ہمارے ایک استاد بڑے باذوق طبیعت کے حامل تھے۔ ہر کام
میں ایک خاص سلیقہ تھا لیکن جذباتیت بھی ان میں کوٹ کوٹھ کے بھری ہوئی تھی۔
جب انھیں کسی شاگرد کی کی کسی غلطی کے بارے علم ہوتا تو روایتی اساتذہ کی
مانند فوراً ہی چھڑی پکڑ کے شروع نہ ہو جاتے بلکہ ان کا ایک مخصوص طریقہ
واردات ہوتا۔ پہلے اس شاگرد کے کسی فعل کو سراہتے اور پھر کچھ ہی دیر کے
بعد اس کی غلطی کی نشاندہی کر کے اپنے ہاتھوں کی ورزش کا اہتمام کر لیتے۔
اس بار پاکستان کے ساتھ والیٔ بیت الابیض نے بھی کچھ ایسا ہی کیا ہے۔ اپنے
خطاب میں جہاں انھوں نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے کردار کو سراہا اور
پاکستانیوں کی قربانیوں کا اعتراف کیا وہیں پاکستان کو طالبان اور دہشت
گردوں کے لیے محفوظ جنت قرار دیتے ہوئے دوٹوک مؤقف اپنایا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ
نے پاکستان کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے دی جانے والی امریکی امداد کا بھی
بطور خاص ذکر کیا اور سادہ لفظوں میں دھمکی لگائی کہ ہمارا ہی کھاتے ہو اور
ہمی سے باغی ہو۔ ٹرمپ نے جو کہنا تھا یا اس سے جو کہلوایا جانا تھا وہ تو
کہا جا چکا لیکن اس کے بعد سے وطنِ عزیز کے دانش وروں اور ذرائع ابلاغ میں
دو طرح کے رویے دیکھنے کو ملے۔ ایک وہ کہ جن نے جی بھر کے غصے کا اظہار کیا
اور ایک وہ کہ جو گریہ و زاری کرتے نظر آئے۔ جہاں خواص اس حالت میں ہوں
وہاں عوام سے کچھ مختلف سوچ کی توقع کہاں رکھی جا سکتی ہے۔ اب کوئی اس پہ
غصہ کرے یا ماتم…… دونوں ہی رویے جذباتیت سے جڑے ہیں۔
امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اور حالیہ ٹرمپ خطاب کو عقلی رویے سے دیکھنے
اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس خطاب کا سب سے بنیادی پہلو یہ ہے کہ امریکہ نے
سرکاری سطح پہ کہہ دیا ہے کہ پاکستان اس کے لیے ایک قابلِ اعتماد ساتھی
نہیں رہا اور اس کی وجہ وہ منافقانہ روش ہے جو ہماری ریاست نے امریکہ کے
ساتھ اپنائے رکھی۔ سچ پوچھیے تو زمینی حقائق بھی ٹرمپ کے اس بیان کو تقویت
دیتے ہیں۔ طالبان اور القاعدہ کی فرسٹ کمانڈ کے کئی لوگ ہمارے وطن سے ہی
پکڑے گئے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کی پاکستان میں موجودگی کوئی ڈھکی چھپی نہیں
ہے۔ دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے خواہ وہ چھوٹے پیمانے پہ ہو یا بڑے پیمانے
پہ۔ ہماری ریاست کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کے سائے تلے پاکستان میں کیسے
دہشت گردوں کی پنیری تیار ہوئی ہے۔ آج جو مسلک کی بنیاد پہ دوسرے کا گلا
کاٹ رہا ہے کل وہی اس ملک میں خودکش بن کر پھٹے گا۔ کل جنھیں ریاست نے اپنی
غیراعلانیہ سرپرستی میں کشمیر اور افغانستان کی آگ میں جھونکا تھا آج ان کے
ذہن اتنے پرتشدد ہو چکے ہیں کہ وہ کہیں بھی پھٹ سکتے ہیں۔
جانے کیا بات ہے کہ ٹرمپ کے حالیہ خطاب نے ڈان لیکس یاد دلا دی۔ ڈان لیکس
کے بعد سب سے زیادہ بحث اور لعن طعن جس بات پہ ہوئی وہ یہی تھی کہ خبر باہر
کیسے آئی جبکہ خبر کا متن جتنا سنجیدہ تھا ہمارے دانش وروں نے اس پہ بات
کرنا اتنا ہی غیر ضروری سمجھ لیا تھا۔ ٹرمپ کی بات اس خبر سے مختلف نہیں۔
دونوں کا متن ایک سا ہی ہے۔ جب ریاستی ادارے ایک اہم اور حساس مسئلہ کے
بارے میں کوئی متفقہ پالیسی نہیں رکھتے ہوں اور اس پہ تو کوئی کارروائی
کرتے دکھائی نہ دیں لیکن خبر کے عام ہونے پہ ضرور آگ بگولہ ہو جائیں تو اس
سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں فرائض زیادہ عزیز رکھے جاتے ہیں یا پگڑی۔
اور اب جبکہ اسی طرز کی گفتگو ٹرمپ کے خطاب میں سامنے آئی ہے تو کل کواکڑنے
والے آج کھسیانی بلی کھمبا نوچے کی تفسیر بنے ہوئے ہیں۔ انھیں سمجھ ہی نہیں
آ رہا کہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔ اب آپ بھلے کہتے رہیں کہ ہمیں امریکی
امداد نہیں چاہیے…… آپ کے کہنے سے فرق نہیں پڑنے والا کہ امداد بند کرنے کا
ارداہ تو خود امریکہ ظاہر کر رہا ہے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ کے کردار کو
سراہا جائے اور قربانیوں کو تسلیم کیا جائے تو ایک بار مکرر ٹرمپ کا خطاب
سنیے۔ اس نے عہد ماضی اور پاک امریکہ دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے ہمارے
کردارکو بھی سراہا ہے اور قربانیوں کا بھی اعتراف کیا ہے۔ اُسے اگر مسئلہ
ہے تو ہمارے دو رخی رویے سے ہے جس کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ کچھ لوگ تو
جوشِ خطابت میں اتنا آگے نکلتے دکھائی دیے ہیں کہ امریکہ کو سرد جنگ کا
حوالہ یاد دلاتے ہوئے بھیانک انجام کی پیشین گوئی کرتے نہیں تھکتے۔ یہ بات
درست ہے کہ افغانستان کی جغرافیائی صورتِ حال اور وہاں موجود قبائلی تقسیم
اتنی پیچیدہ ہے کہ اسے آسانی سے سلجھایا نہیں جا سکتا اس کے لیے کئی برس
اور درکار ہیں اور شاید کئی برسوں بعد بھی کسی ایک انتظامی قوت کے تحت
افغانستان کو نہ چلایا جا سکے۔ لیکن یہاں صورتحال روس والی نہیں۔ روس اور
امریکہ دونوں کا افغانستان میں آنا دو الگ الگ تناظر میں تھا اور اگر سرد
جنگ میں سے امریکہ کا کردار نکال دیا جائے تو پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔
امریکہ اور اس کے اتحادی پچھلے پندرہ برس سے افغانستان میں مصروف ہیں۔ لیکن
وہ وہاں اپنی افرادی قوت میں اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ اس جنگ سے پیچھے نہیں
ہٹ رہے کیونکہ ان کے پاس طویل عرصہ جنگ کا لائحہ عمل تیار ہے۔ پاکستان دہشت
گردوں کے خلاف پچھلے کئی برسوں سے کارروائیاں کر رہا ہے لیکن اب دہشت گردی
سے مکمل نجات حاصل نہیں ہو پائی۔ ایسی حالت میں جہاں ایک غیر منظم اور ٹوٹی
کمر والے غیر ملکی دہشت گردوں پہ ہمیں فتح حاصل نہیں ہو رہی وہاں دنیا کی
طاقتور فوج سے مقابلہ کا خواب دیکھنے والوں کی دماغی حالت پہ ہنسی آتی ہے۔
زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے جذباتیت میں ڈوب جانے والے ہمیشہ اپنا ہی
نقصان کرتے ہیں۔ تمام ریاستی اداروں کو ایک دوٹوک پالیسی پہ متفق ہونا پڑے
گا جس کے تحت ملک میں موجود کسی بھی قسم کے شرپسند عناصر کو ڈھیل نہیں دی
جائے گی۔ اور سب کو ایک ہی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ جب تک ہم اپنی صفوں
کی صفائی نہیں کریں گئے دوسرے ممالک ہم پہ انگلیاں اٹھاتے رہیں گئے۔ زندہ
قوم کا راگ الاپنے سے ہمارا زندہ ہونا نہیں ثابت ہوتا۔ ہمارا زندہ ہونا
تبھی ثابت ہو گا جب ہم خود میں موجود تاریکی کی دیواروں کو منور کر دیں گئے
یا پھر گرا دیں گئے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اور جس دن ہمارے
ریاستی ادارے اور صاحبانِ اقتدار و اختیار ایسا کر پائیں گئے اسی دن سے
دوسرے ممالک ہماری جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے بھی گرم جوشی کا اظہار کرنے لگیں
گئے اور ہمیں ایک قابلِ اعتماد ساتھی سمجھا جانے لگے گا۔ سو جب تک ہم اس کو
نہیں پا لیتے ہمارا ایسے ہی خطابات سے سامنا ہوتا رہے گا اور ہم غم و غصے
کا اظہار کرتے رہیں گئے۔ |