پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان اور
آپریشن رد الفساد پر کامیابی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے ۔ قومی لائحہ عمل
پاکستان کو جنوری2015میں پاکستانی حکومت نے قانون کی شکل میں مملکت میں
جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مرتب کیا تھا تاکہ ملک میں جاری دہشت گردی
کے سدباب کے لئے ایک منظم طریقے کو اختیار کیا جائے ۔ اے پی ایس پشاور حملے
کے بعد اس نیشنل ایکشن پلان ( قومی لائحہ عمل پاکستان ) کو تمام صوبوں میں
وسیع اور تیز تر کردیا گیا ۔مجموعی طور پر نیشنل ایکشن پلان کے بیس نکات
بنائے گئے جن پر یقینی عمل درآمد کرنے کیلئے وفاق و صوبائی حکومتوں نے
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کو یقینی بنانے کی کوشش کی ۔اگر
ہم نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا اجمالی جائزہ لیں تو 2015سے قبل
2017میں قانون نافذ کرنے والوں نے کافی کامیابیاں سمیٹیں ہیں ۔ کئی برسوں
سے پھانسیوں کے رکے جانے کی وجہ سے سزا یافتہ مجرموں کو سزاؤں سے مجرموں
میں خوف پیدا ہوا اور حکومت کو کالعدم جماعتوں کی جانب سے دہمکیاں دیں گئیں
اور ہر طرف سے سخت دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی لیکن زیر التوا پھانسیوں پر
عمل درآمد کرنا نیششنل ایکشن پلان میں سر فہرست تھا جس پر عمل درآمد شروع
ہوا۔ پارلیمان کی مشاورت و حمایت سے کمزور قوانین و دہشت گردوں کے خلاف
تیزی سے مقدمات نہ چلائے جانے اور جج صاحبان سمیت گواہان کو درپیش سیکورٹی
کے مسائل اور تفتیشی افسران کی جانب سے مقدمات کی درست پیروی میں کوتاہی کے
سبب دہشت گردوں نے قانون موشگافیوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ، جس کے سدباب
کے لئے آئین میں ترمیم کرکے خصوصی عدالتیں جنھیں اسپیشل ٹرائل کورٹ( فوجی
عدالتیں) کہا جاتا ہے ، قائم کیں گئیں ۔صوبائی وزرات داخلہ اور اپیکس کمیٹی
کی مشاورت کے بعد اہم مقدمات خصوصی عدالتوں میں بھیجے گئے ۔ جن پر فوری عمل
درآمد ہوا اور تیز رفتار سماعتوں کے بعد مقدمات کے فیصلے کئے گئے ۔ بعض
سیاسی جماعتوں نے ان عدالتوں پر تحفظات کا اظہار کیا لیکن پاکستان کے
معروضی حالات کے تناظر میں فوری سماعت کی بے خوف عدالتوں کا قیام ناگزیر
تھا ۔ موجودہ عدالتی نظام میں جلد سماعت کا ممکن ہونا مایوس کن حد تک سست
روئی کا شکار ہے ۔ زیر سماعت اٹھارہ لاکھ مقدمات کیلئے چار ہزار جوڈیشنل
افسران اور جج صاحبان کے لئے ممکن نہیں تھا کہ وہ پہلے سے موجودہ مقدمات کو
التوا میں رکھ کر دہشت گردوں کے خلاف تیز سماعتیں کریں ،پاکستانی عدالتی
نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ تاہم عدالتی نظام کی بہتری کیلئے جوڈیشنل
اصلاحات پالیسی نہیں بنائی جاسکی ہے نیز مقدمات کے مقابلے میں جوڈیشنل عملہ
اور موجودہ خالی اسامیوں کے علاوہ خصوصی تقرریوں کے نہ ہونے کے سبب بھی
لاکھوں کی تعداد میں دائر مقدمات کے فیصلوں میں برسا برس لگ جاتے ہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت عسکری تنظیموں اور عسکری جتھوں کے خلاف کاروائی کی
گئی ، صرف کراچی میں قریباََ ساڑھے سات لاکھ سے زائد غیر قانونی اسلحہ اور
ممنوعہ بور کے ہتھیار قانون نافذ کرنے والے اداروں نے برآمد کئے ۔ کراچی
پاکستان کا سب سے غیر محفوظ اور قتل و غارت و بد امنی کے حوالے سے انتہائی
متاثرہ شہر رہا ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی آپریشن کے تحت
بھرپور کاروائیاں کرکے شہر قائد کو امن کی جانب گامزن کیا اور شہریوں نے
کئی عشروں پر سکون کا سانس لیا۔
نیشنل ایکشن پلان میں اس بات پر بھی توجہ دی گئی تھی کہ نفرت انگیز تقاریر
، دہشت گردی اور فرقہ واریت کو فروغ دینے والے اخبارات ، میگزین اور اس طرح
کی دیگر چیزوں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے گی۔ اس حوالے سے تمام
صوبوں میں قانون نافذ کر ے والے اداروں نے خصوصی توجہ مرکوز رکھی ، اور
دہشت گردی سے متاثرہ صوبوں میں لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال سمیت نفرت انگیز
مواد کے خلاف بڑی تعداد میں گرفتاریاں اور مدارس کی اسکروٹنی بھی کی گئی ۔تاہم
اس حوالے سے سوشل میڈیا میں مختلف کالعدم جماعتوں کی جانب سے فرقہ واریت
اور نفرت انگیز مواد کے مکمل خاتمے کے حوالے سے قانونی کاروائیوں میں کمی
دیکھنے میں آئی ، سوشل میڈیا میں جس طرح نفرت انگیز مواد ، ویڈیوز اور دہشت
گردی کے حوالے سے ترغیبات دی جاتی ہیں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس
حوالے سے عوام کا تعاون درکار رہا ہے کیونکہ لاکھوں کی تعداد میں عوام سوشل
میڈیا کا استعمال کرتی ہے ، اگر ان مواد کے خلاف تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا
استعمال کرنے والے محب الوطن شہری ، مخصوص اداروں کو آگاہ کرتے رہیں تو ان
افراد کے خلاف موثر کاروائیاں عمل میں لاکر سوشل میڈیا کے انتہا پسندوں کے
خلاف ایکشن کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے ۔ صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی
ایسے خاص اقدامات نہیں کئے گئے جو سوشل میڈیا میں موجود انتہا پسندوں کے
خلاف عملی کاروائی کرسکیں ۔ مستقبل میں سوشل میڈیا معاشرے کی تباہی میں
کالے حروفوں سے تاریخ میں یاد کیا جائے گا کیونکہ ان سماجی رابطوں کے صفحات
پر جس قسم کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اس سے نوجوان نسل میں بے راہ روی سمیت
انتہا پسندی کی جانب رجحان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔نیشنل
ایکشن پلان کے مقاصد میں ایک اہم نکتہ دہشت گردوں کو مالی امداد کے خاتمے
کے حوالے سے درپیش رہا ہے ۔ مثال کے طور پر بھتہ ، قربانی کی کھالیں ، غیر
قانونی ہائی ڈرینٹ ، لینڈ و ڈرگ مافیا ، اغوا برائے تاوان ، مختصر دورانیہ
کا اغوا اور کرپشن کے ذریعے چھوٹے بڑی دہشت گرد تنظیموں کو اربوں روپے ملتے
ہیں ، نیشنل ایکشن پلان کے بعد بڑی وارداتوں میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن
بیرون ملک سے ملنے والی امداد اور این جی اوز کے نا م پر فنڈنگ کے مکمل
خاتمے کے لئے موثر حکمت کو مزید مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کی روح کے مطابق میں انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی نگرانی
کا مستقل نظام، پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا کا دائرہ کار ، سیاسی مفاہمت ،
کالعدم دہشت گرد تنظیموں کا نام بدل کر کام کرنا اور ان کے ذمے داروں کے
خلاف کاروائیوں میں سختی سے اجتناب کے تاثر کو ختم کرنا، افغان مہاجرین کی
فوراََ باعزت واپسی کو یقینی بنانا اور ملک کے اندر سیاسی انتشار میں ہر
ادارے کو اپنے دائرہ اختیار کے مطابق کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ تمام
دینی مدارس کے ساتھ عصری تعلیمی درسگاہوں میں تفریق نہ ررکھی جائے، کیونکہ
جدید تعلیمی اداروں کے کئی طالب علم دہشت گردی کے خطرناک واقعات میں ملوث
پائے گئے ہیں لہذا صرف مدارس کو مورد الزام سمجھ کر جانب دار یکطرفہ
کاروائیوں سے غلط فہمیوں کا جنم لینا فطری امرہے۔کسی بھی مخصوص صوبے یا شہر
میں آپریشن کا تاثر ایسا نہیں جائے کہ کسی مخصوص جماعت یا تنظیم کے خلاف
کاروائی ہو رہی ہے ۔ نیکٹا کو فعال کرنا، دہشت گردی کے خلاف سیاسی بنیادوں
پر بھرتی کے بجائے میرٹ پر خصوصی فورس کو موجودہ پولیس کے نظام کی جگہ لانے
کی بتدریج منصوبہ بندی کو یقینی بنانا اور فاٹا کو جلد از جلد صوبہ
پختونخوا میں انضمام کرکے قومی دھارے میں شامل اور ایف سی آر کے کالے قانون
کو ختم کرکے پاکستان کے دیگر حصوں کے طرح قبائلی علاقوں سے احسا س محرومی
کا خاتمہ ہماری حکومت کی ترجیحات ہونی چاہیے۔
صوبائیت ، لسانیت اور فرقہ واریت کے خاتمے کے لئے تمام لسانی اکائیوں اور
مسالک کو ایک پیج پر لانے کی ضرورت ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے
ملک کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف اہم کامیابیاں حاصل
کیں ہیں ، بارڈر منجمنٹ پر تیزی سے عمل کرتے ہوئے سرحد پار سے آنے والے
دہشت گردوں کی بیخ کنی اور بلا روک ٹوک آمد کو روکنے کے لئے وادی رجگال کی
طرح حساس سرحدی مقامات پر حکومتی رٹ قائم کرنا ضروری ہے۔ پاکستان دہشت گردی
سے متاثرہ دنیا کا واحد ملک ہے جو پرائی جنگ میں حلیف بننے کے جرم میں
گزشتہ کئی عشروں سے قیمتی جانوں اور اربوں ڈالرز کے نقصان کے باوجود پڑوس
سمیت بین الااقوامی طور پر ستائش اور حوصلہ افزائی کے بجائے استعماری قوتوں
کی دہمکیوں اور ڈومور کے مطالبات کا سامنا کررہا ہے ۔ پاکستان میں دہشت
گردی کا مکمل خاتمہ عالمی اداروں اور ممالک کے تعاون کے بغیر ناممکن رہا ہے
لیکن اس کے باوجود جس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کم عرصے میں
مملکت سے انتہا پسندوں کے خلاف کامیابیاں حاصل کیں ہیں وہ مبارکباد و ستائش
کے مستحق ہیں۔
|