بے شک اﷲ ہی ہے ،جو آسمان سے بارش کرتا ہے ، جس میں
جانداروں کے لیے زندگی کا سامان ہے ۔بارش حیوانات کی زندگی کے لیے نہایت ہی
ضروی ہے ، اسی کے ذریعے حیوانات کے رزق کا انتظام ہوتا ہے ۔ بارش نہ ہو تو
سوکھا پڑ جاتا ہے اور انسان اور جانور سب پیاس سے تڑپنے لگتے ہیں، لیکن یہی
بارش اگر ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو بھی انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے
، کہیں سیلاب آتے ہیں تو کہیں فصلیں اجڑ جاتی ہیں۔اﷲ تبارک وتعالیٰ ہی کی
ذات ہے ،جو تمام کائنات کی پالن ہار ہے ۔جس کے قبضۂ قدرت میں زمین وآسمان
کے خزانے ہیں،جس کی اجازت کے بغیر کسی درخت کا کوئی پتہ تک نہیں ہلتا۔وہی
ہے جس نے اس عالم ِرنگ و بو کو وجود بخشا،اسی کے لطف وکرم سے کائنات کا
نظام چل رہا ہے اور وہ جب چاہے گا،آن کی آن میں سب تباہ وبرباد کرکے رکھ دے
گا۔کون ہے جو اس کے سامنے لب کُشائی کرے ؟ کون ہے جو اس سے وجہ طلب کرے ؟
کون ہے جو اس کی قدرت کا ادراک کر سکے ؟ وہ خالق ہے ،باقی سب مخلوق ہیں۔وہ
مالک ہے ،باقی سب مملوک ہیں۔وہ غنی ہے ،باقی سب فقیر ہیں۔وہ جب چاہتا ہے ،جہاں
چاہتا ہے ،جو چاہتا ہے ،جیسے چاہتا ہے ،کرتا ہے ۔اسے اس کا حق بھی ہے اور
قدرت بھی۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(اﷲ تعالیٰ ربِّ کائنات اور ربّ وہ ہے) جس نے
تمھارے لیے زمین کو فرش بنایااور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی
برسایا،پھر اس پانی کے ذریعے عدم سے تمھارے لیے پھلوں کی غذا نکالی،تو اب
تو اﷲ کا مقابل نہ ٹھہراؤ اور تم جانتے بوجھتے ہو۔ (البقرہ)یہاں ان آفاقی
نعمتوں کا ذکر فرماکر تمام اقسامِ نعمت کا احاطہ فرمایا گیاہے ۔ان آفاقی
نعمتوں میں سے زمین کی پیدائش کا ذکر ہے کہ اس کو انسان کے لیے فرش بنا
دیا۔نہ پانی کی طرح نرم ہے ،جس پر قرار نہ ہو سکے اور نہ لوہے ،پتھرکی طرح
سخت کہ اسے آسانی سے استعمال نہ کر سکیں بلکہ نرمی اور سختی کے درمیان ایسا
بنایا گیا،جو عام انسانی ضروریات ِ زندگی میں کام آ سکے ۔دوسری نعمت یہ کہ
آسمان کو ایک مزین اور نظر فریب چھت بنا دیا۔تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے
پانی برسایا،آسمان سے پانی برسانے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ بادل کا واسطہ
درمیان میں نہ ہو بلکہ محاورات میں ہر اوپر سے آنے والی چیز کو آسمان سے
آنے والا کہتے ہیں۔چوتھی نعمت اس پانی کے ذریعے پھل پیدا کرنا اور پھلوں سے
انسان کی غذاپیدا کرنا ہے ۔ پروردگار کی مذکورہ چار صفات میں سے پہلی تین
تو ایسی ہیں کہ ان میں انسان کی سعی وعمل تو کیا خود اس کے وجود کو بھی دخل
نہیں۔ بے چارے انسان کا نام ونشان بھی نہیں تھا،جب زمین وآسمان پیدا ہو چکے
تھے اور بادل وبارش اپنا کام کر رہے تھے ۔(ماخوذ از معارف القرآن)
اس تمہید کو غور سے پڑھیے اور غور کیجیے کہ آخر اس کائنات میں انسان کا کیا
عمل دخل ہے ؟ آپ کو جواب نفی میں ملے گا،لیکن کیا کیجیے ! اس کے باوجود
انسان کی جہالت و غرور کا یہ عالم ہے کہ اتراتا پھرتا ہے ، اس قادرِ مطلق
رب کی نافرمانی کرتا ہے ۔ پھر اپنے منصوبے بناتا ہے اور قدرت کے ساتھ چھیڑ
چھاڑ کرتا ہے ۔یہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی اور قدرت سے چھیڑ چھاڑ ہی کا تو
ثمرہ ہے کہ بارش کے موسم میں بارش نہیں ہوتی اورجب ہوتی ہے تو اس قدر کہ
انسانی زندگی کے لیے خطرہ بن جاتی ہے ۔خیال رہے ،اﷲ تعالیٰ اس کائنات کو
تباہ نہیں کرنا چاہتے ،یہ تو ہمارے اعمالِ بد ہیں،جن کے باعث ہمارے ساتھ یہ
حادثات پیش آتے ہیں۔
تقریباً مہینے بھر سے بھارت کے مختلف خطوں سے بارش کی زیادتی کی خبریں
موصول ہو رہی تھیں اور کئی ہفتوں سے بہار وغیرہ کے متعدد اضلاع سیلاب کا
شکار تھے ،اور 29 اگست 2017ء کو ممبئی میں بھی رکارڈ ٹوڑ بارش ہوئی، جس نے
لوگوں کو تقریباً بارہ سال قبل ہوئی چھبیس جولائی کی یاد دلا دی۔ ریل، روڈ
اور فضائی خدمات یک سردرہم برہم ہوکر رہ گئیں۔ گھنے درخت جڑ سے اُکھڑ کر
سڑکوں، گھروں اور کاروں پر گر پڑے اور کئی گھر دلدل اور پانی میں محصور
ہوگئے ، اور عروس البلاد ممبئی نے قدرت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ۔، خاص طور
سے نشیبی پریل، داور، کرلا، اندھیری، کھار، گھاٹ کوپر، سائن اور ہند ماتا
وغیرہ میں گھنٹوں کمر کمر تک پانی جمع رہا۔ تینوں مضافاتی ریلوے لائنوں
سنٹرل، نارتھ اور ہاربر پر متعدد ٹرینیں منسوخ کرنی پڑیں کیوں کہ پٹریاں
پانی میں کھو چکی تھیں، اور گوا سے آنے والے ٹریفک کو ممبئی میں داخلے سے
روک دیا گیا۔ ڈپٹی میونسپل کمشنر سدھیر نائیک کے مطابق شہر میں 85 ملی میٹر
بارش ریکارڈ کی گئی ہے ، جس کے پیشِ نظر 30 اگست کو عام تعطیل کا اعلان
کردیا گیا۔
اس مضمون کا مقصد صرف یہ احساس دلانا ہے کہ یہ سب بلا سبب نہیں،اس کے پیچھے
ہمارے اعمال ِ بد کی سیاہی ہے ۔اس لیے ہمیں ایسے موقعوں پر اپنے رب سے بگڑا
ہوا رشتہ استوار کرنے کی ضروت ہے ۔قربان جائیے رسول اﷲﷺ کے !اُفق پر بادل
چھا جانے پرآپﷺ کے چہرۂ انور کارنگ متغیر ہوجاتا تھا،آپ بے چینی سے اندر
باہر آنے جانے لگتے تھے ، کیوں کہ پہلے بھی ایک قوم پر بادل چھا جانے کے
بعد اس میں سے پانی کی بجائے آگ کی بارش ہوئی تھی، اس لیے حضرت نبی کریمﷺ
بے چین رہتے تھے ۔(مسلم) جو ہوائیں بارش کے آنے کی خبر دیتی ہیں،انھیں
محسوس کر کے آپﷺ یہ دعا پڑھتے: اے اﷲ! میں آپ سے اس کی خیر وبرکت کا اور جو
کچھ اس میں ہے ،اس کی خیر وبرکت کا اور جس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے ،اس
کی خیر وبرکت کا سوال کرتا ہوں اور اس کے شر سے اور جو اس کے اندر ہے اس سے
او رجس چیز کے ساتھ یہ بھیجی گئی ہے ،اس کے شر سے آپ کی پناہ چاہتا
ہوں۔(مسلم)اور جب بارش ہونے لگتی تو آپ یہ دعا فرماتے :اے اﷲ ! خوب برسنے
اور نفع دینے والی بارش برسا۔(بخاری) اورجب آپﷺ بارش سے خطرہ محسوس فرماتے
تو اس طرح دعا فرماتے : اﷲ! ہمارے اردگرد (بارش برسا تاکہ ہماری ضرورت پوری
ہو جائے )،ہم پر نہ برسا(کہ ہمارے کام کاج ٹھپ ہو جائیں)۔اے اﷲ! پہاڑوں اور
وادیوں پر،جنگلوں اور ندی نالیوں پراور درخت اگنے کے مقامات پر بارش
برسا۔(بخاری)کبھی تیز ہوا کے چلنے پر آپﷺ گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اوراس طرح
دعا فرماتے :اﷲ ! آپ اسے رحمت بنائیے ، عذاب مت بنائیے ۔ اے اﷲ ! آپ
اسے(مبارک مینہ کا پیش خیمہ اور)مفید بنائیے ، بے فائدہ مت بنائیے
۔(الاذکار)
ظاہر ہے اس طرح جو بارش ہوگی وہ انسان کے مفاد میں ہوگی،لیکن ہم نے کبھی اس
طرح اﷲ تعالیٰ سے مانگا ہی نہیں!ہم تو ایسے وقت میں بھی میری تیری یا
واہیات میں لگے رہتے ہیں۔ پھر جب بارش جیسی عظیم نعمت ہماری غفلتوں کی وجہ
سے اعتدال سے ہٹ جاتی ہے ،رحمت کی بجائے زحمت بن جاتی ہے ، تواسے کوسنے
لگتے ہیں۔خواہ رسول اﷲﷺنے ایسا کرنے سے منع فرمایاہو کہ ایسا کرنے سے فقر
وفاقہ آتاہے ۔(الاذکار)
مختصر یہ کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تمام مسائل کا حل بارگاہ ِ الٰہی میں
تلاش کریں اوراس کے لیے نبوی طریقہ اپنائیں۔ویسے بھی اس وقت پورے عالم کے
جو حالات ہیں،ان میں اس بات کی اشدّ ضروت ہے کہ ہم اﷲ کی رحمت کی چادر میں
پناہ حاصل کریں،تاکہ ہمیں امن ملے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں تاکہ
امن کی ہوائیں عام ہوں۔
٭٭٭٭
|