گورنمنٹ برطانیہ نے 1869 کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے
ممبروں برطانوی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر
مشتمل ایک وفد سرولیم کی زیر قیادت ہندوستان میں بھیجا تاکہ اس بات کا کھوج
لگایا جاسکے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو کس طرح رام کیا جاسکتا ہے ۔یہ
برطانوی وفد ایک سال ہندوستان میں رہا اور حالات کا جائزہ لیتا رہا اس وفد
نے
The Arrival of British Empire in India
ہندوستان میں برطانوی سلطنت کی آمر کے عنوان سے دورپورٹس لکھیں جس میں
انہوں نے لکھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی اور مذہبی
پیشواؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے ۔اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو الہامی
سند پیش کرے تو ایسے شخص کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر اس سے
برطانوی مفادات کیلئے مفید کام لیا جاسکتا ہے ۔(رپورٹ انڈیا آفس لائبریری
لندن )
چنانچہ رپورٹ کو سامنے رکھتے ہوئے تاج برطانیہ کے حکم پر ایسے موزوں اور
بااعتبار شخص کی تلاش شروع ہوئی جو برطانوی حکومت کے استحکام اور مفادات
کیلئے الہامات کا ڈھونگ رچا سکے ،برطانوی حکومت کی قصیدہ گوئی اور مدح
سرائی جس کی نبوت کا دیباچہ ہو ،جو ملکہ وکٹوریہ کیلئے رطب اللسان ہو
۔چنانچہ برطانوی تھنک ٹینک نے ہندوستان میں ایسے شخص کے انتخاب کیلئے
ہدایات جاری کیں ۔پنجاب کے گورنر نے اس کام کی ڈیوٹی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کے
ذمہ لگائی ۔برطانوی جاسوس انگریزی نبی کی تلاش میں مصروف ہوگئے ۔آخر کار
قرعہ فال منشی غلام احمد قادیانی کے نام نکلا۔
برطانوی ہند کی سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے
چار اشخاص کو انٹرویو کیلئے طلب کیا نبوت کیلئے مرزا قادیانی کو نامزد کیا
۔
انگریزی اطاعت کی خاندانی گھٹی مرزا قادیانی کے رگ وریشہ میں رچی بسی ہوئی
تھی منشی غلام احمد قادیانی جوکہ سیالکوٹ کی ایک کچہری میں ایک اہلمد تھا ۔
ہر لحاظ سے انگریز حکومت کی خدمت اور برطانوی مفادات کے تحفظ کیلئے موزوں
اور قابل اعتماد شخص تھا کیونکہ اس کا خاندان شروع ہی سے برطانوی سامراج کی
خدمت اور کاسہ یسی میں مشہور تھا مرزا کے والد غلا م مرتضیٰ نے جنگ آزادی
1857میں 50گھوڑے بمعہ سواروں کے انگریزوں کی مدد کیلئے دیئے تھے ۔اس کے
بھائی غلام قادر مشہور سفاک اور ظالم جنرل نکلسن کی فوج میں شامل رہا تھا
اور اس نے مسلمانوں کے خون میں ہاتھ رنگے تھے ۔
یہاں پر ایک واقعہ جسے مرزا قادیانی کی زندگی میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے
کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے ۔وہ پادری ہٹلر ایم اے کی لندن واپسی ہے ۔ یہ
پادری برطانوی انٹیلی جنس کا ایک رکن تھا اور مبلغ کے روپ میں کام کررہا
تھا ۔مرز انے مذہبی بحث کی آڑ میں ان سے طویل ملاقاتیں کیں اور برطانوی راج
کے قیام کیلئے اپنی ہر قسم کی خدمات پیش کیں ۔1868میں بٹلر واپس لندن جانے
سے پہلے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا مفید بات سیالکوٹ کچہری میں ہوئی جس کا
ڈپٹی کمشنر ایک یہودی پارکنسن تھا ،معاملات کو حتمی صورت دی گئی ۔اس ملاقات
کا ذکر (مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا محمود احمد نے سیرت مسیح موعود ربوہ
صفحہ 15)پر بھی کیا ہے ۔اخبار الفضل قادیان 24اپریل 1934میں بھی یہ تفصیل
قدرے موجود ہے ۔اسی سال 1868میں مرزا قادیانی بغیر کسی معقول ظاہری وجہ کے
اہلمد کی نوکری سے استعفیٰ دے کر قادیان چلے گئے کچھ ہی دنوں کے بعد مرزا
قادیانی کو گمنام منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے جن پر نام اور پتہ نہیں تھا
۔لیکن حقیقت میں پادری بٹلر لندن سے یہ بھیج رہا تھا ۔اس کے بعد مرزا
قادیانی نے برطانوی حکومت کے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کردیا ۔ایک غدار
خاندان کے فرد مرزا قادیانی کا یہودی افسروں اور جاسوس مشنری اداروں کے
سربراہوں سے ربط وضبط اور ان کا یہودی ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ پارکنسن کی شہ پر
پادری کی ترغیب پر نوکری چھوڑ کر نام نہاد اصلاحی تحریک کا آغاز کرنا یہ سب
واقعات اس عظیم سیاسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مذہبی روپ دھار کر
احمدیت کی صورت میں منظر عام پر آئی ۔1880سے مرزا قادیانی نے اپنے دعوؤں کا
آغاز کیا اور کہا کہ میں ملہم من اﷲ ہوں ،1882میں مجدد ہونے کا 1891میں
مسیح موعود ہونے کا 1899میں ظلی بروزی نبی ہونے کا اور 1901میں مستقل صاحب
شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کیا ان دعوؤں کے علاوہ بھی اس نے بیسیوں دعوے کیے
۔
مرزا قادیانی کے ان ملحدانہ اور زندیقانہ وکافرانہ عقائد کو دیکھتے ہوئے سب
سے پہلے علمائے لدھیانہ نے اس کے کفر کا فتویٰ صادر فرمایا اگر قادیانیوں
کی وجوہ تکفیر پر غور کریں تو یہ مندرجہ ذیل نظر آتیں ہیں ۔
(1)……مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت(2)…… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بغیر باپ
ولادت کا انکار (3)…… حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی اور قرب قیامت
میں ان کے دوبارہ آنے کا انکار ۔(4)……حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور
سیدہ مریم سلام اﷲ علیہا کی شان میں ناقابل بیان گستاخیاں (5)……حضرت مسیح
کے علاوہ دیگر انبیاء کی اہانت خصوصاً حضور پر نور صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان
میں بے ادبی وگستاخی ۔(6)……حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار
(7)……اسلامی فریضہ جہاد کا انکار (8)……مرزا کو نہ ماننے والے مسلمانوں کی
تکفیر
ان کے علاوہ اور بھی تکفیر کی وجوہات ہیں مثلاً امہات المومنین ؓ ،بنات
رسولﷺ، خاندان رسولﷺ، صحابہ کرامؓ اور اہلبیت رسولﷺ کی توہین وگستاخی ،
قادیانیت کے خمیر میں رچی بسی ہوئی ہے ۔یعنی اسلامی مقدس شخصیات شعائر
اسلام کی توہین واستہزاء کے علاوہ دین اسلام کے مقابلہ میں قادیانیت کو
کھڑا کرنا اور اپنے ملحدانہ وزندیقانہ عقائد کو اسلام کے نام پر پیش کرنا
ملت اسلامیہ کو کافر کہنا ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنا عبادت سے لے کر
معاملات تک قادیانی مسلمانوں سے ایک الگ وجود رکھتے ہیں ،تاریخ کے اوراق
میں اس بات کے کئی ثبوت پوشیدہ ہیں ۔تقسیم کے وقت گورداسپور میں 51 فیصد
مسلمان تھے 49فیصد ہندو تھے اور 2فیصد قادیانی تھے ۔ طے یہ تھا کہ اکثریت
کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا اس موقع پر قادیانیوں نے ہندوؤں کا ساتھ دیا جب یہ
مسلمانوں سے علیحدہ ہوگئے تو مسلمان 49فیصد رہ گئے اور ہندو 51فیصد ہوگئے
اس سے گورداسپور جاتار ہا جس سے کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوگیا کیونکہ زمینی
واحدراستہ کشمیر کی طرف صرف گورداسپور ہی سے جاتاتھا بھارت نے اپنی فوجیں
کشمیر میں داخل کرکے قبضہ کرلیا ۔دراصل تقسیم کے وقت انگریزوں ہندوؤں اور
قادیانیوں نے پاکستان کیخلاف کئی سازشیں کیں جو ابھی تک پاکستان کے مسائل
میں اضافہ کررہی ہیں ۔ان کا ہیڈ کوارٹر قادیان سے سابقہ ربوہ (چناب نگر
)منتقل ہوگیا اور انگریز کا یہ ٹوڈی گروہ آج تک عالم اسلام اور بالخصوص
پاکستان کیخلاف گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے ۔14اگست 1947کو جب دنیا کے
نقشے پر ایک اسلامی ملک اپنی فکر اور نظریے کی بنیاد پر نمودار ہوا تو اس
نوزائیدہ کیلئے قادیانی گماشتوں نے کیا کیا سازشیں کیں کیا منصوربے بنائے
اور اسکی سلامتی کیخلاف کیا کچھ کیا اور کیا اب تک کررہے ہیں یہ بھی تاریخ
کا ایک اہم حصہ ہے ۔
قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں محمد علی جناح کو جن بے پناہ مسائل اور
مشکلات کا سامنا تھا ایک موقع پر محمد علی جناح نے فرمایا میری جیب میں
کھوٹے سکے ہیں وہ ان کھوٹے سکوں سے کام چلا رہے تھے یہ حقائق بڑے تفصیل طلب
ہیں کہ محمد علی جناح نے بعض مجبوریوں کے تحت جنرل سرڈگلس گریسی کو آزاد
خودمختار ریاست پاکستان کی فوج کا کمانڈر انچیف ،سردار جوگندرناتھ مینڈل کو
وزیر قانون اور ظفراﷲ خان قادیانی کو وزیر خارجہ لینے کا فیصلہ بادل
نخواستہ قبول کیا ۔’’پاکستان کی پہلی کابینہ اور پاکستان کیوں ٹوٹا ‘‘کے
حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریز وائسرائے کے دباؤ کے تحت فیصلے تسلیم
کیے تھے ۔ان تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ انگریز وائسرائے نے ظفراﷲ خان
قادیانی کی تقرری پر بہت اصرار کیا اور یہاں تک دھمکی دی کہ جب تک یہ اعلان
نہیں کیاجاتا اختیارات کی منتقلی نہ ہوسکے گی ۔(پاکستان کی پہلی کابینہ) اس
ملعون وزیر خارجہ نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے حکم اور اپنی جماعت احمدیہ کے
زاویہ نگاہ سے خارجی پالیسی وضع کی ۔ غیر ملکی ممالک میں ہمارے خارجہ دفاتر
کو قادیانیت کی تبلیغ اور جاسوسی اڈوں میں تبدیل کیا ۔سامراجی یورپی ممالک
خصوصاًامریکہ وبرطانیہ سے تعلقات مضبوط کیے ۔ عربوں کی جاسوسی کیلئے مختلف
ممالک میں قادیانی سیل قائم کیے ۔پوری دنیا میں بین الاقوامی سطح پر
قادیانیت کو مضبوط کیا یہی وہ وقت تھا جب قادیانیت کو پاکستان کے کلیدی
عہدوں پر متمکن ہونے کا موقع ملا اور قادیانیت کو پاکستان کی سیاست، بیورو
کریسی اور اسٹیبلشمنٹ میں داخل ہونے کا موقع مل گیا ۔اس وقت سے لے کر آج تک
قادیانی بڑے بڑے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں ۔اقتدار کے ایوانوں میں قادیانیت
کا اثرورسوخ اس قدر بڑھ گیا کہ قائد ملت لیاقت علی خان جو پاکستان کے پہلے
وزیر اعظم تھے اور احرار رہنماؤں کی محنت وکوشش سے قادیانی سازش کو کافی
حدتک سمجھ چکے تھے (قادیانیوں نے اس وقت مسلم لیگی حکومت پنجاب کے وزیر
اعلیٰ مسٹر دولتانہ اور گورنر عبدالرب نشتر وزیر داخلہ مشتاق احمد گورمانی
اور قادیانی وزیر خارجہ ظفراﷲ نے ایک سازش کے ذریعے 16اکتوبر 1951کو گولی
مار کر قتل کروایا ۔)
قتل کی یہ سازش قادیانیوں نے تیار کی اور مسلم لیگی حکومت کے یہ افراد اس
سازش کا باقاعدہ حصہ بنے تھے ۔روزنامہ جنگ نے ہفت روزہ تکبیر 1986 کراچی کے
حوالہ سے مضمون شائع کیا جسمیں پاکستان کے سراغ رساں جیمز سالومن ونسلنٹ کی
یادوں کے حوالوں سے بتایا گیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو
سید اکبر نے نہیں بلکہ کنزے نامی جرمن قادیانی نے قتل کیا تھا کنزے کی
پرورش قادیانی لیڈر سرظفراﷲ خان نے کی تھی ۔ کنزے پہلے عیسائی تھا پھر اس
نے قادیانیت اختیار کی ، قادیانی گھرانے میں شادی کے بعد وہ پاکستان مقیم
ہوگیا کنزے سر ظفراﷲ خان قادیانی وزیر خارجہ کے بھائی چوہدری عبداﷲ کے پاس
باقاعدگی سے آیا کرتا تھا ۔جب کنزے نے لیاقت علی خان کو گولی ماری تو پولیس
نے جو پوری طرح ملوث تھی اور وقت کے سازشی سیاستدانوں اور بیورورکریٹس کی
ہدایت پر سیداکبر کو گولی ماردی اور اسے ہی قاتل کی حیثیت سے مشہور کردیا
گیا وزیر اعظم کو راولپنڈی میں قتل کرنے کے بعد کنزے سیدھا ربوہ (چناب نگر
)پہنچا اور پھر وہاں سے اسے باہر بھیج دیا گیا ۔(روزنامہ جنگ 9مارچ1986)
اس قتل کے محرکات معلوم کرنے کیلئے کچھ بیرونی ماہرین بھی پاکستان آئے اور
اس بارے میں ایک رپورٹ تیار کی اس رپورٹ کی دستاویز ات راولپنڈی سے کراچی
بذریعہ طیارہ لے جائی جارہی تھی چوآسیدن شاہ کی پہاڑیوں میں وہ طیارہ گراکر
تباہ کردیا گیا اس طیارے کا پائلٹ قادیانی تھا جو اسے چلا رہا تھا (روزنامہ
آزاد لاہور 1951)1965کی جنگ میں سارے ملک میں بلیک آؤٹ ہوتا تھا لیکن
پاکستان کے اندر ایک چھوٹا ساپر اسرار شہر ایسا بھی تھا جہاں بلیک آؤٹ کی
صریحاً خلاف ورزی ہوتی تھی وہ شہر قادیانیوں کا ہیڈکوارٹر ربوہ تھا ۔ربوہ
کے اندر بلیک آؤٹ کی خلاف وزی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ربوہ کی یہ روشنیاں
بھارتی فضائیہ کے طیاروں کو سرگودھا کے اہم فضائی مرکز کا محل وقوع بتانے
کیلئے تھیں لطف کی بات یہ ہے کہ سرگودھا اندھیرے میں بھی دشمن کے نشانوں کا
شکار بنا رہا کیونکہ بھارتی فضائیہ کو سرگودھا چھاؤنی کے اہم ہدف بتانے
والے اور مخبری کرنے والے قادیانی تھے ۔ جبکہ ربوہ (چناب نگر )اپنی فضاؤں
میں بکھرتی ہوئی روشنیوں کے باوجود بھی محفوظ رہا ۔ بالآخر پاک ائیر فورس
کی شکایت پر واپڈا کو ربوہ کی برقی رو یعنی بجلی کنکشن کاٹنا پڑا کیونکہ
ربوہ کے ایک طرف سرگودھا اور دوسری طرف فیصل آباد کا ہوائی اڈہ تھا۔آفس
ریکارڈ میں اس کا اندراج چٹھی نمبر1135مجریہ 14ستمبر 1965 ہے ۔ جب اس بات
کا چرچا ہوا تو قادیانی جماعت نے روایت عیاری ومکاری سے واپڈا کے ریکارڈ سے
اس تاریخی غداری کے دستاویزی ثبوت کو غائب کروادیا ۔ پاک فوج میں موجود
قادیانی جرنیلوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں جوبھیانک کردار ادا کیا وہ
بھی آن دی ریکارڈ ہے ۔1970کے عام انتخابات مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں
بھی قادیانی جماعت کا رول اسرائیل میں قادیانی مشن ہو یا یہود ہنود کیساتھ
قادیانی گٹھ جوڑ ہو یہ وہ قرین واقعات ہیں جو تاریخ کے سینے میں آج بھی
مدفون ہیں ۔
7ستمبرکا ذکر کرنے سے پہلے تحریک قادیانیت کے پس منظرکا ذکر کرنا ضروری تھا
۔ جب پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ ایک قادیانی چو ہدری ظفر اﷲ خان کو بنا یا
گیا تو اس نے اپنے عہدے کا نا جائز فا ئدہ اٹھاتے ہو ئے قادیانیوں کو کلیدی
عہدوں پر تعینات کیا ملک کی انتظامی مشینری میں قادیانی اثر و نفوذ میں روز
بروز اضا فہ ہو نے لگا 1953میں قادیانی وزیر خارجہ کوہٹانے اور قادیانیوں
کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے کیلئے پو رے ملک میں تحریک چلائی گئی تحریک
میں امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری ؒ ان کے احرار رفقاء حضرت مولانا
ابوالحسنات قادریؒ جوکہ قائد تحریک تھے ۔ مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ سمیت
تمام دینی اکابر موجود تھے ۔ اس وقت کی حکومت نے گورنر جنرل ناظم الدین کی
ہدایت پر تحریک ختم نبوت کے قائدین کو جیل میں ڈال دیا ، کرفیو لگا دیا ،
مال روڈ میں دس ہزار ختم نبوت کے پروانوں کو شہید کردیا گیا ۔ ریاستی تشدد
کے شرمناک استعمال سے وقتی طور پر تحریک دباد ی گئی مولانا عبدالستار
نیازیؒ اور مولانامودودیؒ کو سزائے موت سنائی گئی ۔
1973میں آزاد کشمیر اسمبلی نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا
22مئی 1974کو نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ کا ایک گروپ شمالی علاقہ جات
میں سیر وتفریح کی غرض سے ملتان سے پشاور جانے والی گاڑی چناب ایکسپریس کے
ذریعے روانہ ہواجب گاڑی ربوہ موجودہ چناب نگر ریلوے اسٹیشن پہنچی تو
مرزائیوں نے گاڑی میں اپنا کفروارتداد پر مبنی لٹریچر گاڑی میں تقسیم کرنا
شروع کیا جس سے ان طلباء اور قادیانیوں میں جھڑپ ہوتے ہوتے رہ گئی
۔قادیانیوں نے ان طلبا کو سبق سکھانے کیلئے واپسی پر ان کو مارنے اور تشدد
کرنے کا منصوبہ بنایا چنانچہ واپسی پر طلباء کو مارنے کیلئے (مرزا طاہر جو
کہ بعد میں خلیفہ بھی بنا )کی قیادت میں ایک جم غفیر تھا جو ربوہ اسٹیشن پر
جمع تھا ان طلباء پر ٹوٹ پڑا اور ان طلباء پر قادیانی گماشتوں نے بے پناہ
تشدد کیا ،زدوکوب کیا اور ان طلباء کو مار مار کر لہولہان کردیا ۔آناً
فاناً یہ خبر ملک میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔پورے ملک میں احتجاجی
ریلیوں ،جلسوں اور جلوسوں کا سیلاب امڈ آیا تحریک آہستہ آہستہ زور پکڑتی
جارہی تھی ۔ 9جون 1974 کے اجلاس میں مولانا محمد یوسف بنوریؒ کی صدارت میں
مجلس عمل کا اجلاس ہوا جس میں ملک کی نمائندہ دینی وقومی شخصیات نے شرکت کی
۔ اس اجلاس میں مولانا محمد یوسف بنوریؒ کو مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا
کنوینئر مقرر کیا گیا 17جون کو فیصل آباد کے اجلاس میں ملک کی سیاسی ومذہبی
جماعتیں شامل تھیں ،علامہ بنوری کو صدر علامہ محموداحمد رضویؒ کو سیکرٹری
جنرل منتخب کیاگیا ۔چنانچہ 30جون 1974کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے
قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کیلئے حزب اختلاف نے تاریخی قرارداد
پیش کی جس پر 37کے قریب ارکان اسمبلی نے دستخط کیے تھے ۔ مولانا مفتی محمود
،مولانا شاہ احمد نورانی ،پروفیسر غفوراحمد ، سید محمد علی رضوی ، چوہدری
ظہورالٰہی ،مولانا ظفراحمد انصاری ،مولانا نعمت اﷲ ،مولانا محمد زاکر جامعہ
آباد جھنگ اور دیگر کئی ارکان اس قرارداد کے محرکین تھے ۔اﷲ ان سب کی قبروں
کو منور فرمائے ۔ اسمبلی میں معاملہ چلا گیا بحث شروع ہوئی اس وقت کے
اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار نے جس طرح مرزاناصر اور لاہوری گروپ کے محمد علی
پر جو جرح کی سوالات کیے وہ اپنی مثال آپ تھے ۔مرزا ناصر کی مومنانہ شکل
وصورت داڑھی پگڑی اور جبہ قبہ میں چھپی ہوئی پارسائی اور روحانیت کا پول جب
کھلا تو ارکان اسمبلی حیرت زدہ ہوگئے جب قادیانی پٹاری کا منہ پارلیمنٹ میں
کھلا تو اس کے تعفن زدہ عقائد ونظریات سے پوری اسمبلی ششدر رہ گئی ۔ تیرہ
دن اسمبلی میں بحث ہوئی اور بالآخر 7ستمبر 4بجکر 35منٹ پر قادیانیوں کو غیر
مسلم اقلیت قراردیا گیا ۔ 6ستمبر یوم دفاع پاکستان کے طور پر منایا جاتا ہے
1965 میں جب پوری قوم دفاع وطن کیلئے اکٹھی اور متحد تھی اور 7ستمبر یوم
دفاع ختم نبوت کے طور پر ہے جب 1974 میں تمام مکاتب فکر کے علماء عقیدہ ختم
نبوت کے تحفظ اور دفاع کیلئے متحد ہوکر ایک طویل جدوجہد اور بے مثال
قربانیاں دینے کے بعد سرخروہوئے تھے ۔ 7ستمبر کا دن یوم حسابِ قادیانیت کا
دن ہے ۔
امت مسلمہ اور اہلیان پاکستان کیلئے یہ دن مسرتوں خوشیوں کا دن ہے ۔ پون
صدی کی انتھک محنت ، لازوال قربانیوں کے بعد یہ دن امت کو نصیب ہوا ۔
7ستمبر یوم تحفظ ختم نبوت کا دن ہے ۔ 7ستمبریوم تشکر وامتنان منانے کا دن
ہے ۔7ستمبرتجدید عہد ،عزم وہمت واستقلال کا دن ہے ۔7ستمبر یوم نجات کا دن
ہے ۔
٭……٭……٭……٭
|