیسیوں کے باعث دنیا آگ وخون کی زد میں ہے اس سے نجات امت مسلمہ کی وحدت
میں ہے ،پاکستان نے عالمی برادری کے ساتھ مل کر انسانیت کے قتل ،دہشت گردی
کو روکنے کیلئے تاریخ ساز قربانیاں دیں مگر امریکہ پاکستان کی قربانیوں کو
تسلیم کرنے سے ہر دور میں عاری رہا ،پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو سخت
پیغام دے کہ پاکستانی ایک غیرت مند قوم ہے اسے امریکہ کے ڈالروں کی نہیں
بلکہ مسلمانوں کی عزت وناموس کے تحفظ کی ضرورت ہے ٹرمپ کا حالیہ بیان
پاکستان کے خلاف اعلان جنگ سمجھا جائے اور امریکہ سے ہر قسم کے تعلقات ختم
کرنے کا اعلان کرے ۔محترم قارئین کرام! مذہبی قائدین کے بیانات بصیرت افروز
، قابل عمل،پاکستان اور امت کے تحفظ کی ضامن ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ان آراء
کو عملی جامہ پہنائے گاکون ؟پاکستان کے مذہبی قائدین اتنے با اثر ہی نہیں
ہیں ،انھیں تو حکومت والے سمجھتے ہی کچھ نہیں ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ جس دن
پاکستان میں اسلام پسند کوئی قیادت برسراقتدار آگئی تو یقیناً یہ ساری آراء
کو عملی جامہ پہنا دیا جائے گا۔
قارئین کرام!صورت حال سے باخبر حلقے ہی نہیں ہر عام وخاص جانتاہے کہ امریکہ
پاکستان کا کبھی بھی دوست نہیں رہا بلکہ دوستی کے نام پر امریکہ نے ہمیشہ
غداری کا ارتکاب کیا ،ہمیں بحیثیت قوم ایک فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم امریکہ
سے کس قسم کے تعلق قائم کرکے اپنا وقار بحال کر سکتے ہیں ،موجودہ تعلقات
بالکل غلامی در غلامی کے عکاس ہیں ،ڈومور کا مطالبہ بڑھتا ہی جا رہا ہے
،جبکہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان نے اس قدر قربانیاں کہ پاکستان کا کوئی
شہر ایسا نہیں بچا جہاں خود کش حملہ یا دھماکا نہ ہوا ہو ۔لاکھوں پاکستانی
اس جنگ میں جاں بحق ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں زخمی ۔پھر بھی امریکہ ہم
کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جس کہ وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ ہم مسلمان ہیں
۔جبکہ دوسری طرف امریکہ بھارت کو بجا سپورٹ کرکے خطے کے توازن کو خراب کرنے
میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے ۔ ٹرمپ کے بیان پر غور کیا جائے تو ہمیں افغان
طالبان سے بھی جنگ کرنے کا حکم دے رہے ہیں ،جب اس جنگ کا آغاز ہوا تھا تو
تب طالبان کا حدف امریکہ تھا نہ کہ پاکستان۔لیکن امریکہ نے ایسے حالات
وواقعات پیدا کر دئیے کہ یہ جنگ ہماری بن کر رہ گئی ۔انھی طالبا ن سے ٹرمپ
نے سیاسی سطح پر مذاکرات کا عندیہ بھی دیا ہے جو کہ کھلی منافقت ہے ۔امریکہ
ایک طرف ہمیں افغان طالبان سے الجھا دینا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف ان سے
دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا ہے ۔ہم سمجھتے ہیں پاکستان کو افغان پالیسی ازسرنو
مرتب کرکے اعلان کرنا چاہیے ۔یہ تو افغان طالبان کا پاکستان پر احسان ہے وہ
امریکہ کو لفٹ نہیں کرواتے اگر ایسا ہو جائے تو پاکستان کیلئے مسائل بڑھ
جائیں ۔ہماری ذاتی رائے یہی ہے کہ امریکہ کی منافقانہ پالیسیوں کو ناکام
بنانے کیلئے امت مسلمہ کی وحدت لازم وملزوم ہے وہ وحدت قرآن کی بنیاد پر
ہوجسے شریعت نے ادارہ ٔ خلافت کا نام دیا ہے ۔امت مسلمہ کو یہ کام ہنگامی
بنیاد پر کرنا ہوگا ورنہ زبانی جمع خرچ سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
|