مسلمانوں کے قتل عام پر حکمران خاموشی کیوں ؟

دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہی دہشت گردی سمیت مختلف قسم کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں ۔ کسی اور مذہب یا تہذیب کے لوگوں پر کیوں نہیں ؟۔ یہ سوال پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان کی زبان پر ہے لیکن پھر بھی مسلم حکمرانوں کی اکثریت چند مفادات کیلئے حقیقت ماننے کیلئے تیار نہیں۔ہر طرف مسلمان پر دہشت طاری کرنے کیلئے کون سے لوگ سرگرم ہیں۔ان کو ایساکرنے سے کیا حاصل ہوتاہے ۔اس حوالے سے دنیا بھر کے اخبارات ، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر شائع ہونیوالی رپورٹ میں بھی کئی انکشاف ہوئے لیکن مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے خاموشی اختیار کی ۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کے جنگ اور احتجاج کسی مسئلے کا حل نہیں۔لیکن ہر انسان اپنے حق کیلئے احتجاج بھی کرتاہے مسئلہ حل نہ ہو تو جنگ بھی ہوتی ہے ۔طریقہ کار مختلف ہوتے ہیں۔ آخر ی مرحلہ مذاکرات کا ہوتا ہے۔بات ہورہی ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہی دہشت گردی سمیت مختلف قسم کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں ۔ کسی اور مذہب یا تہذیب کے لوگوں پر کیوں نہیں ؟

امریکہ اسرائیل کے ذریعہ فلسطینی عوام پر مسلسل ظلم وستم کروانے میں مصروف ہے ۔متعدد مسلم ممالک کو تباہ کرنے کے بعداب امریکہ نے پاکستان کو دھمکیوں کا سلسلہ شروع کردیا ہے ۔ پاکستان کی جانب سے ردعمل کے بعد اچانک پھرمیانمار کی سکیورٹی فورسز نے ایک بار پھر ملک کے راکھین صوبے میں مقیم روہنگیا مسلمانوں پر قیامت ڈھائی ہے اور گزشتہ چند روز میں ہزاروں نہتے اور مجبور و بے بس روہنگیا کو شہیدکیا گیا ۔ اس دوران عالمی ضمیر اطمینان سے سویا ہوا ہے ۔ میانمار حکومت کی انسان دشمن پالیسیوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ۔ امریکہ نوازمسلمان ملکوں کے لیڈروں کو روہنگیا مسلمانوں کی ابتر صورت حال اور میانمار فوج کے استبداد پر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ سکیورٹی فورسز کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا کے دیہات اور مکانوں کو مسلح گروہ کے ارکان نے تباہ کیا اور آگ لگائی ہے لیکن بین الاقوامی تنظیم ہیومن واچ نے سیٹلائٹ تصویروں کے ذریعے اس جھوٹ کا پردہ چاک کردیا ۔ ماضی میں بھی عالمی ادارے میانمار حکومت اور سکیورٹی فورسز کے جھوٹ کو سامنے لاتے رہے ہیں تاہم میانمار کی پالیسی میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ حکومت صحافیوں یا عالمی اداروں کے نمائندوں کو راکھین جانے کی اجازت بھی نہیں دیتی جس کی وجہ سے اصل حقائق کبھی بھی منظر عام پر نہیں آسکتے ۔ ان علاقوں سے فرار ہو کر جان بچانے والے مہاجرین کے ذریعے ہی راکھین کے حالات اور روہنگیا کی صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی روک تھام کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دیتا۔

سوال یہ پیداہوتاہے کہ فلسطین ، کشمیر،برما سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان کے قتل عام پرامریکہ نوازمسلمان ملکوں کے لیڈر خاموش کیوں ہیں؟دنیا بھر کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتاہے کر دنیا بھرکے مسلم ممالک میں اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کوکا کولا، پیسپی ، نائک، نیسلے ،میک ڈونالڈاور جانس اینڈ جانسن اور مختلف قسم کی ادویات سمیت 18ہزارکے قریب منصوعات کا کاروبار ہے۔ جس کی آمدن کا 80فیصد حصہ اسرائیل اور امریکہ پہلے ہی وصول کرلیتا ہے۔جس میں سے امریکی اور اسرائیل کے حکمران تقر یباً 10فیصد مسلم حکمرانوں کی امداد 20فیصد ان کیخلاف جنگ میں استعمال 20فیصد اپنی سکیورٹی پر خرچ کرتے ہیں۔30فیصد اپنی عاشیوں کیلئے رکھتے ہیں۔ تاکہ کہ ہم بھر دنیا کے مسلم ملکوں میں اپنی مرضی کی حکومتیں کو قائم رکھیں سکیں۔امریکہ اور اسرائیل نے اپنی مصنوعات فروخت کیلئے سوشل میڈیا، پرنٹ ، الیکٹرنک میڈیا پر قبضہ کررکھاہے ۔

غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ساٹھ ہزار کے لگ بھگ روہنگیا مسلمان ہمسایہ ملک بنگلہ دیش میں پناہ کے لئے مشکل اور دشوار گزار راستوں کو عبور کرتے ہوئے پناہ گزین کیمپوں میں پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہزاروں لوگ ان کیمپوں میں پہنچ چکے ہیں اور امدادی کارکن ان کی مدد کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن وسائل کی کمی کے باعث سب ضرورت مندوں کو بنیادی ضروریات اورعلاج کی سہولتیں فراہم کرنا ممکن نہیں ۔ بنگلہ دیش کی حکومت اس صورت حال کو تسلیم نہیں کرتی ہے جس کی وجہ سے امدادی کارروائیاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر مزید پناہ گزینوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے ۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اس معاملے پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ اسرائیل کی جیلوں میں قید فسلطینی شہری مروان برغوتی کی رہنمائی میں سیکڑوں فسلطینی عوام بھوک ہڑتال کر کے اسرائیلی پولیس کے ناروا اور غیر انسانی سلوک کیخلاف خاموش احتجاج کر رہے ہیں، کشمیر میں انڈیا نے مسلمانوں کی تحریک آزادی کے خلاف اعلان جنگ کررکھاہے ۔

دوسری جانب خبریں یہ بھی ہیں چند عناصر نے ان مسائل سے فائدہ اٹھنے کیلئے مختلف جگہوں پر امدادی کیمپ قائم کررکھے ہیں ۔کہ برما، فلسطین ، کشمیرسمیت دنیا بھر کے متاثرہ مسلمانوں کی امداد کی جائے ۔لیکن چند اداروں کے علاوہ سب مفادات پرست میدان میں آئے ہوئے ہیں،اگر امدادکرنی ہے تو افریقی نائب صدر کی طرح کریں۔افریقی نائب صدرسے مسلم ممالک اور عالمی رہنماؤں یہاں تک کہ دنیا میں موجود ہر مسلمان اور انسانیت نواز افراد کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے ۔فسلطینی پر ایک طویل مدت سے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور انہیں نت نئے طریقوں سے پریشان کیا جا رہاہے ۔ لیکن مسلم ممالک اور عالمی رہنما مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ اس کے علاوہ دنیا میں موجود مسلمانوں نے بھی ابھی تک فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی کا وہ طریقہ نہیں اپنایا جس کی ضرورت تھی۔ قوم کے کچھ لوگوں نے دنیا کے مسلمانوں سے فلسطینی عوام پر ہو رہے مظالم کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کیلئے صرف اسرائیلی اور اس کا سب سے اچھا دوست امریکہ کی اشیاء کا بائیکاٹ کی اپیل کی ، لیکن افسوس امریکہ نواز مسلم حکمرانوں نے اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا بلکہ مزید استعمال شروع کر دیا۔اب جبکہ افریقی نائب صدر راما فوسانے صہیونی ریاست کیخلاف بہادری سے صدائے احتجاجی بلند کیاہے تو مسلم ممالک کو چاہئے کہ ان کے اس قدم کی ستائش کریں اور ان کو اپنی حمایت دیں ۔اگر ہم اسرائیل اور امریکی ایشاء کااستعمال نہیں کرینگے ۔دنیا میں امن قائم ہوسکتاہے۔

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201520 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.