وطن ِ عزیزکے اندریقیناًان افرادکی امیدوں پراوس پڑگئی ہے
جونوازشریف کی نااہلی کے بعدملک میں انتشار،جمہوریت کے شہیدکہلانے کے مذموم
عزائم کیلئے تیاربیٹھے تھے۔جنرل قمر باجوہ میڈیامیں سپریم کورٹ کےاس فیصلے
سے پہلے کئی مرتبہ ملکی آئین کی بالادستی کابھرپوریقین بھی دلاچکے تھے لیکن
اس کے باوجودنوازشریف اوران کے ساتھی شب وروز غیرذمہ داری کامظاہرہ کرتے
ہوئے قومی اداروں کوبدنام کرنے میں مصروف ہیں۔بہرحال یہ خوش آئندتبدیلی کے
باوجود پارلیمنٹ موجودہے،نظام بھی منجمدنہیں ہوا،اسے ریورس گیئر بھی نہیں
لگااورنوازشریف اپنانیاوزیراعظم منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔نئے
وزیراعظم کے انتخاب کے دن بڑی تعدادمیں ایوان نوازشریف کی تصاویراورنعروں
سے گونجتارہا،اس سے زیادہ غیرسنجیدہ بات اورکیاہوسکتی ہے کہ پی ٹی آئی کے
سربراہ عمران خان اپنے نامزدامیدوارکوووٹ دینے ایوان میں نہیں آئے،یہی نہیں
بلکہ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جہانگیرترین نے بھی شیخ رشیدکوووٹ دینے
کیلئے ایوان میں آنا مناسب نہیں سمجھا۔
ادھرشیخ رشید بھڑکیں ماررہے تھے کہ مسلم لیگ سے ٣٨/ارکان ٹوٹ رہے ہیں
اورحسب معمول جوش خطاب میں پی ٹی آئی کے ترجمان کے ساتھ ایک نشست میں مسلم
لیگ کوتین دھڑوں میں تقسیم کرنے کی بھی نویدسنادی لیکن ایساکچھ نہیں
ہوابلکہ جماعت کے بعض افرادسے انتہائی ناراض سابقہ وزیر داخلہ چوہدری
نثاراحمدجن کی عمران خان سے طویل ملاقات کی خبرمیڈیاپرخوب وائرل ہوئی لیکن
اس کے باوجودوہ انتہائی خوشگوارموڈمیں پارلیمنٹ میں خاقان عباسی کو ووٹ
دینے کیلئے ایوان میں موجودتھے۔سپریم کورٹ کے نوازشریف کونااہل قراردینے کے
فیصلے کے بعدعمران خان میں اتنی ہوابھرگئی کہ اس نے اپنی روایت سے بڑھ
کرمخالفین پرتبرابھیجااوریوم تشکرکیلئے بلائے ہوئے اجتماع میں وزیراعظم
آزاد کشمیرفاروق حیدرکے حوالے سے تو نہائت بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہوئے
زرداری کوبھی للکاراجس کے نتیجے میں اپوزیشن بکھر گئی اورشاہدخاقان عباسی
کے مقابلے میں متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہی۔عمران خان یکطرفہ
طورپرپہلے ہی شیخ رشیدکواپناامیدوارنامزدکرچکے تھے اوراس لئے ان بڑبولے
امیدوارپرپی پی اوردیگرسیاسی جماعتیں متفق نہیں ہوئیں اور حزبِ اختلاف کے
تین امیدوارمیدان میں آگئے جن میں ان کی اتحادی جماعت اسلامی نے بھی
اپناامیدوارکھڑاکردیا۔
شیخ رشیدکادعویٰ ہے کہ آرٹیکل ٦٢/٦٣کے تحت نوازشریف کونااہل قراردینے کی
استدعاصرف انہوں نے کی تھی لیکن کیاخودشیخ رشیدان آرٹیکلزپرپورا اترتے
ہیں؟وہ ذراسااپنے ضمیرکوجگاکراپنے اندرجھانکیں توانہیں احساس ہوجائے گاکہ
نوازشریف کی حکومت میں بطوروزیراطلاعات کے منصب پران کے کارہائے نمایاں
توابھی تک ہم گناہ گاروں کویادہیں ۔عمران خان تونوازشریف کے خلاف سب سے بڑے
فریق ہونے کے دعویدارہیں حالانکہ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹرسراج الحق نے
گزشتہ اگست میں نوازشریف پاناماکیس کے سواچارسوسے زائدافرادکے خلاف سب سے
پہلے پٹیشن دائرکی تھی اوراس مقدمے میں سب سے اہم اورمصدقہ ثبوت کی فائل ''حدیبیہ
پیپرز''کے نام سے عدالت عالیہ میں پیش کرچکے ہیں جونیب ریفرنسزمیں کافی
مددگارثابت ہوگی۔
عمران خان کامسئلہ الگ نوعیت کاہے ،ان کے ذہن میں یہ خیال بری طرح پیوست
ہوکررہ گیاہے کہ ٢٠١٣ء کے انتخابات کے عام انتخابات میں تووہ وزیر اعظم کی
کرسی پربراجمان ہو ہی گئے تھے لیکن نوازشریف نے اچانک ان کے نیچے سے یہ
کرسی کھینچ لی،اس لیے عمران خان ایک کے بعدایک ہتھکنڈہ استعمال کرتے آرہے
ہیں۔٣٥پنکچرکاپروپیگنڈہ کرکے دھرنے دیئے ،اسلام آبادکومفلوج کیا،لاشیں
گرائیں لیکن جب عدالتی کمیشن بناتواپنے ان لزامات کاذکرتک نہیں کیاجس سے
اپنے دھرنوں میں اپنی للکارسے نوجوانوں کے اذہان کومسموم کرناان کاشیوہ بنا
ہواتھا۔جب میڈیانے سوال کیاآپ نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ساری تحریک ٣٥پنکچرپرچلائی
تھی،اس کاکیابناتوبڑی معصومیت سے کہہ دیاکہ مجھےتو کسی نے
بتایاتھااورمیرایہ سیاسی بیان تھا۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدبظاہر
عمران خان نے اسلام آبادمیں یوم تشکرکاجلسہ کیالیکن ان کی انااورتکبرکادرجہ
کئی گنابلندہوگیااوراس کے نتیجے میں کے پی کے میں آفتاب احمدشیرپاؤکی پارٹی
کوحکومتی اتحادسے نکال باہرکھڑاکیاجبکہ اس سے پہلے بھی شیرپاؤ پارٹی
پرانتہائی سنگین کرپشن تھوپ کران کوحکومتی اتحادسے نکلنے پرمجبور
کردیاتھالیکن بعدازاں کئی ماہ تک منت سماجت کے کاوشوں کے بعداپناہی تھوک
چاٹتے ہوئے واپس حکومتی اتحادمیں شامل کرلیااوراب ایک دفعہ پھریہی حرکت
سرزدکرچکے ہیں۔
شنیدیہ ہے کہ پی ٹی آئی میں تیزی سے گروہ بندی سرایت کررہی ہے اورکرپشن کے
الزامات کی وجہ سے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کے کرسی ہل رہی ہے جبکہ یوم تشکر میں
عمران خان نے سینہ ٹھونک کرکسی بھی قسم کی کرپشن کی خودذمہ داری قبول کی
تھی لیکن اب میڈیاکے سامنے اس دعویٰ سے بھی دستبردارہوگئے ہیں۔اسی جلسے میں
صوبے میں ایک ارب درخت لگانے کابھی دعویٰ کیامگراب اس کی بھی حقیقت نہ صرف
طشت ازبام ہوگئی ہے بلکہ اس پراجیکٹ میں ہونے والی چار کروڑروپے کی کرپشن
کا پہلا پتھر سر پرآبرساہے۔عمران خان خودوزیر اعظم بنناچاہتے ہیں،
ضروربنیں،پہلے کہتے تھے کہ مجھے وزیراعظم بننے کی کوئی خواہش نہیں لیکن اب
کہتے ہیں کہ عوام کی طاقت سے وزیراعظم بنناچاہتا ہوں۔ وہ قوم سے ووٹ لیں
اورضرورلیں۔انہیں اندازہ ہوگیاہوگاکہ ٦٢/٦٣ کی شق کے کڑے احتساب سے انہیں
بھی گزرناہوگااوراس احتساب کاپھندہ ایک خاص وقت میں ان کے گلے کاطوق
بنایاجائے گا۔ابھی فی الحال الیکشن کمیشن میں توہین عدالت اورغیرملکی فنڈنگ
کے مقدمات کے بھاری پتھربھی راستہ روک کر کھڑے ہیں۔
غورطلب بات یہ ہے کہ ٢٠١٣ء کے انتخابات میں عمران خان ہیرو کادرجہ رکھتے
تھے، دھرنوں،احتجاجوں اوردیگرواقعات پران کی جو اخلاقی کمزوریوں اور گراوٹ
کی بلندسطح سے واقف تھے توانہیں قومی اسمبلی کی ٣٨نشستیں ملی تھیں ،اب اس
سے زیادہ کیسے ملیں گی جبکہ ان کے انتہائی قریبی اورمخلص دوستوں نے انہیں
دھرنوں اوراحتجاج کی سیاست سے کنارہ کشی کرکے مکمل طورپرکے پی کے حکومتی
اصلاحی کاموں پرکام کرنے کامشورہ دیاتاکہ اس صوبے کو اصلاحات کی بدولت ایک
ایساماڈل صوبہ بنادیاجائے جس سے سارے ملک میں اگلے انتخابات میں دو تہائی
اکثریت مل سکے اورسارے ملک کو''نیاپاکستان'' بنانے کے پروگرام پر
عملدرآمدہوسکے لیکن صدافسوس کہ عمران خان نے اپنے اردگردایسا مجمع جمع
کرلیاجو کہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی اپنی کرپشن کی وجہ سے بدنام تھے
اوران نظریاتی پاکستانیوں کوخودسے دورکرلیاجوپاکستان کی تقدیر بدلنے
کیلئےعمران خان کی قیادت میں انقلاب لانے کیلئے بے تاب تھے۔
فرض کرلیں کہ کسی معجزاتی طاقت کی بنیادپرعمران خان نااہل ہونے سے بچ جاتے
ہیں توعمران خان کے پاس ایسی کون سی جادوکی چھڑی ہے جس سےیہ آئندہ انتخابات
میں دوتہائی اکثریت حاصل کرسکتے ہیں۔جس طرح وزیراعظم کے انتخابات کے موقع
پرتمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کاروّیہ تھا، ان سے کون تعاون پرتیارہوگا
جبکہ موجودہ صورتحال میں اگلے انتخابات سے قبل ہی سینیٹ میں مسلم لیگ ن
واضح اکثریت سے براجمان ہوگی۔پی ٹی آئی نے جلسوں جلوسوں میں بداخلاقی اوربے
ہودگی کاکلچرپروان چڑھانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اوررہی سہی کسرنوربلوچ
اورعائشہ گلالئی نے پارٹی سے مستعفی ہوکر پارٹی کوشدیددھچکاپہنچادیاہے
بالخصوص عائشہ گلالئی نے پارٹی میں عورتوں کی عزت نہ ہونے مغرب کی طرح
بیہودہ کلچرپروان چڑھانے کاصرف الزام ہی نہیں لگایابلکہ عمران خان
کودونمبرشخص اورجعلی پٹھان کہتے ہوئے فون پر غیراخلاقی پیغامات بھیجنے
کاالزام بھی لگایاجس کی گونج پارلیمنٹ سے پوری قوم نے سنی اوراس کی تحقیق
کیلئے ایک کمیٹی کی تشکیل بھی کردی گئی جو فریقین کے ٹیلیفون کے فرانزک
ٹیسٹ کے بعد اس کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔عائشہ گلالئی نے
تواپناٹیلیفون متعلقہ کمیٹی کے سپردکرنے پررضامندی کااظہارکردیاہے لیکن
عمران خان نے سرے سے اس کمیٹی کوماننے سے انکار کردیاہے لیکن عمران خان اس
سنگین الزام سے جان نہیں چھڑاسکتے کیونکہ پہلے بھی عمران خان اوران کی
پارٹی پرایسے الزامات لگتے رہے ہیں۔عمران خان کوبھی اب اپنے گریبان میں
جھانکناپڑے گااورٹھنڈے دل سے سوچناہوگاکہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔کیا وزیر اعظم
بننے کی خواہش غیرسنجیدہ غیراخلاقی طرزِ عمل سے پوری ہوسکے گی یاوہ سب کچھ
کھودیں گے؟؟؟ |