دھیرے دھیرے پاکستانی سیاست پیچیدہ تر ہوتی چلی جارہی ہے۔
صرف او رصرف عوام الناس کو مطمئن کرنے کا آسان سا کام اس لیے پیچیدہ بن
گیاکہ اب عوام کے ساتھ ساتھ کئی دیگران کو بھی خوش رکھنے کی ذمہ داری
آنکلی۔ایک سیاست دان کو ایک طرح سے چومکھی لڑائی لڑنا پڑرہی ہے۔جس میں اس
کی کامیابی کا تناسب بہت کم رہ جاتاہے۔خالی عوام کو خوش رکھنا کچھ مشکل نہ
تھا۔مگر جو فرمائشیں دوسرے دھڑے پیش کررہے ہیں۔اس کی تکمیل بڑی مشکل
ہے۔سیاسی قیادت اپنے تئیں پوری قوت صرف کرتی ہے۔تمام تر جوڑتوڑ کرگزرتی
ہے۔مگر ا س کی بد قسمتی کہ پھر بھی کامیابی نہیں ہو پارہی۔محترمہ بے نظیر
بھٹو کی پہلی حکومت کو جب ختم کیا گیاتو تب تک محترمہ پاکستانی سیاست کو
بخوبی سمجھ چکی تھی۔اگر چہ انہیں ماضی میں بھی حالات کی تلخ حقیقتوں کا
اندازہ ہوا۔ اپنے والد کی عبرت ناک موت اور اس کے بعد اپنے خاندان کو پیش
آنے والے بد ترین حالات ان کے لیے عبرت کا باعث تھے۔مگر اپنی پہلی حکومت کے
دوران ان پر ایسے معاملات بھی آشکار ہوئے جو کسی اتالیق کے سکھانے سے سمجھ
نہ آتے۔وہ زمینی حقائق کاادراک کرتے ہوئے اپنی سٹریٹجی میں بڑی تبدیلی پر
غور کرنے لگیں۔انہیں اندازہ ہوگیاکہ جمہوریت کی راہ پر چلنا اتنا آسان نہیں
ایک طرف تو اوپر والوں کی طرف سے براہ راست فرمائشیں آتی رہی تھی۔دوجے
نوازشریف سمیت کئی بالواسطہ طریقہ واردات کی شکل میں جمہوریت شکن عناصر کو
بھگتنا پڑا۔نوازشریف کی کمر اس انداز میں ٹھونکی جارہی تھی کہ محترمہ کو
تنگ کرنا کارثواب تصور کرنے لگے۔وزیر اعظم کے استقبال کو ناجانا۔انہیں
دوسرے کئی پروٹوکول سے محروم کرنا۔نوازشریف کی روٹین تھی۔محترمہ چاروں طرف
سے پھنسی رہیں۔ان کی اپنی پارٹی ان دنوں چوں چوں کا مربہ بن گئی۔عورت ہونے
کا فائدہ تو یہ رہا کہ لاکھوں کی تعدادمیں ووٹ بن مانگے مل گئے۔مگر یہ فطری
کمزوری پارٹی معاملات میں بگاڑ کا سبب بنی۔باوجود تمام تر رعب او رپرسنیلٹی
کے محترمہ کو پارٹی کے زیادہ تر معاملات میں اپنے رفقاء کار پر انحصار کرنا
پڑا جو بھٹو کے نام پر لوٹ مار اور کمیشن کی دوڑمیں سرپٹ دوڑرہے تھے۔محترمہ
کی جب حکومت گری تو تب یہ حالات تھے۔نہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد رہا۔نہ
ہم عصر سیاسی لوگ ان کی مدد پر آمادہ تھے۔اور نہ عوام کی محبت باقی رہی۔
عمران خاں بھی سیاست کی انہی پیچیدگیوں کے شکار ہوئے ہیں۔ان کی نیت تو
انقلابی سیاست اپنانے کی تھی۔مگر منزل کی دوری انہیں اپنا راستہ تبدیل کرنے
پر مجبور کرگئی۔ایک وقت تھاوہ سٹیٹس کو توڑنے کا عزم رکھتے تھے۔سٹیٹس کو سے
ان کی مراد رائج الوقت سیاسی و غیرسیاسی نظام تھا۔سیاست دانوں کی کرپشن سے
نجات دلانا ان کا مشن تھا۔اور غیرجمہوری قوتوں کے خلاف جہاد ان کا مشن۔یہ
ان دنوں کی بات ہے۔جب وہ کبھی الطاف حسین کو نشان عبرت بنانے کے لیے لندن
کا ایک طویل دورہ کرتے۔کبھی وہ نوازشریف کے ساتھ بیٹھ کر مشرف کی آمریت کے
خلاف صلاح مشورے کرتے دکھائی دیتے۔اب خاں صاحب سیاست کی پیچیدیگیوں میں پڑ
چکے۔اپ انہیں نہ الطاف حسین کی فکر ہے۔نہ مشرف سے کچھ لینا دینا۔اب تو
انہوں نے سٹیٹس کو کو بچانے کا راستہ چن لیا۔وہ اسی کو اپنے خوابوں کی
تکمیل کی واحد تدبیر سمجھ بیٹھے۔زمانے بھر کا گند سمیٹے۔بھیجی گئی پرچیوں
پر بولتے۔اور اشاروں پر قدم بڑھانے خاں صاحب اپنا سارا بھرم گنوابیٹھے۔
پچھلے کچھ برسوں سے خاں صاحب اس نئی ڈگر پر رواں دواں ہیں۔مگرمسافت ختم
نہیں ہورہی۔ منزل جانے ابھی مذید کتنی دور ہے۔نوازشریف کو راستے سے ہٹانا
ان کے نزدیک آخری آزمائش تھی۔مگر نااہلی کا کارنامہ سرانجام دیے لوگوں کو
ایک مہینہ ہوچلا۔ خاں صاحب کے ہاتھ اب بھی خالی ہیں۔نوازشریف تو گھر چلے
گئے مگر اس اندازہ سے کہ عام آدمی کی ڈاونواں ڈول حمایت ایک بار پھر میاں
صاحب کی طرف لڑھک گئی۔۔پھرجس طرح سے پی پی پر نوازشیں بڑھ رہی ہیں۔خاں صاحب
کی حالت نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے جیسی بن رہی ہے۔جو اعتماد زرداری
صاحب کی باتوں سے جھلک رہاہے۔وہ خاں صاحب کو چبھ رہاہے۔انہیں بار بار اپنی
محنت اور مشقت یادآرہی ہے۔مگرجانے کیوں ان کو یقین دہانیاں کروانے والے اب
پی پی کی طرف منہ کیے بیٹھے ہیں۔
نوازشریف کی نااہلی ایک نیا موضوع دے گئی ہے۔لیگی حلقے اسے عدالتی مارشل لا
قراردے رہی ہے۔اور پی پی کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف او رکچھ جماعتیں اسے
عدالتی فیصلہ کہ رہی ہیں۔نوازشریف نے متعدد بار کہاہے کہ انہیں ہٹانے کا
فیصلہ بہت پہلے کرلیا گیاتھا۔بس جواز ڈھونڈا جارہا تھا۔ باغی لیڈر جاوید
ہاشمی بھی عدلیہ کے فیصلے کو خالصتا عدالتی فیصلہ تسلیم کرنے سے انکاری
ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ نا اہلی کا فیصلہ لکھا نہیں گیا۔لکھوایا گیاہے۔فیصلہ
عدالتی ہے یا غیر عدالتی یہ نیا موضوع خاصہ دلچسپ ہے۔دراصل یہ ایک ٹرننگ
پوائنٹ ہے۔اگر اس فیصلے کو صرف اور صرف عدالتی فیصلہ تسلیم کرلیا جائے تو
صورت حال او ربنتی ہے۔لیکن اگر اسے غیر عدالتی فیصلہ سمجھ لیا جائے تو تمام
تر کاتمام منظرنامہ ہی بد ل جاتاہے۔بات اس وقت اقبال کے شعر کی طرح کی شکل
اختیارکررہی ہے۔انہوں نے کہا تھا۔کہ یہ ایک سجدہ جسے تو گرا ں سمجھتاہے۔
ہزار سجدوں سے دیتاہے آدمی کو نجات۔ بات بالکل اس شعر کی سی بنی ہوئی
ہے۔اگر اس فیصلے کو غیر عدالتی فیصلہ سمجھ لیاجائے۔تو کئی کنفیوژن دور
ہوجاتے ہیں۔کئی چھپنے والے سامنے آجاتے ہیں۔کئی ہیروز کو زیروبننا
پڑتاہے۔اور کئی زیروکو ہیرو ماننا پڑ ے گیا۔اس فیصلے کی صحیح تشریح و تفہیم
ایک قسم کا وہ سجدہ ہے جو ہزار سجدوں سے نجات دلوانے والا قرار دیا
جاسکتاہے۔یہ سجدہ جانے کب کیاجائے گا۔ |