جب سے سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کیس کافیصلہ آیاہے تب
سے سابق وزیراعظم نوازشریف اورانکی پارٹی کی جانب سے آئین کے مخصوص شقوں
میں ترامیم پرزوردیاجارہاہے مسلم لیگ نوازکی جانب سے آئینی ترامیم کے موقف
کوکثیرتعدادکے سیاسی تجزیہ نگاراورسیاستدان شوشہ اور بے وقت کی راگنی
قراردے رہے ہیں نوازشریف کاشیوہ رہاہے کہ وہ کسی سوراخ سے ڈسے جانے کے
بعدہی اس سوراخ کو بندکرنے پرکمربستہ ہوجاتے ہیں کل کی بات لگتی ہے
جب1990میں غلام اسحاق خان نے 20 ماہ کی ایک معصوم اسمبلی کوآٹھویں ترمیم کے
کلہاڑے سے لہولہان کرکے قہقہے لگائے تو نوازشریف بھی انکا بھرپور ساتھ دیتے
رہے مگرجب 1993میں اسی کلہاڑے سے نواشریف کی اسمبلی کاگلاکاٹاگیاتونوازشریف
کواحساس ہواکہ یہ کلہاڑا صرف مخالفین کونہیں مجھے بھی لہولہان کرسکتاہے
لہٰذا 1993کے الیکشن میں نوازشریف کانعرہ تھاکہ عوام مجھے دوتہائی اکثریت
دے تاکہ آئین سے آٹھویں ترمیم کاخاتمہ کرسکوں دوتہائی اکثریت بینظیربھٹونے
بھی مانگی تھی مگرالیکشن کے نتائج نے ملک میں پہلی بار ٹوپارٹی سسٹم کوفروغ
دیااوربینظیربھٹونے 217کے ایوان میں 122ووٹوں سے حکومت بنائی جوکسی طورآئین
میں ترمیم کیلئے کافی نہیں تھی پھربینظیربھٹوکواس وقت آٹھویں ترمیم کی طرف
سے یک گونہ سکون ملاجب اس نے اپنے منہ بولے بھائی فاروق لغاری کوملک کاصدر
منتخب کروانے میں کامیابی حاصل کی جس کے بعد بینظیر بھٹو کو آٹھویں ترمیم
سے کسی قسم کاخوف نہیں رہااوراسکے خاتمے کی جانب سے آنکھیں بندکی گئیں جب
فاروق لغاری نے اسی کلہاڑے سے اپنی بہن کی حکومت کادھڑن تختہ کیاتو
بینظیرکو آٹھویں ترمیم کے خاتمے کاعارضہ لاحق ہوگیا1997میں نوازشریف
کومشہورزمانہ بھاری مینڈیٹ ملاجسٹس سجادعلی شاہ اورفاروق لغاری کے گٹھ
جوڑسے جب منتخب حکومت کاچلنامحال ہواتوبینظیربھٹو اورنوازشریف دونوں آٹھویں
ترمیم کے خاتمے پرمتفق ہوئے مگر اس اتفاق کی زلفوں کے سر ہونے تک یہ ترمیم
چاراسمبلیوں کادھڑن تختہ کرچکاتھا ہمارے سیاستدانوں کوآئین میں ترمیم
کاخیال بھی اس وقت آتاہے جب وہ خود کسی آئینی ایکٹ کاشکارہوجاتے ہیں آئین
کی دفعات62اور63میں ترمیم کاڈرافٹ اٹھارویں ترمیم میں شامل کیاگیاتھا
مگرنوازشریف چونکہ خودکوصادق اورامین جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت خصوصاً آصف
زرداری کوخائن اورمنافق سمجھتے تھے لہٰذا انہوں نے 62اور63میں ترمیم کی
مخالفت کی انہوں نے تومخالفت صوبہ سرحدکانام پختونخوایاپختونستان رکھنے کی
بھی کی اورپختونخواکے ساتھ خیبرکی دم انہی کی مرضی کے تحت لگائی گئی
حالانکہ صوبہ سرحدمیں خیبرنام کی کوئی جگہ ،شہریادریاتک موجودنہیں لے دے کے
ایک تاریخی درہ خیبرہے اورایک خیبرایجنسی جوکہ دونوں صوبے کاحصہ نہیں
مگرنوازشریف کی بے جا ضد سے مجبورہوکرپختونخواکے ساتھ خیبرکی دم لگائی گئی
جس سے صوبے کانام ’’NWFP‘‘ نارتھ ویسٹ فرانٹئیرپراونس سے تبدیل ہوکر’’KPK‘‘
یعنی خیبرپختونخوا بن گیاخیبرکالاحقہ لگانے سے بہترہوتااسے ہزارہ
پختونخواکانام دیاجاتاجس سے ہزارہ والوں کو بھی صوبے کاحصہ ہونے کااحساس
دلایاجاسکتاتھابہرحال اٹھارویں ترمیم میں اگردیگربہت سی باتوں کے علاوہ
62اور63میں بھی ترمیم کی جاتی تو آج نوازشریف کواس کیلئے اپنی توانائیاں
صرف کرنے کی ضرورت نہ پڑتی آج جبکہ نوازشریف زیرعتاب ہے ،انہیں نااہل
قراردیاجاچکاہے،انہیں کرسی سے اتارکرگھرکی راہ دکھائی گئی ہے، انہیں
اقتدارکی سنگھاسن سے بزور62...63اتاراگیاہے تو انہیں ان دفعات کے خاتمے کی
یاد ستانے لگی ہے مکافات عمل کانظارہ کیجئے کہ آج آصف زرداری اورانکی پارٹی
ان دفعات کوختم کرنے کے خلاف ہے کل کلاں اگرپیپلزپارٹی ان دفعات کاشکارہوتی
ہے تو وہ ان دفعات کوختم کرناچاہے گی مگرپلوں کے نیچے سے بہت ساپانی بہہ
چکاہوگااورآج ان دفعات کے خاتمے کے علمبردارکل انکی حمایت میں سامنے آئینگے
مقام افسوس ہے کہ ہمارے ہاں آئینی ترامیم اورآئین میں ضروری تبدیلیوں کوبھی
ہمیشہ سے سیاست کی نذرکیاجاتارہاہے اگرآئین کاکوئی دفعہ یاایکٹ ایک سیاسی
جماعت کوسوٹ کرتاہے تو وہ اسے چھیڑنے کی مخالفت میں پیش پیش ہوتاہے
اوراگراسی دفعہ سے کسی پرزدپڑتی ہے تو وہ آئین کے اس حصے کاسب سے بڑامخالف
بن کے ابھرتاہے جمہوری معاشروں میں ضرورت کے تحت آئین میں ترمیم کاعمل جاری
وساری رہتاہے ہمارے جیسے کثیرالقومی معاشرے میں آئین میں تغیروتبدل بے
حداہمیت کاحامل ہے آج اگرنوازشریف باسٹھ اورتریسٹھ میں ترمیم کے خواہاں ہیں
تو کل عمران خان اور آصف زرداری بھی اس ترمیم کے حق میں ہونگے مگرانکے پاس
اسکے خاتمے کیلئے صلاحیت موجودنہیں ہوگی آج نوازشریف کے مخالفین دوربیٹھ
کرنوازشریف کامذاق اڑاکربغلیں بجاتے ہیں کل یہی لوگ انتہائی سنجیدگی کے
عالم میں بغلیں جھانکیں گے بغلیں بجانے اوربغلیں جھانکنے کے اس نارواعمل
کوخیربادکہنے کی ضرورت ہے سیاسی مجبوریوں کے اسیربن کرہم نے اس ملک کوکہیں
کانہیں چھوڑاآئین میں ترامیم کاکام انتہائی سنجیدگی کامتقاضی ہے آج
اگرنوازشریف کواس کااحساس ہواہے توجلدیابدیردیگرجماعتوں اورسیاستدانوں
کوبھی اسی احساس کاعارضہ لاحق ہوسکتاہے موجودہ اسمبلی میں سنجیدہ ،
باوقار،مدبر،سیاسی اورآئینی سمجھ بوجھ رکھنے والے اراکین کی کمی نہیں
اگرباسٹھ تریسٹھ میں ترمیم کی ضرورت وافادیت سے کسی کوانکارنہیں تومحض
نوازشریف کی عداوت ومخالفت میں اس اہم موقع کوہاتھ سے جانے نہیں دیناچاہئے
نوازشریف کے ساتھ جوہوناتھا،وہ توہوچکااب آئینی ترامیم سے انہیں کوئی فیض
فائدہ یاریلیف نہیں مل سکتا بلکہ اس کافائدہ آنے والے لوگوں کوہوگا،سسٹم
کوہوگا،جمہوریت اورملک کے مستقبل کوہوگا،پارلیمنٹ کوہوگاپارلیمنٹ اس ملک
کاسپریم ادارہ ہے اب تک یقیناً اسے بے توقیرکیاگیاتھامگراب اسکی عزت کرانے
کاوقت آپہنچاہے پارلیمنٹ کوہمہ اقسام کے مارشل لاؤں سے محفوظ رکھنے کیلئے
آئین میں ضروری ترامیم ہونی چاہئے اداروں کواپنے اپنے
حدودکاپابندبنانالازمی ہے ہم نے اگرجمہوریت کوطرزحکومت مان لیاہے اوراسکے
مطابق زندگی گزارنے سمیت ملک چلانے کافیصلہ کرلیاہے تواسکی خامیوں کوبھی
دورکرناہوگامقام افسوس ہے کہ اس آئین کومعرض وجودمیں آئے ہوئے 44سال
کالمباعرصہ گزرچکاہے مگرآج تک ہم اسے اپنی اصل شکل میں نافذنہ کرسکے کبھی
آمروں نے آکراسے طاق نسیاں کی زینت بنایاتوکبھی جمہوری حکمرانوں نے اسے
پرکاہ برابراہمیت نہیں دی اسمبلیوں کوربڑسٹمپ بناکرآئین میں ایسی ترامیم کی
گئیں جس سے اس کاحلیہ ہی بگاڑدیاگیااب اس حلئے کی درستگی کاوقت آپہنچاہے اس
سے پہلے کہ عوام کااعتمادجمہوری عمل سے اٹھ جائے اورسیاستدان بغلیں جھانکنے
پرمجبورہوجائیں آئین میں جامع ترامیم ہونی چاہئے اس سلسلے میں ناصرف
پیپلزپارٹی بلکہ تحریک انصاف سمیت تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں
کواپناکرداراداکرناہوگا ورنہ کل کلاں ہمیں ایک مرتبہ پھریہ نعرہ سننے کوملے
گاکہ دوتہائی اکثریت دوتاکہ آئین کواسکی اصل شکل میں بحال کیاجاسکے عوام تو
دوتہائی اکثریت دے دیتی ہیں مگرسیاستدان اپنے فرائض اداکرنے سے قاصر رہتے
ہیں آئینی ترامیم کامسئلہ جلد سے جلد حل ہوناچاہئے تاکہ آئندہ الیکشنز ترقی
کے نعرے پہ لڑے جائیں آئینی ترامیم کے نعرے پرنہیں۔ |