امریکہ، دوست یا دشمن؟

امریکہ اب کھل کر اپنی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ناکام ہو چکی ہے۔ جس کا ملبہ پاکستان پر ڈالا جا رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے رسمی خطاب میں کہا:
’’ہم پاکستان میں موجود دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں پر اب مزید خاموش نہیں رہیں گے۔۔۔۔ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں ، اس کے باوجود پاکستان نے ان دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن سے ہماری جنگ ہو رہی ہے۔۔۔ہماری پوری کوشش ہے کہ ایٹمی ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔۔۔‘‘

پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی ، مزید خاموش نہ رہنے اور ایٹمی ہتھیار یا ٹیکنالوجی دہشتگردوں کے ہاتھ میں نہ لگنے دینے کی کوشش جیسے بیانات کو صرف دھمکی ہی نہیں سمجھا جا سکتا۔یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اب امریکہ کو پاکستانی راہداری اور سپلائی لائن کی مزید ضرورت نہیں رہی۔ اس نے متبادل راستے تلاش کر لئے ہیں۔ امریکی نئے انداز میں بھارت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔دہلی سے اقتصادی اور مالی طور پر افغانستان کی مدد پر زور دیا جارہا ہے۔ بھارت کے تھانہ دار ہونے کے خدشات پہلے سے تھے۔ اسے خطے میں ایسا کردار دینے کی جانب پیش رفت بھی نظر آ رہی ہے۔ تا ہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کا معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ گو کہ بظاہر 2014میں امریکہ نے افغانستان میں فوجی کارروائی کی کمانڈ افغانستان کو سونپ دی اس کے باوجود ساڑھے آٹھ ہزار امریکی کمانڈوز کی افغان فورسز کی مدد کے لئے موجودگی کا اعتراف بھی کیا گیا۔ امریکی افغانستان کو عراق نہ بننے دینے کا واویلا کر رہے ہیں۔ یہ اس ملک میں امریکی فوجی اڈے کی مستقل موجودگی کا اشارہ ہے۔ پاکستان کو دھمکیاں بھی اس کی کڑی ہیں۔ اگر امریکہ مزید خاموش نہیں رہتا تو کیا ہوگا۔ کیا وہ گرم تعاقب کی آڑ میں یا کسی پیشگی کارروائی کے نام پر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں کوئی عزائم رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان اثاثوں ک دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کی باتیں اس خطے کے لئے جاری پالیسی بیان میں دی گئی ہیں۔ چاہے امریکہ کو پاکستان کی سپلائی لائن کی ضرورت نہ رہی ہو یا اس کا مسلہ دہشگردی کے بجائے سی پیک ہو، اسے پاکستان کے ساتھ مزید تعاون جاری رکھنے کی ضرورت پہلے جیسی نہیں۔ اس کے قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کا دورہ پاکستان ملتوی ہوا ۔ یہ التوا پاکستان کی درخواست پر ہو ا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی دورہ امریکہ منسوخ کیا ہے۔ دونوں اطراف سے اعتراف ہے کہ آج کے حالات دونوں ممالک کے درمیان سنجیدہ بات چیت کے لئے ساز گار نہیں۔ ایلس ویلز کا مجوزہ دورہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اس میں ٹرمپ کی اعلان شدہ پالیسی برائے جنوبی ایشیا، پاک امریکہ تعلقات کا مستقبل، انسداد دہشتگردی، خطے کا امن و امان، افغانستان جیسے موضوعات پر بات ہونی تھی۔

پشاور اور کوئٹہ میں طالبان شوریٰ کی موجوگی کا الزام بھی ان دوروں کے ملتوی ہونے کا باعث بنا ہے۔ کیوں کہ یہ الزام افغانستان میں نیتو فورسز کے سربراہ جنرل جان نکولسن نے دیا ہے۔ نیٹو فورسز افغانستان میں ناکام ہو گئی ہیں۔ ان کا نشانہ اب پشاور اور کوئٹہ ہے۔ ان الزامات کو پاکستان میں امریکی اور نیٹو کی کسی کارروائی کے لئے جواز کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگنے کے خدشات بھی اسی لئے تھے۔ امریکی بیانات سے طاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ سب جانتے ہیں۔ مگر امریکی پاکستان کے ساتھ انٹلی جنس شیئر نہیں کرتے۔ امریکہ کا سخت رویہ ہے۔ یہ دباؤ بڑھانے کی ایک طریقہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ امریکہ یہ پیغام د رہا ہے کہ پاکستان پشاور اور کوئٹہ سے ’’دہشتگردوں‘‘ کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرے۔ وہ پہلے ہی بے اعتباری ظاہر کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے امریکی سنٹرل کمانڈ ہی پاکستان میں کسی دہشگرد گروپ کی موجودگی کے الزمات عائد کرتی تھی۔ امریکہ اگر افغانستان میں امن چاہتا تو دھمکیوں کے بجائے مشاور اور تعاون کے لئے حالات سازگار بنانے کا موقف اپنایا جاتا۔سفارتی چینلز استعمال کئے جاتے۔ کیوں کہ پاکستا ن نے امریکی جنگ میں جانی اور مالی قربانیاں پیش کی ہیں۔ خواجہ آصف کی جانب سے دورہ امریکہ ملتوی کر کے روس، چین اور ترکی کے ساتھ مشاورت کا فیصلہ وائٹ ہاؤس کے لئے دھچکہ نہ بھی ہو، ایک واضح پیگام ضرور ہے کہ اسلام آباد امریکہ پر مکمل انحصار کی سوچ ختم کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کی وجہ بھی امریکہ کا پاکستان س منہ موڑنا بنی ہے۔ پاکستان کا امریکہ مخالف بلاک میں جانا کس قدر مفید ہو گا، اس پر بحث ہو رہی ہے۔ تا ہم پاکستان کا امریکہ کے چنگل سے نکلنا ہی زیادہ مناسب سمجھا جا رہا ہے۔ مگر یہ بھی نہ ہو کہ تعلق بالکل ہی توڑ کر سٹریٹجک مخالفین کو آزاد چھوڑ دیا جائے۔ اس کے لئے سفارت اور سیاست کاری کو ترجیح دینے کی تجویز زیادہ اہم ہے۔ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کی ناکامی یا کامیابی کا دارومدار بھارت پر نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز پر ہے۔ جن کی شمولیت کے بغیر خاص طور پر پاکستان کو دیوار سے لگانے یا دھمکیوں سے امریکہ کو کچھ نہ ملے گا۔ بین الاقوامی تعلقات مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکتے۔ بھارت کو پاکستان پر ترجیح دینے سے فوائد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ بھارت کو چین کے ساتھ اقتصادی راہداری منصوبے سخت بے چین کر رہے ہیں۔ پاکستان ہی نہیں، بھارت چاہتا ہے کہ چین دیگر ممالک جیسے مالدیپ، میانمار میں اپنی دفاعی اور معاشی شراکت داری بڑھانے میں ناکام ہو۔ پاکستان اور افغانستان کی جانب سے مشترکہ فوجی ورکنگ گروپ قائم کرنے پر اتفاق بھی بھارت کے لئے پریشان کن ثابت ہو گا۔ تا ہم پاک امریکہ تعلقات کے مستقبل کا انحصار اس پر ہو گا کہ امریکہ اب بھارت اور افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے یا خطے کی تعمیر اور ترقی کے لئے سب کو باہمی تعاون کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485829 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More