مستقبل کا فیصلہ

 ہر سال لاکھوں طلباء و طالبات اپنی تعلیم مکمل کر کے مختلف شعبہ جات میں عملی میدان میں اترتے ہیں، لیکن ان لاکھوں میں سے چند فیصد ہی ایسے ہوتے ہیں، جن کا انتخاب کردہ شعبہ واقعی ان کا پسندیدہ شعبہ بھی ہوتا ہے۔ نتیجتاً وہ اس شعبے میں اس بہترین کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپاتے۔ یہ طلباء و طالبات والدین کی مرضی یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے اپنے مستقبل کے حوالے سے غلط شعبے کا انتخاب کرلیتے ہیں، جس کے نتائج انہیں ساری زندگی بھگتنا پڑتے ہیں۔ طالب علموں اور خاص کر والدین کو چاہیے کہ وہ کریئر پلاننگ پر قدرے زیادہ توجہ دیں، تاکہ کہیں غلط شعبے کا انتخاب نہ ہوجائے، جس سے بچوں کی زندگی کے کئی قیمتی سال ضائع ہوجاتے ہیں۔ غلط شعبے کا انتخاب کرنے والا فرد زندگی میں اس لگن اور جستجو سے کام نہیں کرسکتا، جس لگن و شوق کے ساتھ وہ اس صورت میں کرسکتا ہے، جب کیرئیر کا انتخاب وہ اپنی مرضی اور شوق سے کرے۔

شعبے کا انتخاب زندگی کااہم ترین حصہ ہوتا ہے، جو ہر نوجوان کو اپنی مرضی اور ذہنی رجحان کے مطابق ہی بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں والدین کا ردعمل مثبت ہونا چاہیے۔ اگر ان کا بچہ کسی خاص شعبے کے حوالے سے اپنے اندر صلاحیت رکھتا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ بہت سے والدین بچے کی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور بچے کے مستقبل کا فیصلہ بھی خود کرتے ہیں، اس بات کی فکر کیے بغیر کہ بچہ اپنے لیے کیا فیصلہ کرنا چاہتا ہے، اس سے بچہ ساری زندگی اس لگن سے کام نہیں کرسکتا، جس لگن سے اس صورت میں کرسکتا ہے، جب وہ شعبے کا انتخاب اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ بہت سے والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر ڈاکٹر، انجینئر، پائلٹ، بزنس مین میں سے کچھ بنے یا والدین کی مرضی کے کسی اور شعبے میں جائے، بلکہ بعض اوقات تو بچے کی پیدائش کے وقت ہی اس کے مستقبل کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ بچہ خود کیا بننا چاہتا ہے اور بچے کی دلچسپی کس شعبے میں کام کرنے کی ہے، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے کی تعلیم سے لے کر روزگار تک کے انتخاب میں دادا، دادی، ابو، امی، تایا چچا وغیرہ کے فیصلے چلتے ہیں۔ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی مرضی کا انتخاب بچے پر مسلط کیا جائے اور پھر گھر میں جس کی زیادہ چلتی ہو، اس کی مرضی بچے پر مسلط کردی جاتی ہے۔ ہر ایک کو بچے پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی فکر ہوتی ہے، لیکن بچے کی مرضی اور اس کی پسند جاننے کی کوشش کوئی بھی نہیں کرتا۔
اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر والدین نے کسی شعبے سے منسلک ہوکر اس شعبے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اپنے پیشے سے نام اور خوب دولت کمائی ہے تو ان کا ذاتی تجربہ یہی ہوتا ہے کہ جتنا کچھ اس پیشے میں ہے، کسی دوسرے پیشے میں نہیں۔ اس لیے ان کا بچہ یہی شعبہ اپنائے۔ وہ اپنے بچے کے مستقبل کے لیے یہی منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ وہ ان کے علم، تجربے اور ہنر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود بھی انہیں کے نقش قدم پر چلے۔ جب کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ کامیاب ہونے والے والد کے نقش قدم پر چلنے والا بچہ اپنے کیرئیر میں اتنا ہی کامیاب ثابت ہو، جتنا اس کے والد ہوئے ہیں۔ ممکن ہے بچے کو ایسے سازگار حالات میسر نہ آئیں، جس طرح والد کو میسر آئے تھے اور بچہ بری طرح ناکام ہوجائے۔ بہت سے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے وہ کر دکھائیں جو وہ خود نہیں کرسکے یا کرنے کی لگن رکھنے کے باوجود ان کے وسائل نے اجازت نہیں دی اور ان کے خواب ادھورے رہ گئے ہیں۔ مثلاً وہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتے تھے، لیکن کسی وجہ سے نہیں بن سکے تو پھر ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ڈاکٹر یا انجینئر بن کر اْن کی ادھوری خواہش پوری کریں۔ ایسی صورتحال میں انتہائی مشکل پیدا ہوجاتی ہے ، جب والدین اپنے بچوں پر اپنی پسند اور مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور والدین کے خواب پورے کرنے کی کوشش میں بچے کے اپنے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں، جبکہ والدین کے خوابوں کو بھی ٹھیک سے تعبیر نہیں ملتی، کیونکہ اگر بچہ کسی اور شعبے میں جانا چاہتا ہے اور والدین اسے کسی دوسرے شعبے میں لے جانا چاہتے ہیں تو بچے کے مستقبل کے لیے سخت مشکلات کھڑی ہوجاتی ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں کوئی مقام حاصل نہیں کرسکے گا۔

والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر اپنی مرضی اور پسند مسلط کرنے کی بجائے ان کی راہ نمائی اور حوصلہ افزائی کریں۔ بچے تب ہی اپنا کیریئر کامیاب بناسکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ جو کچھ بننے کی خواہش والدین کرتے رہے ہوں، بچے بھی وہ کچھ بننے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ قدرت نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ اس شعبے سے وابستہ ہوکر ہی کیا جاسکتا ہے، جو صلاحتیں قدرت نے انسان میں رکھی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ مثبت سوچ کو پروان چڑھائیں، اگر وہ اپنے بچے کو بااختیار بنانا چاہتے ہیں تو انہیں کام کرنے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کا مکمل طریقہ کار بتائیں۔اگربچے کا رجحان کسی ایسے مضمون میں ہے جس میں تعلیم دلوانے کے لیے والدین کا بجٹ اجازت نہیں دیتا تو بچے کو بہت پیار سے سمجھائیں اور بتائیں کہ کس طرح وہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے فنانس کے مسائل حل کرنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

والدین اگر چاہیں تو اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی سے ان کی زندگی کا سفر آسان بناسکتے ہیں۔متعدد جگہوں پر اختلاف رائے ہونے کے باوجود انہیں ہر بات پر بھی نہ ٹوکیں۔اپنے بچوں کو زندگی میں کامیاب انسان بنانے کے لیے انہیں مختلف مواقع فراہم کریں۔اس کے بعد نشان دہی کریں کہ وہ صحیح کر رہے ہیں یا نہیں اور اگر غلط کر رہے ہیں تو پیار سے ان خامیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔ ان کی مثبت کوششوں کی تعریف ضرور کریں۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کی بچے کی دل چسپی کس شعبے میں ہے۔ والدین بچے کے رجحان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اس لیے بجائے اس کے کہ والدین بچوں پر اپنی مرضی مسلط کریں، ان کی راہ نمائی کریں، تاکہ وہ درست سمت میں چلتے ہوئے اپنے من پسند شعبے میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔ نوجوان اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق اپنی پسند سے مضامین کا انتخاب کرلیں اور پھر اپنے والدین اور اساتذہ سے اس کے بارے میں رائے لیں۔ انہیں اپنی مرضی اور پسند کی وجوہ سے بھی آگاہ کریں، تاکہ ان کے علم میں یہ بات آسکے کہ آپ نے اس مضمون کا انتخاب کس وجہ سے کیا ہے اور پھر اپنے اسی انتخاب کے مطابق لگن و دلچسپی سے تعلیم حاصل کریں اور آگے شعبے کا انتخاب بھی کریں۔ یہ صورت حال نہ صرف بچوں بلکہ والدین کے لیے بھی اطمینان کا باعث بنے گی کہ ان کے بچے نے اپنے کیریئر کا انتخاب کرلیا ہے اور اب بہتر طریقے سے اس میں کامیابی حاصل کرسکے گا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.