جذبات جب زبان بن تو اکثر بہت تلخ لگتے ہیں. ایسا ہے کچھ
بول نیوز ہیڈ کوارٹر کے اینکر حمزہ علی عباسی کے ساتھ ہوا جب پانچ ستمبر کے
پروگرام میں انہوں نے جذبات کی زد میں آکر کچھ تلخ الفاظ کہہ ڈالے جو کے
سننے میں بہت نا مناسب تھے لیکن سننے والوں نے ان الفاظ کو سیاق و سبق سے
ہٹ کر صرف الفاظ کے لغوی معنی دیکھے لیکن ان الفاظ کے پیچھے چھپے لاکھوں
روہنگیا مسلمانوں کو ملنے والی ازیت ناک موت کے لیے حمزہ علی عباسی کا غم و
غصّہ نظر نہ آیا-
ہم خود بسا اوقات جذبات میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ بھول جاتے ہیں کب
کہا اور کس سے بات کر رہے ہیں اور یہی کچھ حمزہ علی عباسی کے ساتھ بھی ہوا
وہ روہنگیا کے مسلمانو کے دکھ کو لے کر اس قدر جذباتی ہوگے کے بھول گئے کے
وہ ٹی وی اسکرین پر موجود ہیں ور لاکھوں لوگ انھے سن رہے ہیں ور یہی ان کا
جرم ٹھرا-
وہ لوگ جو آج بہت سی سماجی رابطے کی ویب سائٹ جیسے فیس بک ور ٹویٹر پر حمزہ
علی عباسی سے غم و غصّے کا اظہر کر رہے ہیں اور انھے جس قدر برا بھلا کہ
رہے ہیں انھے بھی اپنے الفاظ پر غور و فکر کی ضرورت ہے کے جس بات کے لیے وہ
حمزہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں وہ کام اب وو خود کہہ رہے ہیں
اس مضمون کو لکنے کا مقصد صرف صرف یہ ہے کے اگر ہم کسی کی غلطی پر تنقید کر
رہے ہو تو وو تنقید براے اصلاح ہونی چاہیے نہ کے تنقید برائے تنقید . شکریہ
|