بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک ١٠

(14) اِمام بدر الدین محمد بن عبد اﷲ الزرکشی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 794ھ) :-

علامہ بدر الدین محمد بن عبداللہ زرکشی اپنی کتاب ’’المنثور فی القواعد‘‘ میں بدعت لغویۃ اور بدعت شرعیہ کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

18. فأما في الشرع فموضوعة للحادث المذموم، و إذا أريد الممدوح قُيّدَتْ و يکون ذالک مجازًا شرعياً حقيقة لغوية

’’شرع میں عام طور پر لفظ بدعت، محدثہ مذمومہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن جب بدعت ممدوحہ مراد ہو تو اسے مقید کیا جائے گا لہٰذا یہ بدعت ممدوحہ مجازاً شرعی ہوگی اور حقیقتاً لغوی ہوگی۔‘‘

زرکشي، المنثور في القواعد، 1 : 217

(15) اِمام عبد الرحمٰن بن شہاب الدین ابن رجب الحنبلی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 795 ھ) :-

علامہ ابن رجب حنبلی بغدادی اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں بدعت کی اقسام اور اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

19. المراد بالبدعة ما أحدث مما لا أصل له في الشريعة يدلّ عليه، وأما ما کان له أصل من الشرع يدلّ عليه فليس ببدعة شرعاً وإن کان بدعة لغة.

’’بدعت سے مراد ہر وہ نیا کام ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو جو اس پر دلالت کرے لیکن ہر وہ معاملہ جس کی اصل شریعت میں موجود ہو وہ شرعاً بدعت نہیں اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے بدعت ہو گا۔‘‘

1. ابن رجب حنبلي رحمة الله عليه ، جامع العلوم والحکم، 1 : 252
2. محمد شمس الحق، عون المعبود شرح سنن أبي داؤد، 12 : 235
3. عبد الرحمن مبارکپوري، تحفت الأخوذي، 7 : 366

حديث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَنْ أحْدَثَ فِی أمْرِنَا هذا مَا لَيْسَ مِنْهَ فَهُوَ رَدٌّ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ موصوف رقمطراز ہیں :

20. من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد (1) فکلّ من أحدث شيئا و نسبه إلي الدين ولم يکن له أصل من الدين يرجع إليه فهو ضلالة والدين بريء منه، و سواء في ذلک مسائل الاعتقادات أو الأعمال أو الأقوال الظاهرة والباطنة. و أما ما وقع في کلام السلف من استحسان بعض البدع فإنما ذلک في البدع اللغوية لا الشرعية. (2)

’’حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہ ہو تو وہ (چیز) مردود ہے۔ پس جس کسی نے بھی کوئی نئی چیز ایجاد کی اور پھر اس کی نسبت دین کی طرف کر دی اور وہ چیز دین کی اصل میں سے نہ ہو تو وہ چیز اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور وہی گمراہی ہو گی اور دین اس چیز سے بری ہو گا اور اس میں اعتقادی، عملی، قولی، ظاہری و باطنی تمام مسائل برابر ہیں۔ اور بعض اچھی چیزوں میں سے جو کچھ اسلاف کے کلام میں گزر چکا ہے پس وہ بدعت لغویہ میں سے ہے، بدعت شرعیہ میں سے نہیں ہے۔‘‘

1.

1. مسلم، الصحيح، 3 : 1343، کتاب الاقضية، باب نقض الاحکام الباطلة، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمه الکتاب، 1 : 7، باب تعظيم حديث رسول الله، رقم : 14
3. احمد بن حنبل، المسند : 6 : 270، رقم : 26372
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 207، رقم : 26
5. دار قطني، السنن، 4 : 224، رقم : 78

2.

ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 252

علامہ ابن رجب بدعات حسنہ کی مثالیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

21. فمن ذلک قول عمر رضي الله عنه لما جمع الناس في قيام رمضان علي إمام واحد في المسجد و خرج ورآهم يصلون کذلک فقال : نعمت البدعة هذه. (1) وروي عنه أنه قال : إن کانت هذه بدعة فنعمت البدعة. وروي عن أبيّ بن کعب قال له : إن هذا لم يکن، فقال عمر : قد علمت ولکنه حسن، ومراده أن هذا الفعل لم يکن علي هذا الوجه قبل هذا الوقت، ولکن له أصل في الشريعة يرجع إليها. فمنها أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم کان يحثّ علي قيام رمضان و يرغب فيه، وکان الناس في زمنه يقومون في المسجد جماعات متفرقة ووحدانا، وهو صلي الله عليه وآله وسلم صلي بأصحابه في رمضان غير ليلة ثم امتنع من ذلک معللا بأنه خشي أن يکتب عليهم فيعجزوا عن القيام به و هذا قد أمن بعده صلي الله عليه وآله وسلم . وروي عنه صلي الله عليه وآله وسلم أنه کان يقوم بأصحابه ليالي الإفراد في العشر الأواخر. ومنها أنه صلي الله عليه وآله وسلم أمر باتباع سنة خلفائه الراشدين، و هذا قد صار من سنة خلفائه الراشدين، فإن الناس اجتمعوا عليه في زمن عمر و عثمان و علي رضي اﷲ عنهم. ومن ذلک أذان الجمعة الأوّل زاده عثمان لحاجة الناس إليه، و أقرّه عليّ واستمرّ عمل المسلمين عليه. وروي عن ابن عمر أنه قال : هو بدعة، ولعله أراد ما أراد أبوه في قيام شهر رمضان. ومن ذلک جمع الصحف في کتاب واحد توقف فيه زيد بن ثابت وقال لأبي بکر و عمر رضي اﷲ عنهما : کيف تفعلان مالم يفعله النبي صلي الله عليه وآله وسلم ؟ ثم علم أنه مصلحة فوافق علي جمعه، وقد کان النبي صلي الله عليه وآله وسلم يأمر بکتابة الوحي، ولا فرق بين أن يکتب مفرقا أو مجموعا بل جمعه صار أصلح. وکذلک جمع عثمان الأمة علي مصحف و إعلامه لما خالفه خشية تفرّق الأمة، وقد استحسنه عليّ و أکثر الصحابة رضي اﷲ عنهم و کان ذلک عين المصلحة. وکذلک قال من منع الزکاة توقف فيه عمر و غيره حتي بينه له أبوبکر أصله الذي يرجع إليه من الشريعة فوافقه الناس علي ذلک. (2)

’’اور بدعتِ حسنہ کے اثبات میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ نے قیام رمضان کے لیے تمام لوگوں کو مسجد میں ایک امام کی اقتداء میں جمع کیا اور پھر جب انہیں اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ ’’نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور آپ رضی اللہ عنہ سے کچھ اس طرح بھی مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ان کانت ھذہ بدعۃ فنعمت البدعۃ‘‘ اگر یہ بدعت ہے تو پھر یہ اچھی بدعت ہے۔ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ اگرچہ یہ اس طرح نہ بھی ہو، تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی جانتا ہوں لیکن یہ اچھی بدعت ہے اور اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ یہ عمل اس سے پہلے اس صورت میں نہیں تھا۔ لیکن اس کی اصل شریعت میں موجود تھی جو کہ اس فعل کی طرف لوٹتی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ آقا علیہ السلام قیام رمضان پر ابھارتے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی لوگ متفرق جماعات کی صورت میں قیام کیا کرتے تھے اور اکیلے اکیلے بھی قیام کیا کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ ایک رات سے زیادہ راتوں میں رمضان میں نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی علت کے باعث اس سے منع فرما دیا اور وہ اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوف ہونے لگا کہ یہ ان پر فرض کردی جائے گی اور وہ لوگ اس قیام سے عاجز آجائیں گے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تصدیق بھی کردی، اور آقا علیہ السلام سے روایت کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخری عشرہ کی طاق راتوں میں اپنے بعض صحابہ کرام کے ساتھ قیام کیا کرتے تھے۔ اور اسی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ اور یہ کام (یعنی قیام رمضان تراویح کی صورت) خلفاء راشدین کی سنت میں سے ہوگیا۔ اور اسی طرح لوگ حضرت عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضيٰ رضی اﷲ عنہم کے زمانے میں ہی اس چیز پر مجتمع ہوگئے تھے اور اسی طرح جمعہ کی پہلی اذان ہے جس کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت کے پیش نظر زیادہ کیا اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر قائم رہے اور اس پر لوگوں نے عمل کرنا شروع کردیا۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے جمعہ کی دوسری اذان کے بارے میں فرمایا کہ وہ بدعت ہے۔ شاید ان کی مراد بھی وہی ہو جو ان کے والد کی قیام رمضان کے بارے میں تھی۔ اور اسی میں سے صحائف کو ایک کتاب میں جمع کرنا ہے۔ اس پر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے توقف کیا اور آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہما سے کہا کہ آپ اس کام کو کیسے کر رہے ہو جسے خود آقا علیہ السلام نے نہیں کیا؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے جان لیا کہ اس میں مصلحت ہے۔ تو پھر آپ اس کو جمع کرنے پر راضی ہوگئے۔ اور حضور علیہ السلام نے وحی کو لکھنے کا حکم دیا تھا اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ اسے متفرق یا مجموعہ کی صورت میں لکھا جائے۔ لیکن اس کو جمع کرنا زیادہ مبنی بر مصلحت ہے۔ اور اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے امت مسلمہ کو ایک مصحف پر جمع کیا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو پالیا جس کے لوگ مخالف تھے اور جو امت میں تفرقہ ڈالنے والی تھی۔ اور اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اکثر صحابہ رضی اللہ عنھم نے درست جانا ہے اور یہ مصلحت کے عین مطابق تھا۔ اور اسی طرح زکوٰۃ نہ دینے والوں کے بارے میں (حضرت ابوبکر کا) فیصلہ اس میں عمر اور دیگر صحابہ نے توقف اختیار کیا۔ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس اصل کا بتا دیا جو کہ شریعت میں سے اس کی طرف لوٹتی ہے پھر اس پر لوگ آپ سے متفق ہوگئے۔‘‘

1.

1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطي، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250

2.

ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم : 3 - 252

(16) علامہ شمس الدین محمد بن یوسف الکرمانی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 796ھ) :-

علامہ شمس الدین محمد بن یوسف بن علی الکرمانی تصور بدعت کی تفہیم اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ’’الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری‘‘ میں لکھتے ہیں :

22. البدعة کل شئ عمل علي غير مثال سابق و هي خمسة أقسام واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة و حديث کل بدعة ضلالة(1) من العام المخصوص. . . . لأن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لم يسنها ولا کانت في زمن أبي بکر ورغب فيها بقوله نعم ليدل علي فضلها ولئلا يمنع هذا اللقب من فعلها و يقال نعم کلمة تجمع المحاسن کلها و بئس کلمة تجمع المساويء کلها و قيام رمضان في حق التسمية سنة غير بدعة لقوله عليه الصلاة والسلام (اقتدوا باللذين من بعدي أبي بکر و عمر رضي اﷲ عنهما)(2) قوله (ينامون عنها) أي فارغين عنها أي الصلاة أول الليل أفضل من الصلاة في آخر الليل و بعضهم عکسوا و بعضهم فصلوا بين من يستوثق بالانتباه من النوم و غيره. فان قلت هذه الصلاة ليست بدعة لما ثبت من فعله صلي الله عليه وآله وسلم لها. قلت لم يثبت کونها أول الليل أو کل ليلة أو بهذه الصفة. (3)

’’ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ ’’بدعت‘‘ کہلاتی ہے۔ اور اس کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، بدعت مندوبۃ، بدعت محرمہ، بدعت مکروھہ اور بدعت مباحہ ہیں۔ اور ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ والی حدیث عام مخصوص کے قاعدے کے تحت ہے۔ . . کیونکہ حضور علیہ السلام نے اس چیز کو مسنون نہیں کیا اور نہ ہی یہ کام حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا اسی وجہ سے اس کو ’’بدعت‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور لفظ ’’نعم‘‘ کے ذریعے ایسے (احسن) اُمور کی ترغیب دی گئی تاکہ یہ لفظ ان امور کی فضیلت پر دلالت کرے تاکہ محض لفظ بدعت کی وجہ سے ایسے احسن امور کے کرنے سے منع نہ کیا جائے اور جب کسی امر کے ساتھ کلمہ ’’نعم‘‘ لگا دیا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ امر تمام محاسن کا جامع ہے اور اگر لفظ ’’بئس‘‘ لگا دیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ امر تمام برائیوں کا جامع ہے۔‘‘ اور قیام رمضان حقیقت میں سنت کا ہی نام ہے نہ کہ بدعت کا جس طرح آقا علیہ السلام نے اپنے ایک قول میں ارشاد فرمایا (اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر و عمر) میرے بعد میں آنے والے یعنی ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کی پیروی کرنا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول ’’ینا مون عنھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس نماز سے محروم رہتے ہیں یعنی وہ اس نماز سے خالی ہیں یعنی اول وقت میں نماز پڑھنا اخر وقت میں نماز پڑھنے سے زیادہ افضل ہے اور بعض نے اس کے برعکس کہا اور بعض نے فرق کیا ہے۔ اور اگر تو یہ کہے کہ یہ نماز بدعت نہیں ہے کیونکہ اس کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فعل ثابت ہے تو میں کہتا ہوں کہ اول رات میں ہر رات میں یا اس صفت کے ساتھ اس کام کا ہونا ثابت نہیں ہے۔‘‘

1.

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة، رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم : 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 178، رقم : 5

2.

1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 / 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
4. احمد بن حنبل، المسند، 5 / 382، رقم : 23293

3.

الکرماني، الکواکب الدراري في شرح صحيح البخاري، 9 : 5 - 154

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 103306 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.