اگرامریکاکی جارحیت پرنظرڈالیں تویہ آج تک ٣٨ممالک میں
اپنے مفادات کے حصول کیلئے اپنی افواج کے ذریعے حملہ آور ہوچکاہے لیکن
ہرملک سے ماسوائے رسوائی اور شکست کے سواکچھ نہیں ملااوریہ بھی تاریخ کاحصہ
ہے کہ یہ ہرملک میں شکست کے بعداپنی ناکامی کاملبہ پڑوسی ملک پرڈال کر اپنی
بدنامی مول لیتارہاہے ۔ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں امریکی عام کے سامنے بڑے
جارحانہ اندازمیں افغانستان میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے فوری طورپراپنی
افواج واپس بلانے کاعندیہ دیتے رہے لیکن ہمیشہ کی طرح ٹرمپ بھی منتخب
ہوکراپنی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مجبورہوگئے ہیں۔ آج اگر ٹرمپ کے حالیہ خطاب
کو دیکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ١٦برس گزر جانے کے بعد بھی
امریکا کی طویل ترین جنگ، یعنی افغانستان کی لڑائی میں اپنی شکست اورناکامی
کاملبہ پاکستان پرڈال کراپنی عوام کومطمئن کرنے کی ناکام کوشش کررہاہے۔
ٹرمپ کاپچھلے چندماہ سے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے ٹائم ٹیبل
کی پالیسی کو ترک کرنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان سے
امریکی فوجوں کے واپس جانے کاکوئی امکان نہیں ہے۔افغانستان کے حوالے سے
امریکا کی نئی پالیسی کو منظر عام پر آنے میں بہت تاخیر ہوئی، لیکن حیلے
بہانوں کے بعد سابق امریکی صدور کی طرح ٹرمپ بھی اسٹیبلشمنٹ کی زبان میں
بولتے نظرآرہے ہیں۔اگرچہ اپنے خطاب میں ٹرمپ نے افغانستان میں ممکنہ اضافی
امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے
جرنیلوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے افغانستان میں مزید تین ہزار آٹھ سو
افراد فوجی تربیت دینے کے ماہرین اور وہ مشیرکے نام پر بھیجنے پررضامند ہو
گئے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے طالبان کے خلاف افغان فوج کے سب سے موثر ہتھیاریعنی
امریکا کی فضائی مددکے حوالے سے بھی کسی قسم کی لب کشائی نہیں کی لیکن
ننگرہارمیں ''بموں کی ماں''گراکر اس نے یہ پیغام چندماہ پہلے دیاتھالیکن
حسبِ منشااس کے نتائج موصول نہ ہوسکے۔حال ہی میں بمباری کی آڑمیں آئی ایس
آئی ایس کے لوگوں کوہیلی کاپٹرکے ذریعے تورا بوراکی پہاڑیوں میں منتقل
کردیاتاکہ وہاں سے پاکستان اورافغان طالبان کے خلاف کاروائیوں کوجاری رکھ
سکے لیکن پاکستانی افواج کے بروقت ''خیبرآپریشن۴''کی کامیابی کے بعد امریکا
کے سارے پلان بری طرح فلاپ ہوگئے ہیں جس کی بناءپرامریکاسخت تلملااٹھاہے۔
امکان یہی ہے کہ وہ فضائی مدد میں بھی اضافہ کریں گے۔افعانستان سے امریکی
فوجوں کے مکمل انخلا اورافغانستان میں تمام معالات کسی نجی کمپنی کے حوالے
کرنے جیسی غیر مقبول تجاویزکوردکرکے افغانستان کے معاملات عملی طورپراپنے
ہاتھ میں لینے کاعندیہ دیاہے،قصہ مختصرکہ فی الحال امریکا افغانستان سے
جانہیں رہا۔جہاں تک افغانستان کی اندرونی صورتِحال کاتعلق ہے تواس میں کوئی
شک نہیں کہ ملک کاتقریباً نصف حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے ماسوائے افغان
فوج کےایلیٹ دستوں کے باقی فوج کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے اوران حالات میں
امریکامیں مقیم فوج کوہروقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ طالبان کاگھیراؤدن
بدن تنگ ہونے کی صورت میں خطرناک تباہی ان کامقدربن جائے گی جس کیلئے ضروری
ہے کہ پاکستان جوبڑی کامیابی کے ساتھ ان تمام دہشتگردوں سے اپنے تمام
علاقوں کوواگزارکراچکاہے،اپنی ناکامی کاملبہ اس پرڈال کرجہاں پاکستانی کی
کامیابی کواقوام عالم کے سامنے گہنا جائے وہاں پاکستان سے ڈومورکامطالبہ
کرکے اسے استعمال کیاجائے لیکن صدافسوس کہ اس مرتبہ وہ اپنی اس سازش میں
بری طرح ناکام ہوگیاہے۔
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں حسب دستور فتح جیسے الفاظ کاسہارالیتے ہوئے اس بات
پراصرارکیاکہ افغانستان میں جاری جنگ کامقصدافغانستان کی تعمیر نہیں بلکہ
دہشتگردوں کوختم کرناہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کے ان الفاظ کا مقصد
اپنے حامیوں کویقین دلانا تھا کہ ان کی طرح وہ خودبھی دیگر ممالک میں فوجی
دخل اندازی کے خلاف ہیں لیکن وہ مجبورہیں۔ ٹرمپ نے جوتجاویزپیش کی ہیں وہ
دراصل ایک ہمہ جہت حکمت عملی ہے جس میں فوجی سیاسی اورسفارتی مددتینوں شامل
ہیں۔اس موقع پر پاکستان کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ
اگرپاکستان دہشتگردوں کوپناہ دیتارہا تو اسے بہت نقصان ہوگا۔ ٹرمپ کے بقول
یہ صورتِ حال تبدیل ہوکررہے گی اورفوری تبدیل ہوگی لیکن سوال پیداہوتاہے کہ
ٹرمپ پاکستان پرکس قدردباؤڈال سکتے ہیں؟جبکہ چین اور روس بھی پاکستان کی
حمائت میں کھل کرمیدان میں اترآئے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کوامریکاسے ملنے والی سکیورٹی امدادکاتعلق ہے تواس میں کچھ
توپہلے ہی معطل کی جاچکی ہے اورجنرل قمرباجوہ نے امریکی سفیر کوملاقات میں
واضح کردیا ہے کہ انہیں مددکی نہیں بلکہ اس جنگ میں پاکستان کی قربانیوں
کوتسلیم کیاجائے۔اب قومی سلامتی کے اجلاس میں امریکا کو ایک واضح پیغام
دیاگیاہے کہ امریکااپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں بیٹھے ان
دہشتگردوں کاصفایاکرے جوبھارتی ''را''کی مددسے پاکستان میں حملہ آورہوتے
ہیں۔ٹرمپ کومعلوم ہے کہ جلدیابدیروہ جب بھی طالبان کو مذاکرات کی
میزپرلاناچاہیں گے،پاکستان کاکرداراہم ہوگا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ
ٹرمپ کی جانب سے امریکااورانڈیا کے تعلقات میں اضافے اورافغانستان کی معاشی
ترقی میں انڈیاکے ممکنہ کردارپرزوردینے کا مقصدنہ صرف خطے کی وسیع
ترعلاقائی پالیسی کوقدرے تلپٹ کرناتھابلکہ اس کامقصد پاکستان میں بھی خطرے
کی گھنٹی بجاناتھا۔
پاکستان کے علاوہ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں افغان حکام کوبھی آڑے ہاتھوں لیا۔
گروہی مفادات اوربدعنوانی سے عبارت افغان حکومت جمہوری اقدارکی تصویر
توہونے سے رہی۔ٹرمپ کے بقول افغان کی حکومت کوکیاکرناچاہیے اورکیا نہیں ،یہ
امریکا کاکام نہیں لیکن ایک ہی سانس میں ٹرمپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکا
افغان حکومت کے نام ایسے چیک نہیں لکھتارہے گاجن پروہ جتنی رقم چاہے لکھ
لے،ہماری مدد لامحدود نہیں ہے اورامریکاتوقع کرتاہے کہ افغانستان میں حقیقی
اصلاحات،حقیقی ترقی اورحقیقی نتائج حاصل کیے جائیں۔ان باتوں سے ظاہر ہوتا
ہے کہ ٹرمپ کی افغان پالیسی کے خدوخال کیاہوں گے مگرسوال پیداہوتاہے کہ اس
پالیسی کی تفصیلات کیاہیں؟ٹرمپ کی افغان پالیسی کے خدوخال کیاہوں گے؟
ہماراخیال ہے کہ یہ تفصیلات وقت آنے پرہی معلوم ہوں گی۔ جہاں تک آج کاتعلق
ہے تویہ کہناغلط نہ ہوگاکہ یہ مقابلہ ٹرمپ کے تقریری اندازاورافغانستان کے
اصل حقائق کے درمیان تھاجس میں زمینی حقائق کوفتح حاصل ہوئی ہے اوراس مرتبہ
پاکستان نے امریکاکے تمام الزامات کویکسرمستردکردیاہے اوروہ افغانستان میں
مکمل ناکام ہوچکاہے۔ ٹرمپ جو الفاظ چاہیں استعمال کریں،لگتا یہی ہے کہ وہ
بھی وہی راستہ اپنائیں گے جوان کے پیشروکرچکے ہیں،ٹرمپ کا اصرارہے کہ وہ
کوئی عذرتسلیم نہیں کریں گے اورمطلوبہ نتائج حاصل کرکے رہیں گے گویا آئندہ
آگ وخون کے آخری کھیل کے بعدامریکااپنے زخموں کوچاٹ کرواپسی کی راہ طلب کرے
گاجبکہ امریکامیں تمام سیاسی تجزیہ نگارٹرمپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ اس جنگ
میں شکست تسلیم کرتے ہوئے فوری طورپر اپنی جان چھڑائی جائے اوراپنی ڈوبتی
ہوئی معیشت کوبچانے کیلئے ضروری اقدامات کی اشد ضرورت ہے وگرنہ پچھلے
چندبرسوں سے امریکا کے ٹوٹنےکے جوخدشات سراٹھارہے ہیں ان کومزیدتقویت ملے
گی۔ |