اس سال ملک بھر میں یوم آزادی کا دن بڑے جوش و خروش
کیساتھ منایا گیا ،یوں تو ہندوستان کو آزاد ہوئے 71برس گزر گئے لیکن آزادی
ٔ ہند کا جو احساس اس سال دیکھنے کوملا وہ شائد ہی اس سے قبل کہیں دکھائی
دیا ہوگا۔ ملک کے وفاداروں نے 71ویں یوم آزادی پر اپنی وفاداری کا ثبوت کس
کس طرح پیش کیااُسے بیان کرنا محال ہے ۔کیونکہ آزاد ہندوستان کے بعد ہر سال
یوم آزادی کے دن جھنڈے کو سلامی دی جاتی ہے،ملک بھر میں سکولوں ، کالجوں ،
یونیورسٹیوں اور نہ جانے کہاں کہاں دیش کا ترنگا لہراتا نظر آتا ہے جو اپنی
آزادی کے گیت گاگا کر یہ کہتا ہے کہ اب ہندوستان گوروں سے آزادہے۔ جی ہاں !آزادی
کا یہ جشن مبارک ………… لیکن آزادی کے اس دن پر قوم کو کیا درس دیا جانا
چاہیے اس سے فرقہ پرستوں پر مشتمل ایک ٹولاجو کہ اس وقت حکومت ہند کے اعلیٰ
منصب پر براجمان ہے کو کوئی تعلق واسطہ نہیں ، انہیں اگر واسطہ ہے تو ملک
میں ہندوتو قائم کرنے کا۔ آزاد ی ہند کے ان دعویداروں کو یاد نہیں کہ جس
آزادی کا جشن ہم اپنے کسی ذاتی یا خاص مقصد کیلئے منا رہے ہیں اُس میں
ہندوستان کے ہی نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کا بھی اہم کردار ہے ۔ جشن
آزادی منانا یہاں کے کسی خاص طبقہ یا مذہب کے ماننے والوں کا حق نہیں بلکہ
یہاں کے ہر باشندے کا فرض ہے لیکن ملک کو تباہی کی طرف دھکیلنے والوں نے
اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر آزادی ٔ ہندکو مذہبی رنگت دیکر آزادی کا جشن
منایا یہ ثابت کرنے کیلئے کہ یہ ملک کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی جاگیر
ہے ۔ تختہ ٔ اقتدار پر قابض اِس فرقہ پرست ٹولے سے اگر جشن آزادی کے معنی و
مفہوم پوچھے جائیں تو کچھ بتانے سے قاصر رہیں گے ہی بلکہ تاریخ کو ٹٹولا
جائے تو اقتدارکی کرسی پر بیٹھے یہی لوگوں آزادی ٔ مجاہدوں کے قاتل ثابت
ہونگے ۔جشن آزادی کو حقیقی مقصدیت کو بدل کر اس جشن کو اس قدر کڑے رُخ کے
ساتھ منایا گیا کہ جیسے دیگر مذہب کے ماننے والوں کا آزادی ٔ ہند میں کوئی
کردار ہی نہیں ۔
ملک کو ہندوتو میں تبدیل کرنے والے فرقہ پرستو!! کیا آزادی کے جشن کے مناتے
تمہیں گاندھی جی کا یہ ……(ہندو ،مسلم ،سکھ ، عیسائی …… آپس میں ہیں بھائی
بھائی) ……کا نعرہ بھول جانا چاہیے تھا جو انھوں نے آزادی ٔ ہند کے وقت دیا
تھا اور ملک کے ہرمذہب کے لوگوں کا آزادی ٔ ہند میں اپنی جانیں قربان ہونے
کی گواہی دی تھی؟؟۔اگر یہ حقیقت آئینے کی طرح تمہارے سامنے عیاں ہے اور
تاریخ گواہ ہے تو پھر کیوں یوم آزادی کے موقعہ پر آزادی کے جشن کو مذہبی
رنگت دیکر ……(ہندو ،مسلم ،سکھ ، عیسائی …… آپس میں ہیں بھائی بھائی) ……کے
نعرہ کو خاک میں ملا یا اور ہندوستان کی جمہوریت پر وہ سیاہ داغ لگا دیا جو
سات سمندروں کے پانی سے بھی دھویا نہیں جا سکتا۔سنگھ پریوار نے آزادی ٔ ہند
کے دن کو منانے کا وہ انداز اپنایا کہ دیگر مذاہب کے لوگ گھبراکر تاریخ کے
اوراق پلٹنے لگے کہ کیا سچ میں ہمارے رہنماؤں کا آزادیٔ ہند میں کوئی کردار
نہیں ہے ؟؟لیکن جہاں جہاں دیکھا اور جب جب تاریخ کا مطالعہ کیا تو تاریخ کے
اوراق گواہ ہیں مسلم رہنماؤں نے کس طرح سے ہندوستان کو آزاد کرنے میں اپنی
جانوں کا نظرایہ پیش کیا ہے ۔ آزادیٔ ہند میں مسلم رہنماؤں کا کردار دیگر
مذاہب کے رہنماؤں سے زیادہ رہا ہے جس کی تاریخ گواہی دے رہی ہے ۔ تاریخ کا
ایک ایک پنہ مسلم رہنماؤں کے آزاد ہندوستان کا اہم حصہ قرار دینے کی گواہی
پیش کر رہی ہے ۔ یہاں موجودہ دور کا ہندو رہنما اس تما م کو جھٹلانے کیلئے
اس قدر بچگانہ حرکتیں انجام دیئے جا رہا ہے گویا کوئی بچہ اپنے والدین سے
یہ کہہ رہا ہو کہ آپ میرے وارث نہیں۔ارے اوکم بختو!! اپنے گندھے ذہنوں کو
ٹٹولو، تاریخ کامطالعہ کرو ۔تم ملک کا نام بدل سکتے ہو،تم سکیموں کا نام
بدل سکتے ہو، تمہاری سوچ بدل سکتی ہے، تم طرح طرح کی اداکاری اور جھوٹے
دعوے کر کر کے لوگوں کے ذہنوں کو منتشر کر سکتے ہولیکن یاد رکھوتم چاہیے
لاکھ ادا کاری دکھاؤ تاریخ کا ایک پنہ بھی آپ بدلنے میں ناکام رہیں گے
کیونکہ تاریخ کسی سکیم یا کسی کی سوچ بدلنے کا نام نہیں ۔تاریخ کبھی بدلی
نہیں جاتی ۔اگر تاریخ بدلی جاتی تو پھر تاریخ سے انگریزوں کا نام کیوں نہیں
ختم کیا جاتا جنھوں نے ہندوستان کو اپنا غلام بنا کر رکھا تھا لیکن تاریخ
میں اُن کا نام ضرور رہے گا، تاریخ ہر اچھے اور برے وقت اپنے صفحوں پر رقم
کر لیتی ہے ۔تاریخ کو بدلنے والو!!! آپ اس وقت جو تاریخ کے بدلنے کا بیڑا
اٹھائے ہوئے ہو آنے والے دور میں آپ کی یہ کار ستانیاں بھی تاریخ کا حصہ
بنیں گی بس فرق صرف اتنا ہوگا کہ تمہیں تاریخ میں برے القاب سے رقم کیا
جائے گا۔ اس لئے تاریخ کو بدلنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک لینا چاہیے ۔
تم تاریخ کے اوراق سے وہ ایک ورق بھی نہیں بدل سکتے جس میں جناح کی آزادی
ہند کی خاطر جدو جہد کا کردار صاف صاف لفظوں میں رقم ہوا ہے۔ہندو ستان کسی
ایک مذہب کے ماننے والوں کی جاگیر نہیں بلکہ مختلف مذاہب،ذات اور ثقافتوں
کا ملک ہے ۔
خود کو اصلی ہندوستانی بتلانے والے فرقہ پرست ڈکیت سیاست دانوں کو خوب اچھی
طرح یہ حقیقت اپنے ذہن و دماغ میں بسالینی چاہئے کہ جس مسلم قوم کے جیالوں
نے نوے سالوں تک انگریزوں کی غلامی میں جکڑے ہو ئے اس ملک کو آزادی سے
ہمکنار کیا ،اور انہی گوری چمڑیوں کے ہاتھوں ملک کی رہی سہی عزت لٹ جانے کے
بعد اس کو از سرنو شادابی و ہریالی سے واقف کرایا وہ کسی بھی حال میں اس
ملک کے دشمن نہیں ہو سکتے ۔ملک کی پر امن فضا میں زہر نفرت گھولنے والے
جھوٹی سیاست کے علمبرداروں کو یہ بات بھی یا د رکھنے چا ہئے کہ مسلمانوں نے
اور خاص طور سے علماء دین اور اکابر اسلام نے اس گلستان ہند کی آبیاری اپنے
قلب و جگر سے کرتے ہوئے ضرورت پڑنے پر اس کے عوض اپنے جسموں کے سارے لہو
غاصب و ظالم انگریزوں کو تول دئے اور انکے لگائے ہو پھانسی کے پھندوں کو
اسی ملک کی آزادی کی خاطر خوشی خوشی اپنی گردنوں کی سلامی دی۔آزادی ہند کی
خاطر مسلمانوں کے آباء واجداد کی یہ پیش کردہ قربانیاں ہر وقت اور ہر آن ان
کے ذہنوں اور دلوں میں نئے جوش و ولولے پید اکرتی ہیں اور تا قیامت کرتی
رہیں گی،پھریہ کہ وقت پڑنے پر جس قوم کا بچہ بچہ شوق شہادت میں رقص کرنے
لگتا ہو، جس کے صالح نوجوانوں پر ایک خاص قسم کی کیفیت پید ا ہوجاتی ہو اور
جس کے بوڑھوں پر سابقہ جوانی لوٹ آتی ہو یہ سوچنا کہ وہ ان بزدل سیاسی
لوگوں کی بھڑکیوں سے مرعوب ہو جائیں ،یہ تصور نہایت بچکانہ سوچ اور ایک طرح
کی مجنونانہ حرکت اور مجرمانہ عمل ہے۔اگر کوئی ذی عقل و خرد شخص تاریخ کے
انمٹ نقوش پریقین رکھتے ہوئے حکومت و اقتدار کے نشہ میں بد مست ہو کراس طرح
کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے تو وہ اُس کی ذہنی بیماری کا عکاس ہے ۔
ہندوستان کو آ زاد کرنے میں جتنی قربانیاں مسلم رہنماؤں نے دی اُسے زیادہ
دیگر مذاہب کے رہنماؤں نے نہیں دی ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ رہنمائی کا سب
سے بڑا چہرہ گاندھی کے طور پر سامنے آیا ہے جو کہ ایک ہندو تھا لیکن اس کا
مطلب ہر گز نہیں کہ دیگرمذاہب کے لوگوں کی قربانیوں کو فراموش کیا جائے۔اس
لئے آزادیٔ ہند کی تاریخ میں مسلمانوں کی قربانیوں کو جھٹلانے کے بجائے
تاریخ کو پڑھیں یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ ہندوستان کوآزادی دلانے میں
مسلمانوں کا قد کس قدر بلند اور ارفع ہے۔پنڈت جواہر لال نہرو، پٹیل بلکہ
گاندھی جیسے غیرمسلمین نے بھی مسلمانوں کی واطن عزیز کو آزاد کرنے کی خاطر
دی گئی قربانیوں اور کوششوں کی ستائش کی ہے۔
آج اگر ملک کو ہندو ،مسلم ، سکھ ،عیسائی جیسے عظیم اتحاد کے توڑ کی ناپاک
کوشش کی جا رہی ہیں تاکہ کسی طرح سے تاریخ میں رقم آزادی ٔ ہند میں
مسلمانوں کی ناقابل ِ فراموش قربانیوں کو مٹا کر تاریخ کو بدلا جا رہا ہے
تو کیا اس سب گھناؤنی سوچ سے تاریخ میں رقم مسلمانوں کی قربانیوں کو مٹایا
جا سکتا ہے ؟؟ کیا اس طرح آر ایس ایس اور بھاجپا کے نا پاک عظائم کامیابی
سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں آرایس ایس اور بھاچپا کے چند شر
پسند عناصرنے دیش کو اپنی جاگیر سمجھ کر اقلیتی طبقہ کو زیر کرنے کے طرح
طرح کے حربے اپنائے لیکن اُن کا ہر نا پاک حربہ ناکام ثابت ہو رہا ہے ۔ملک
میں آر ایس ایس اور بھاجپا نے اس قدر نفرتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے
کہہندو جو اپنی ذاتی سوچ سے ایک مسلمان کو اپنا بھائی سمجھتا تھا لیکن
حکومت ِ وقت کی غلط اور غلیظ پالیسوں نے اُسے اتنا سنگدل بننے پر مجبور کر
دیا ہے کہ وہ اب اپنے مسلمان بھائی کو اپنا دشمن سمجھنے پر مجبور ہے۔
کشمیرمیں حکومت ِ وقت کی ظلم و بربریت کی وجہ سے آج بھی سینکڑوں ایسی مساجد
ہیں جنہیں مقفل رکھا گیا ہے ، مساجدوں میں عبادت پر پابندی حکومت ِ وقتکے
نئے ہندوستان بنانے کا اہم قدم ہے ۔جس سے ہندوستان جو کبھی جمہوری ملک
کہلاتاتھا عالمی سطح پر بدنامی سے دوچار ہو گا،اس طرح کے گھاؤنے عمل سے
ڈیجیٹل انڈیا کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا بلکہ ملک دن بدن
نفرتوں کی گرفت میں اس قدر جکڑا جائے گا کہ عالمی سطح پر جمہوری ملک کہلانے
والا ہندوستان نام مٹ جائیگا ۔جب جب دین اسلام میں تمہاری مداخلتیں عروج پر
آئیں گی تب تب ملک جمہوری طور پستی کی جانب جاتا رہے گا ، جب جب تم
مسلمانوں کو زیر کر کے انہیں ہندوستان دشمن ثابت کرنے کے بہانے گڑھنے کی کو
شش کرو گے تب تب تاریخ تمہارے کارناموں پر تھوکے گی ۔تم آزادیٔ ہند کے سر
چڑھے نشے میں مسلمانوں کے مذہب کو نشانہ بناؤ گے تاریخ تمہیں معاف نہیں کرے
گی ۔کسی مذہب کے ماننے والے کو اس کے مذہب کے مطابق عبادت کرنے سے روکنا
آزاد ہندوستان کی مثال نہیں ہوسکتی ہے؟؟ یہ محض اُن فرقہ پرست اور نفرت
پرست عناصر کی کارستانیاں ہو سکتی ہیں جو ملک کی آزادی میں مسلمانوں کی
قربانیوں کو مٹا کر تاریخ بدلنا چاہتے ہیں۔یہ تھے ہمارے اسلاف جنہوں نے تن
کے گورے من کے کالوں کے ناپاک قبضہ سے وطن عزیز ملک ہندوستان کو آزاد کرانے
کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ ان بزرگان دین نے اپنے تن من دھن کی بازی
لگادی اور پیہم جدوجہد اور مسلسل کاوش کے ذریعہ انگریزوں کے استبدادی پنجے
سے وطن عزیز کو نجات دلایا۔ حتی کہ۷۲ رمضان المبارک کی مقدس شب ۱۵ اگست
۱۹۴۷ء کو ہمارا پیارا ملک آزاد ہوا۔ملک کا گوشہ گوشہ ہمارے اسلاف کی
قربانیوں کا شاہد ہے۔چشم فلک نے ہندوستانی مسلمانوں کے کوہ کن عزم و حوصلے
کو دیکھا کہ انہوں نے جب انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا تو اسے پایہ
تکمیل تک پہنچانے کے بعد ہی چین و سکون کی سانس لی۔ اس کے بعد بھی آج ایسے
لوگ جن کا آزادی ہند میں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ہے،وہ مسلمانوں پر
دہشت گردی کا الزام لگا کر انہیں طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے ستایا جا
رہا ہے ۔انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے عزم و استقلال کا انگریز بھی قائل
تھا،تاریخ پڑھیں ، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ انگریز مسلم اتحاد سے کس قدر
خائف تھا۔پھر آج ہمارے حب الوطنی پر شک کرنا اور اسے مشکوک قرار دینا
انتہائی شرمناک اور بے ہودہ حرکت ہے۔اس لئے ملک کے یہ ٹھیکیدار سمجھ جائیں
کہ مخصوص نظریے کے تحت نیا ہندستان کا تصور مشکل ، امن و امان اور اتحاد
ناگزیر ہے ۔ آزادی کا یہ متعصبانہ رویہ آپ کو مبارک لیکن ………………
یہجشن مبارک ہو ، پر یہ بھی صداقت ہے
ہم لوگ حقیقت کے احسا س سے عاری ہیں
گاندھی ہو کہ غالب ہو انصاف کی نظروں میں
ہم دونوں کے قاتل ہیں ، دونوں کے پجاری ہیں |