دنیا سے ایک بڑاسوال ’’مجھے کیو ں نکالا ؟‘‘اور ایک بڑا جھوٹ ’’پی پی پی نے کبھی کرپشن نہیں کی‘‘

اِن دِنوں مملکتِ خداداد پاکستان کے طولُ اَرض سے لے کر دنیا بھر میں ایک بڑے سوال’’ مجھے کیو ں نکالا؟‘‘ اور اِسی طرح دنیا کے سب سے بڑے جھوٹ ’’ پی پی پی نے کبھی کرپشن نہیں کی ہے‘‘ کی گونچ شدّومَدّ سے جاری ہے تا ہم ایک طرف’’ مجھے کیو ں نکالا؟‘‘کہنے والے سا بق وزیراعظم مسٹر نواز شریف ہیں جبکہ دوسری جا نب ’’ پاکستان پیپلز پارٹی نے کبھی کرپشن نہیں کی ہے‘‘ جیسے جملے کا انکشاف کرنے والے سا بق صدر ِ پاکستان جناب آصف علی زرداری ہیں، یعنی یہ کہ آج مجھے کیو ں نکالا ؟؟ اور پی پی پی نے کبھی کرپشن نہیں کی ہے ‘‘ والے جملے اور الفاظ مذاق بن گئے ہیں ، بڑے تو بڑے بچوں نے بھی اِن جملوں کو صدی کا سب سے بڑا سوال اور سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا ہے، یہ تو سب ہی کو پتہ ہے کہ مجھے کیو ں نکالا؟ کہنے والے کو کیو ں نکالا گیاہے؟ مگر نہیں پتہ ہے تو بس یہ سوال کرنے والے کو ہی اپنے نکالے جا نے کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہے کہ اِسے کیو ں نکالا گیاہے؟گو کہ بڑی معصومیت سے یہ سوال پوچھنے والے اکیلے مسٹر نوازشریف ہی ہیں جو نہیں جا نتے ہیں کہ اِنہیں کیو ں نکالا گیاہے ؟یوں یہ رورو کر بس عوام کو بیوقوف بنارہے ہیں۔

جبکہ اُدھر مسٹر آصف زرداری ہیں کہ اُنہوں نے بھی نہ صرف مُلکِ پاکستان بلکہ دنیا کا بھی 21ویں صدی کے ایک سب سے بڑے جھوٹ کا انکشا ف کچھ یوں بول کرکیا ہے کہ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی نے کبھی کرپشن نہیں کی ‘‘جبکہ یہ بات تو ہر پاکستانی سمیت پوری دنیا کے چپے چپے میں رہنے والے کو بھی معلوم ہے کہ روزِ اول سے لے کر ابھی تک اقتدار میں آکر اور باہر رہ کر پی پی پی نے کرپشن کرکے اور کراکے کتنے بڑے بڑے ریکارڈ توڑے ہیں اور توڑرہی ہے اور توڑتی رہے گی پَر اِس پربھی ڈھٹا ئی کے ساتھ عوام کی آنکھوں میں مرچیوں بھری دھول جھونکتے ہوئے آصف زرداری کا درجہ اول کی معصومیت والا چہرہ بنا تے ہوئے یہ کہنا کہ پی پی پی نے کبھی کرپشن نہیں کی ہے‘‘ ایسا جھوٹ ہے جیسے کہ دن کو را ت اور رات کو دن کہنے اور چاند کو سورج اور سورج کو چا ند گرداننے کے مترادف ہے۔

آج ہمارے یہاں تما م اقسام کی کرپشن سے لبریز سیا سی اور مذہبی حلقوں کا قوی خیال یہی ہے کہ آئندہ سال2018ء میں انتخا بات ہوں گے ،مگرایسے میں ایک سوال یہ ضرور پیداہوگیاہے کہ اَب اِن کرپٹ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ٹھیک طرح احتساب نہ ہو نے تک اگلے سال انتخابات کیسے ممکن ہو سکتے ہیں؟؟ یہ ایک سوال ہے جو آج ہرمحب وطن پاکستا نی ووٹر کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہاہے مگر سیاستدانوں اور اداروں کی کھینچا تا نی میں کہیں سے بھی اپنے سوال کا تسلی بخش جوا ب نہ ملنے پر حالتِ اضطرابی میں بیچارہ ووٹر پھڑپھڑاکر ہی رہ جاتاہے، جبکہ موجودہ حالات واقعات میں عام بے وقوف اور ایک مٹھی میٹھے چاول اور ایک پلیٹ بریا نی کھا نے اور پوڈر کے دودھ کی ایک گلاس لسی پی کر اپنا قیمتی ووٹ اپنے عیارومکار اور جھوٹے دعویدار اور سبز باغ دکھا نے والے اپنے حلقے کے اُمید وار کی جھولی میں پھینک کر اپنا سب کچھ لُٹادینے والا ووٹر بڑا ہی بے وقوف ہے کہ وہ ذرا بھر میں اپنا سودا طے کرکے اپنی زندگی اپنے حلقے کے سیاسی پینترے باز اور جھوٹے اُمیدوار کے ہاتھوں گروہی رکھ دیتا ہے، یوں جس پر یہ عقل سے پیدل ووٹر پانچ سال تک اپنی قسمت اور بے بسی اور بے کسی کا رونا روتا رہتا ہے پھر اِسی حالتِ کسمپرسی میں پانچ سال گزرجاتے ہیں اور اگلے الیکشن پھر سر پر آجا تے ہیں ،حلقے کا ووٹر پھر خود سے سوال کرتا ہے کہ اِس مرتبہ یہ ایک مٹھی میٹھے چا ول ایک پلیٹ چنے کی بریا نی اور ایک گلاس لسی کا پی کر اپنے ووٹ کا سودا نہیں کرے گا مگر پھر یکدم سے اِس پر اپنے حلقے کے اُمید وار کا ایسا جادو چڑھ جاتا ہے کہ پھر یہی ووٹراپنی وہی سا بقہ غلطی دہراتا ہے اور پھر اپنی قسمت اور زندگی کا سودا ذراسی قیمت کے عوض کر بیٹھتا ہے اور پھر مسا ئل و مہنگا ئی کی چکی میں پستا رہتا ہے ۔

بہر حال ، کچھ بھی ہے مگر کرپشن سے لبریز سیاسی اور مذہبی حلقے اگلے سال انتخابات سے متعلق لاکھ درجے خوش فہم رہیں مگر درحقیقت نقطہ یہ ہے کہ موجودہ حالت و اقعات کی روشنی میں اگلے سال مُلک میں انتخابات ہو تے دِکھا ئی نہیں دے رہے ہیں،نہ صرف آئندہ سال بلکہ غیرمعینہ مدت( دوردور)تک انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں، اگر آج اِن کرپٹ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کڑے احتساب کے بغیر ہی اگلے ا لیکشن ہونے ہیں تو پھر مُلک کو کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک کرکے مُلک اور قوم کی دُرست سمت کی جا نب گامزن کرنے کے دعوے اور وعدے سب کچھ غلط ثا بت ہوں گے کیو نکہ مُلک میں پہلے سے موجود ایکٹیو اور سرگرم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ہوتے ہوئے مُلک کو کرپشن اور کرپٹ عناصر سے پاک نہیں کیا جاسکتا ہے،تا ہم آج ہونا تو یہ چا ہئے کہ اگلے سال جو مُلک میں انتخا بات ہو نے جا رہے ہیں اِنہیں آٹھ سال دس تک موٗخر یا ملتوی کئے جائیں یہ اُس وقت تک مُلک میں منعقد نہ کئے جا ئیں جب تک کہ مُلک سے اچھی طرح موجودہ ( نوازشریف کی پاکستان مسلم لیگ (ن) زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور لندن کے تمام دھڑوں سمیت عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف اور سرا ج الحق کی جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علما ئے اسلام جیسی بڑی) سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کرپٹ رہنماؤں اورنئے پرا نے کرپٹ عہدیداروں اور کارکنان کا کڑا احتساب نہ ہو جا ئے اور احتساب اِس طرح سے کیا جائے کہ اِن قومی چوروں سے مُلک کی لوٹی گئی اربوں قومی دولت وا پس لی جا ئے اور قومی چوروں سے جنہوں نے باہر اربوں کے ذاتی اور خاندانی افراد کے اثاثے بنا ئے ہیں اِن سے عالمی بینکوں میں جمع کرائے گئے اربوں ڈالرز واپس پاکستان لا ئے جا ئیں اور پھر تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قومی چوروں کو کڑی سزا دی جا ئے تا کہ یہ تمام قومی چور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ عبرت بن جا ئیں یہ ٹھیک ہے کہ قومی دولت کی چوری کی پاداش میں اِن کے ہا تھ تو نہ کا ٹے جا ئیں مگر کم از کم اِن تمام قومی چوروں کے سیدھے ہا تھ کی ایک یا دو انگلیاں سزا کے طور پر ضرور کا ٹ دی جا ئیں تا کہ تاحیات اِنہیں احسا س ہوتا رہے کہ اِن کے ہا تھ کی یہ انگلیاں قومی دولت کی چوری اور لوٹنے کی وجہ سے کا ٹی گئیں ہیں ۔(ختم شُد)

Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 973631 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.