جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ۱۱

ہم ذرا قریب پہنچے تو عاصمہ کی نظر مجھ پر پڑ ی۔ اس نے لیلیٰ کو ٹہوکا دیا۔ لیلیٰ نے گھٹنوں سے سر اٹھایا۔ اس کی نظر میری نظر سے چار ہوئی۔ ان آنکھوں میں ایسی بے بسی، وحشت اور دکھ تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ اٹھی۔ ۔ ۔ بھاگ کر مجھ سے لپٹ گئی اور پوری قوت سے رونے لگی۔ اس کی زبان سے ابو ۔ ۔ ۔ ابو کے سوا کچھ اور نہیں نکل رہا تھا۔ میں بڑ ی مشکل سے خود پر ضبط کر رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ یہ اگر روتی رہی تو کہیں میرے ضبط کا بند بھی میرا ساتھ نہ چھوڑ دے۔ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا:
’’بیٹا چپ ہوجا۔ میں نے تجھے بہت سمجھایا تھا نا۔ اس دن کے لیے جینا سیکھو۔ دنیا سوائے ایک دھوکے کے اور کچھ نہیں۔‘‘
’’ہاں آپ ٹھیک کہتے تھے ۔ مگر میری آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔‘‘، یہ کہتے ہوئے اس کی سسکیاں اور بلند ہوگئیں ۔
وہ میرے سینے سے لگی ہوئی تھی اور میری نظروں کے سامنے سے اس کی پیدائش، بچپن، لڑ کپن، جوانی اور زندگی بھر کے تمام مراحل کی تصویریں گزر رہی تھیں ۔ کبھی بستر پر پڑ ی ہوئی وہ گڑ یا جس کے رونے سے میں بے چین ہوجایا کرتا تھا۔ کبھی فراک پہنی ہوئی وہ پری جس کی ایک ایک ادا پر میں جان نثار کرتا تھا۔ کبھی اسکول کے یونیفارم میں بیگ لٹکائے وہ معصوم سی کلی، کبھی کالج کے یونیفارم میں پھولوں جیسی وہ بچی اور کبھی شادی کے جوڑ ے میں سجی میرے دل کا وہ ٹکڑ ا جو اس وقت سراپا حسرت و یاس کی صورت بنے میرے سینے سے لگی تڑ پ رہی تھی۔

مجھے لگا جیسے میرا دل پھٹ جائے گا۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑ کر خود سے دور کر دیا اور اپنا سر پکڑ کر کھڑ ا ہو گیا۔ لیلیٰ سسکتی ہوئی آواز میں بولی: ’’مجھے اپنے گھر والوں میں سے یہاں اور کوئی نہیں ملا، نہ شوہر نہ بچے ، نہ آپ لوگوں میں سے کوئی ملا، سوائے بھیا کے ۔ ان کی حالت بہت خراب ہے ابو! وہ بہت بے قراری سے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔ انہیں بس آپ ہی سے امید ہے ۔‘‘
میں نے لیلیٰ کی طرف دیکھ کر کہا:
’’اس احمق نے دنیا میں بھی غلط امیدیں باندھی تھیں اور اب بھی غلط امید باندھ رہا ہے ۔ دنیا میں اسے اپنے کاروبار، بیوی اور بچوں سے ساری امیدیں تھیں ۔ اس کا نتیجہ وہ اب بھگت رہا ہے ۔ اور اب وہ مجھ سے امید لگا رہا ہے ۔ حالانکہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔‘‘
اتنے میں عاصمہ بھی ہمارے قریب آ کر کھڑ ی ہو چکی تھی۔ میری آخری بات سن کر وہ بولی:
’’انکل مجھے تو ساری امید آپ سے تھی۔ لیکن اب آپ بھی نا امید کر رہے ہیں ۔‘‘
’’تمھیں یاد ہے عاصمہ! جب تم لیلیٰ کے ساتھ پہلی دفعہ میرے گھر آئیں تھی تو میں نے تم سے کیا کہا تھا۔‘‘
’’مجھے یاد ہے ابو آپ نے اس سے کیا کہا تھا۔‘‘، عاصمہ کی جگہ لیلیٰ نے جواب دیا۔
’’آپ نے کہا تھا کہ بیٹا تم میری بیٹی کی سہیلی ہو۔ دیکھو ایسی سہیلی بننا جو جنت میں بھی اس کے ساتھ رہے ۔ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں خدا کو ناراض کر دو اور کسی بری جگہ تم دونوں کو ساتھ رہنا پڑ ے ۔ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم دونوں ایک دوسرے کو الزام دو کہ تمھاری دوستی نے مجھے برباد کر دیا۔‘‘
آخری جملہ کہتے ہوئے لیلیٰ پھر رونے لگی۔ اس کے ساتھ عاصمہ بھی سسکیاں بھرنے لگی۔ میں نے گردن گھما کر صالح کو دیکھا جو اس عرصے میں خاموش کھڑ ا ہوا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ کوئی امید افزا بات کہہ سکے ۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر وہ کہنے لگا:
’’عبد اللہ! ویسے تو ہر فرد کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ انسان کا عمل اگر رائی کے دانے کے برابر بھی تھا تب بھی اس کے نامۂ اعمال میں موجود ہو گا۔ ہر عمل کو آج پرکھا جائے گا۔ نیت، اسباب، محرکات، حالات، عمل اور اس کے نتائج، ایک ایک چیز کی جانچ ہو گی۔ فرشتے ، در و دیوار، اعضا و جوارح ہر چیز گواہ بن جائے گی۔ یہاں تک کہ یہ بالکل متعین ہوجائے گا کہ ہر اچھا برا عمل کس جزا یا سزا کا مستحق ہے ۔ نیکی کا بدلہ دس سے سات سو گنا تک، صبر اور نصرت دین کے لیے کئے گئے کاموں کا بدلہ بے حد و حساب دیا جائے گا۔ جبکہ بدی کا بدلہ اتنا ہی ہو گا جتنی بدی کی ہو گی۔ البتہ شرک، قتل، زنا جیسے جرائم اگر نامۂ اعمال میں آ گئے تو انسان کو تباہ کر دیں گے ۔ جبکہ مال یتیم کھانا، وراثت کا مال ہڑ پ کرنا، تہمت لگانا وغیرہ جرائم اتنے خطرناک ہیں کہ ساری نیکیوں کو کھا کر انسان کو جہنم میں پہنچا سکتے ہیں ۔

یہ سزا جزا کے عمومی ضابطے ہیں ۔ ان کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ عدل کے ساتھ فیصلہ کریں گے ۔ اور یقین رکھو کہ کسی پر رائی کے دانے کے برابر ظلم نہیں ہو گا۔ تمھاری اولاد کے حوالے سے واحد امید افزا بات جو میں تمھیں پہلے ہی بتا چکا ہوں وہ یہ ہے کہ تمھارے جیسے سابقین کے علاوہ آج کے دن حساب کتاب کے ذریعے سے سچے اہل ایمان کی نجات کا معاملہ جلد یا بدیر ہوجائے گا۔ البتہ تم اپنی اولاد کو مجھ سے بہتر جانتے ہو کہ ان کی نجات کا امکان کتنا ہے ۔‘‘
’’مجھے زیادہ پریشانی اپنے بیٹے کی ہے ۔‘‘، میں نے جواب دیا۔ اس جواب میں میرے سارے اندازے ، امیدیں اور اندیشے جمع تھے ۔ میں نے مزید تبصرہ کیا:’’اسے پیسے کمانے ، گاڑ ی، بنگلے اور دولت مند بننے کا بہت شوق تھا۔ یہ شوق جس کسی کو لگ جائے ، اسے کسی بھی برے حال میں پہنچا سکتا ہے ۔ اس کے بعد اکثر لوگ حلال حرام اور اچھے برے کی تمیز کھو بیٹھتے ہیں ۔ کسی طرح کسب حرام سے بچ بھی جائیں تو اسراف، غفلت، نمود و نمائش، بخل، تکبر اور حق تلفی جیسی برائیاں انسان کو احتساب الٰہی کی اس عدالت میں لاکھڑ ا کرتے ہیں جہاں نجات بہت مشکل ہوجاتی ہے ۔‘‘

میری اس بات کا جواب غیر متوقع طور پر عاصمہ نے دیا:
’’یہ ساری باتیں لیلیٰ مجھے بتاتی تھی۔ اس نے آپ کی کچھ کتابیں بھی مجھے پڑ ھنے کے لیے دی تھیں ۔ مگر مجھے اردو پڑ ھنی نہیں آتی تھی۔ میری بدقسمتی کہ میری ساری زندگی غفلت، دنیا پرستی، فیشن، نمود و نمائش، اسراف اور تکبر میں گزر گئی۔ مجھ پر حسین نظر آنے کا خبط سوار تھا۔ میں نے لاکھوں روپے زیور، کپڑ وں اور کاسمیٹکس میں برباد کر دیے۔ مگر غریبوں پر میں کبھی کچھ نہ خرچ کرسکی۔ کبھی کیا بھی تو اس کو بہت بڑ ا احسان سمجھا۔ حالانکہ اللہ نے ہمیں بہت مال و دولت عطا کیا تھا۔

یہی نہیں مجھے جب غصہ آتا تھا تو میں بے دریغ لوگوں پر اس کا اظہار کرتی تھی۔ باحیا لباس پہننا میرے نزدیک غربت کی علامت تھی۔ چغلیاں ، غیبت، عیب جوئی میرے لیے معمولی باتیں تھیں ۔ یہ معمولی باتیں آج اتنا بڑ ا روگ بن جائیں گی مجھے نہیں معلوم تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ ایک دفعہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ لیلیٰ افسردہ لہجے میں بولی:
’’اس کے امی ابو بہت برے حال میں ہم سے ملے ہیں ۔ ان کے ساتھ پتہ نہیں کیا ہو گا۔‘‘
پھر وہ مجھے دیکھ کر بولی:
’’ابو میرے ساتھ کیا ہو گا؟‘‘، یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔
’’بیٹا انتظار کرو۔ امید یہ ہے کہ اب زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔ اس وقت مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اتنی سختی اٹھانے کے بعد وہ تمھارے وہ گناہ معاف کر دے گا جو تم نے دنیا میں معمولی سمجھ کر کیے تھے ۔‘‘
’’کاش ابو! میں آپ کا راستہ اختیار کر لیتی۔ آپ نے مجھے بہت سمجھایا تھا کہ ایمان زبان سے کلمہ پڑ ھ لینے کا نام نہیں ، خدا کی ہستی کو اپنی زندگی بنالینے کا نام ہے ۔ رسمی عبادت خدا کو مطلوب نہیں ۔ اسے قلب کی دینداری چاہیے ۔ اسے چند بے روح سجدوں کی ضرورت نہیں ، ایک سچا خدا پرست بندہ چاہیے ۔ ایمان میری زندگی میں تو تھا، مگر وہ میری شخصیت کا احاطہ نہ کرسکا۔ میں نے آپ کے کہنے سے نمازیں تو پڑ ھیں ، مگر خدا کی یاد میری زندگی نہیں بن سکی۔ میں نے روزے تو رکھے ، مگر مجھ میں سچا تقویٰ پیدا نہیں ہو سکا۔ زیادہ سے زیادہ مجھے پچاس برس وہ سب کرنا پڑ تا۔ یہاں تو صدیاں گزرگئی ہیں اس گرمی اور سختی میں پریشان گھومتے گھومتے ۔‘‘
لیلیٰ کی بات سن کر عاصمہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر رندھائی ہوئی آواز میں کہا:
’’بہن تم مجھ سے تو بہتر ہو۔ میں نے تو زندگی میں نماز روزہ کچھ نہیں کیا۔ اخلاقی گناہ، نمود ونمائش، اسراف، تکبر اور حق تلفی وغیرہ اس کے علاوہ ہیں ۔ میرا کیا ہو گا۔ مجھے تو سوائے جہنم کے کوئی انجام نظر نہیں آتا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 26502 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.