پردیسیوں کا وطن کونسا ہوتا ہے؟

ایک دوست نے ہم سے یہ پوچھا کہ جو لوگ اپنا ملک چھوڑ کر کہیں اور جا بستے ہیں انکا وطن کون سا ہوتا ہے؟ یہ سن کر ہمیں ان صاحب کا قصہ یاد آ گیا جنہوں نے دو گھر کر رکھے تھے، کسی نے ان سے پوچھا کہ دونوں میں سے آپکا گھر کونسا ہے، پہلی بیوی کا یا دوسری والی کا؟ وہ صاحب منّہ بسُورتے ہوئے بولے: جی بس کیا عرض کروں، کبھی ہوتا تھا اپنا بھی گھر، مگر جناب جب سے میں نے دو گھر کئے ہیں، میرا معاملہ تو بس دھوبی کے اس کتے کی مانند ہو کر رھ گیا ہے جو نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا............! پہلی کے یہاں جاتا ہوں تو وہ دوسری کے طعنے دیتی ہوئی کہتی ہیں: کیوں جی......! اُس تمہاری ہوتی سوتی سے جی بھر گیا جو اب میرے پاس آگئے ہو؟ اور جو دوسری کی طرف چلا جاؤں تو وہ اپنے، میرے اور میری پہلی بیوی کے نصیبوں کو کوستے ہوئے دہائیاں دے دے کر سارا آسمان ہی سر پر اٹھا لیتی ہے۔ دونوں میں سے کسی بھی گھر میں گھڑی بھر کو آرام میسر نہیں، میں تو اس دن کو روتا ہوں کہ جس دن دوسری شادی کی تھی..............!!!

خیر صاحب، یہ تو محض ایک جملہِ معترضہ تھا کہ جو ہم نے ازراہِ تفنن یہاں شامل کرڈالا، وگرنہ ہمارے کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اپنا ملک چھوڑ کر کسی دوسرے ملک جا بسنے والے لوگوں کا حال اُن صاحب جیسا ہوتا ہے جنہوں نے دو گھر کر رکھے ہیں اور ویسے بھی جن دوست نے ہمارے سامنے یہ سوال رکھا ہے، انہوں نے یہ نہیں پوچھا کہ ایسے لوگوں کا حال کیا ہوتا ہے؟ بلکہ یہ دریافت کیا ہے کہ انکا وطن کونسا ہوتا ہے؟ حالانکہ یہ سوال اور اسکا جواب دونوں ہی سرتاپا سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے دکھائی دیتے ہے اور ممکن ہے کہ پڑھنے والوں کو ہمارے لب و لہجے سے قدرے سنجیدگی ٹپکتی بھی سنائی دے جسمیں ہم ہر ممکنہ طور پر مزاج کی چاشنی گھول کر اسکی تاثیر کو مقدور بھر ہلکا کرنے کی اپنی سی کوشش ضرور کرینگے البتہ ماحول اور حالات کا اثر تھوڑا بہت تو ہر کسی پر ہوتا ہی ہے نا، جی ہاں بالکل ایسے ہی جیسے اکژ فوتگیوں کے موقعہ پر آس پڑوس سے پرُسہ دینے کے لئے آنے والے اہلِ خانہ اور عزیر واقارب سے بھی کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر دہائیاں دے دے کر بین ڈال کر بڑے ہی والہانہ انداز میں آہ وزاری کررہے ہوتے ہیں۔

بحر کیف جن صاحب نےاپنا دست سِوال دراز کیا ہے وہ ہیں ایک شاعر، جی ہاں! اصلی تے وڈے شاعر!اا اور آپ یہ تو بخوبی جانتے ہونگے کہ یہ شاعر حضرات کتنے گہرے ہوا کرتے ہیں اور انسانوں کا یہ طبقہ جتنا زمین سے اوپر دکھائی دیتا ہے، عموماً اس سے کہیں گنا زیارہ زیرِزمین ہوتا ہے، تو ان انتہائی گہرے حضرت نے ہم سے اتھا گہرائیوں والا سوال کر ڈالا ہے، جی ہاں یہ وہی ہیں کہ جن کے ایک عدد انوکھے سوال کے سبب ہمارا جلادوں کی اقسام والا مضمون معرضِ جود میں آیا تھا، ارے صاحب وہی اپنے اسد ضیاء حسن ، بریڈفورڈ، برطانیہ والے۔

اسد صاحب کی شخصیت ہمارے لئے تو قصّہ حاتم طائی کا شہرہ آفاق کردار منیر شامی بنکر سامنے آئی ہے کہ جسکی زبان سے نکلے محض چند سوالوں کے جواب کی تلاش کی خاطر حاتم طائی کو نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھاننا پڑ گئی تھی، خیر اب ہم حاتم طائی تو ہرگز نہیں ہیں البتہ اپنے اسد صاحب کے سوالوں پر ہر بار ہم اپنی سوچوں کے گھوڑوں کو کو بے لگام چھوڑ کر انہیں خیالات کے وسیع و عریض میدانوں میں سر پٹ دوڑنے پر مجبور کردیتے ہیں اور بیچارے سوچوں کے گھوڑے ٹابُک ٹوئیاں مارتے کہیں نہ کہیں تو ضرور پہنچ ہی جاتے ہیں، لیکن وہ جو کسی نے کہا ہے نہ کہ:
مرض کی کیا دوا ہے یہ کوئی بیمار کیا جانے؟

ٹھیک اسی طرح سے ہم ٹھرے مرضِ غریب الوطنی کے دائمی مریض اور وہ بھی درجہ آِخر (لاسٹ اسٹیج) پر فائز کہ جسکا کوئی علاج، کوئی دوا دارو ابھی تک تو ایجاد نہیں ہوسکا بلکہ یہ معاملہ تو اب کچھ یہ نوعیت اختیار گیا ہے کہ:
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

لیکن علامہ اقبال فرما گئے ہیں نا کہ:
تیرا علاج نظر کے سواء کچھ اور نہیں


جبکہ فیض نے کچھ یوں کہا ہے:
تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سواء

لیکن ہمارے دل کو وہ بات بھلی لگتی ہے جو اسد محمد خان نے کہی ہے:
جس پہ نہ بیتی وہ کب جانے
جگ والے آئے سمجھانے

اور ویسے بھی ہمیں نظر اور نشتر دونوں سے ہی ڈر لگتا ہے اور وہ بھی بیگم کی نظر اور انکی نظروں کے نشتروں سے لہٰذا اس بارے میں ہماری اپنی زاتی رائے قدرے مختلیف اور کچھ ایسی ہے:
ہم جیسوں کا علاج صبر کے سواء کچھ اور نہیں

اور ویسے بھی وہ جو ہمارے خاص الخاص چچا غالب کہہ گئے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ جیسے خاص ہمارے ہی بارے میں کہہ گئے ہوں:
غالب ِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجئے ہائے ہائے کیوں

اب بتائیے بھلا جب غالب جیسے نابغہِ روزگار امیرالشعرأ کے بغیر کوئی کام بند نہیں ہوا تو بھلا ہم جیسے بذمِ خود غریب الوطن جسے کو ئی مانتا تو کیا جانتا بھی نہیں کے بغیر وطنِ عزیر میں کون سے کام بند ہیں، خود ہی دیکھ لیں رشوت، کرپشن، اقرباپروری، لوٹ کھسوٹ، قتل، اغوا برائے تاوان، ڈاکہ، چھینا جھپٹی، قبضہ مافیأ، چوربازاری، ملاوٹ، گراں فروشی، زخیرہ اندوزی اور نہ جانے کیا کچھ بنأ کسی روک ٹوک کے نہ صرف جاری و ساری ہیں بلکہ سرکارِوقت کے زیرِسایہ و زیرِنگرانی دن دو گنی اور رات چوگنی ترقی کررہے ہیں اور ہم جیسے غریب الوطنی کے موزی مرض میں مبتلا مریضان ہمہ وقت کسی عاشقِ نامراد کی مانند وطن سے دوری میں مرغِ بسمل کی طرح تڑپتے ہیں، اب ایسے میں بھلا کون کافر یہ سوچتا ہے کہ اس مرغِ بسمل کا وطن کونسا ہے ، وہ کہ جہاں اسکا وجود رہتا ہے یا وہ کہ جہاں اسکا دل اٹکا ہوا ہے۔

مرغِ بسمل پر ہمیں اُس طوطے کی کہانی یاد آگئی کہ جسے اس کے امیر سوداگر مالک نے سونے کے پنجرے میں رکھ چھوڑا تھا اور کھانے کو دیسی گھی کی چُوری اور پینے کو دودھ اور شہد میسر تھا لیکن اس کے باوجود بھی ہر وقت اداس ہی رہتا تھا۔ اسکا مالک جب کبھی بسلسلہِ کاروبار کہیں جاتا تو اس سے اسکی فرمائش دریافت کرتا لیکن وہ کبھی کچھ نہ کہتا۔ ایک روز جسبِ معمول سفر پر روانگی سے قبل سوداگر نے اپنے من پسند طوطے کو بتلایا کہ وہ فلاں جگہ بغرضِ کاروبار جارہا ہے اگر اسکی کوئی فرمائش ہے تو بتا دے۔ طوطے نے اس سے کہا کہ میری فرمائش کسی شئے کی تو نہیں البتہ جس شہر کو آپ نے جانے کا قصد کیا ہے وہ دراصل میرا بچھڑا وطن ہے، اس شہر میں جو ایک سب سے قدیم اور گھنا درخت ہے اسپر میرے سنگی ساتھی رہتے ہیں اور کبھی ہم سب ایک ساتھ کھیلا کودا کرتے تھے، اگر ممکن ہو تو انکو جا کر میرا سلام کہہ دیجئے گا۔ سوداگر نے اپنے پیارے طوطے کی فرمائش کے عین مطابق وہاں جا کر اسکا پیغام اسکے ساتھی طوطوں تک پہنچا دیا۔ سارے طوطے یہ جان کر بے حد دکھی ہوئے کہ انکا پرانا دوست قید میں ہے اور ان میں سے ایک جو کہ سوداگر کے طوطے کا بچپن کا یارِ خاص تھا یہ سنکر اسقدر رنجور ہوا کہ مارے دکھ اور صدمے کے درخت کی شاخ پر ہی اسکا دم نکل گیا اور وہ گر کر زمین پر آرہا۔ بعدازاں سوداگر نے یہ قصہ اپنے طوطے کو کہہ سنایا، جب اس نے یہ سنا کہ اسکے بچپن کا دوست اسکے غم میں ہلاک ہوگیا تو خود اس سے بھی یہ صدمہ برداشت نہ ہوسکا اور لگا پنجرے میں ماہی بے آب کی مانند پھڑکنے اور کچھ ہی دیر میں اسنے بھی تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی ۔ سوداگر نے جب یہ دیکھا تو وہ بہت رنجیدہ ہوا لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، طوطا تو مر چکا تھا، اسنے پنجرے کا دروازہ کھول کر طوطے کو دفن کرنے کی نیت سے باہر نکالا اور لے جا کر جیسے ہی صحن کی زمین پر رکھا وہ اپنے پر پھڑپھراتا ہوا اڑا اور وہاں پر موجود ایک درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ سوداگر نے یہ منظر دیکھا تو طوطے سے کہا: میاں طوطے یہ کیا حرکت ہے، میں نے تمھیں سونے کے پنجرے میں رکھا، کھانے کو دیسی گھی کی چُوری اور پینے کو دودھ اور شہد دئیے اور تم میری عنایتوں کا یہ صلہ دے رہے ہوں۔ طوطا بولا : حضورِ والا، میرا جو ساتھی میرے وطن میں درخت کی شاخ سے گر کے مر گیا تھا وہ دراصل مرا نہ تھا بلکہ وہ اسکا میرے لئے ایک پیغام تھا، اب میں آزاد ہوں اور اپنے وطن کو جاتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ اڑا اور یہ جا اور وہ جا...........!!!

یہ تو خیر طوطا تھا، ویسے یار لوگ جب تک وطن میں ہوتے ہیں تب تک تو یہ ہی وطن کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ: گھر کی مرغی دال برابر، مگر جب گھر چھوٹ جاتا ہے تو پھر اسی گھر کی دال کی محض یاد تک بھی مرغِ مسلم سے بہتر محسوس ہونے لگتی ہے، اسی طرح سے جس وطن کی آب و ہوا کل تک آلودہ و مسموم زدہ لگا کرتی تھی، جسکے میلے کچیلے گلی کوچے ہر وقت منّہ چڑایا کرتے تھے اور بہاریں خزاں کی مانند محسوس ہوا کرتیں تھیں، اب وطن کے چھوٹے ہی گنگا بہن الٹا بہنا شروع کردیتی ہے اور نہ جانے اس مریضِ غریب الوطنی کی آنکھوں کو کونسا جادوئی چشمہ لگ جاتا ہے جو اب اسکو سوکھی ڈالیاں بھی ہری ہری دکھائی دینے لگتیں ہیں، وہی آب و ہوا جسپر وہ ہمیشہ اپنی الرجی کا الزام لگایا کرتا تھا، اب باغِ جنت کی پرُفضاء و صحت بخش ہوا میں بدل گئی ہیں، وہ گلیاں کہ جن سے گزرتے ہوئے وہ اپنی ناک کو دو انگلیوں میں داب لیا کرتا تھا اب اسے اپنی بانہیں پھیلائے اسکی منتظر نظر آتیں ہیں اور نہ جانے کیا کچھ..........!!!

بحرحال ابھی تک بھائی اسد کا سوال کہ کسی غریب الوطن انسان کا اصل وطن کونسا ہوتا ہے، جواب طلب ہی ہے مگر ہمارے خیال میں سوال یہ نہیں کہ اسکا وطن کونسا ہے بلکہ اصل سوال تو ہمارے خیال میں یہ ہے کہ آخر وہ خود کس وطن کا ہے؟ وطنِ اول کا یا کہ وطنِ ثانی کا؟

ہمارے بچپن میں گلی محلوں میں چوکیداری کرنے والے خان صاحب عیدین سے قبل محلے بھر کے دروازے کھٹکھٹا کر ایک بڑا ہی مخصوص سوال کیا کرتے تھے جو کہ یقیناً ہماری طرح سے آپ سب کو بھی یاد ہوگا اور اگر نہیں تو ہم یا دلائے دیتے ہیں: ساب ام اپنے کو وطن جاتی ہے،امارا بخشیش لاؤ(صاحب میں اپنے وطن کو جاتا ہوں،لائیں میری بخشیش دیں)

یہ بات سن کر ہم ہمیشہ سوچا کرتے تھے کہ ہمارے ماسڑ صاحب تو کہا کرتے ہیں کہ پاکستان ہمارا وطن ہے تو یہ کس وطن کو جانے کی بات کرتا ہے اور کراچی پاکستان کی جان اور دل ہے تو کیا یہ اسکا وطن نہیں؟

آج عمرِعزیز کی کم وبیش دس بہاریں دیارِغیر میں بتانے کے بعد اب ان خان صاحب کے اس خُفیہ وطن کی حقیقت ہمارے سامنے آشکار ہوئی ہے۔ آپ نے سُنا تو ہوگا کہ :
دلہن وہی جو پیأ من بھائے تو جناب وطن وہی جو اپنے من کو بھائے

زرا غور توکیجئے! ان خان صاحب کو اپنا دورافتادہ گاؤں، جہاں ہمارے شہر کراچی کی طرح سے نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی دیگر جدید شہری سہولیات، پھر بھی اپنا وطن لگتا تھا اور کراچی جیسا شہر پردیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

شاید وطن سہولتوں کے مجموعوں کا عنوان نہیں ہوا کرتا بلکہ ایک انسان کے ہوش سنبھالنے کے بعد نظر آنے والے ان درودیوار اور ان درودیوار کے ساتھ وابستہ سالہاسال کی جذباتی وابستگی کا نام ہوا کرتا ہے۔

اکثر لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب پاکستان میں آپکے کون کون ہے؟ اور ہمارا مختصر سا جواب یہ ہوا کرتا ہے کہ:
چند دوست اور بیشمار یادیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

علاوہ ازیں ایک بات جو ہم اپنی کم وبیش ایک عشرہ ہر محیط غریب الوطنی کے آنکھوں دیکھے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ اس عرصے کے دوران ہم نے ایسے ایسے تارکینِ وطن کو دیکھا ہے کہ جو وطن کو اور خود وطن ان کو ترک کرکے بے حد شادماں ہیں۔شاید آپ میں سے بہت سے پڑھنے والوں کو ہماری اس بات کا یقین نہ آئے کہ ہم ایسے پاکستانیوں کو بھی جانتے ہیں (جسپر ہمیں شدید افسوس ہے اور ہمیشہ رہیگا)جو کہ اپنا تعارف بطور پاکستانی کروانا باعثِ ندامت محسوس کرتے ہیں اور ان میں سے چند ایک تو اپنے آپ کو بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے امریکی جاننے والوں میں انڈین کہہ کر متعارف کرواتے ہیں۔ ویسے ہم نے لوگوں کو اپنی ذاتیں بدلتے تو ضرور دیکھا تھا اب اپنی مادرِوطن کو چھپاتے اور بدلتے ہوئے بھی دیکھ لیا۔ لیکن صاحب یہ دیار ِ غیر چیز ہی ایسی ہے کہ جہاں پہنچ کر لوگ باگ اپنے خون کے رشتوں کو بھول بھال جاتے ہیں تو ان جذباتی رشتوں کی بھلا وقعت ہی کیا ہے، غالباَ یہ ہی وہ لوگ ہیں کہ جن کو مخاطب کر کے علامہ نے یہ کہا تھا:
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

یا پھر اس قبیل کے لوگوں کا وطیرہ ہی یہ ہوتا ہے بقول ناصر کاظمی:
نیت ِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

اگر کسی طور ہمارے حکمرانوں کے ہتھے الہ دین کا کوئی چراغ لگ جائے تو بلاشک و شبہ وہ ہی کام کرینگے جو اس بدنصیب شکاری نے کیا تھا جسے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی مل گئی اور اس نے سونے کے تمام انڈے ایک ساتھ حاصل کرنے کی لالچ میں اسے زبح کردیا اور نہ تو کوئی سونے کا انڈہ ہی حاصل کرسکا اور مرغی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا اور اس بات کا اندازہ ان کے طرزِ حکمرانی سے بخوبی لگایا جاسکتا کے جن کے زیرِسایہ ہماری عوام کا یہ حال ہوگیا کہ:
چینی چینی کردی ،آپے چینی ہوئی

واضح ہو کہ یہاں مراد کھانے والی چینی سے ہے، چینی قومیت یا شہریت سے ہرگز نہیں، ہاں البتہ ہمارے مظلوم عوام کو چینی کی مالا جپتے جپتے مکمل نہ سہی تو کم از کم عارضی ہی سہی، چینی شہریت ہی حاصل ہو جائے تو ان کے دکھوں کا کسی حد تک مداوا ہی ہوجائیگا اور جب موجودہ حکمرانوں اپنی لوٹ کھسوٹ سے فارغ ہو جائیں تو، ویسے اب انہوں نے کیا فارغ ہونا ہے، غالباً انہیں تو فارغ ہی کیا جائے گا لہٰذا ان کی فراغت ( اللہ ہماری زبان اور آپکے کان مبارک کرے) کے بعد بیشک عوام سے عارضی چینی شہریت واپس لیکر انہیں مستقل کھانے والی چینی دیدیجائے تاوقتکہ انہیں مستقل شوگر کا عارضہ لاحق نہ ہو جائے (اللہ نہ کرے) لیکن اگر ان حکمرانوں کی عقلیں کام کرنا بند کردیں اور وہ اس الہ دین کے چراغ کو ملک و قوم کی ترقی کے لیئے استعمال کرکے پاکستان کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی سے ہمکنار کروا دیں (کم از کم اپنے ہوش و ہواس میں تو یہ ایسا ہرگز نہ کریں گے، کیونکہ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ: چھُٹتی نہیں یہ کافر منّہ کو لگی ہوئی، کیا ردیافت کیا آپ نے؟ کیا منّہ سے لگی ہوئی؟ ارے بھئی حرام کی کمائی اور کیا؟) تو پاکستانیوں کا وہ طبقہ جو پاکستانی کہلواتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتا ہے وہ سب سے پہلے یہ قومی گیت گاتا عازم ِ وطن ہوگا:
میں بھی پاکستان ہوں ، تو بھی پاکستان ہے

قصّہ المختصر ،ہم سب نے اپنی اپنی زندگیوں کے کسی نہ کسی مقام و موڑ پر یہ باتیں صرور سنیں ہوئیں ہیں مثلاٌ :
ہم وطن سے ہیں، وطن ہم سے نہیں

یہ نہ پوچھو کہ وطن نے تم کو کیا دیا؟، یہ سوچو کہ تم نے وطن کو کیا دیا؟

مگر اب فی الحال ان موضوعات پر گفت و شنید کے موڈ میں ہرگز نہیں اور ویسے بھی اس وقت جیسا کہ ہم نے ابتدأ ہی میں عرض کردیا تھاکہ شاید ہم اپنا دامن سنجیدگی بلکہ سچ پوچھئے تو رنجیدگی سے کسی طور پر چھڑانے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے اور من و عن ویسا ہی ہوا اور اب ان اختتامی لمحات میں نہ جانے کہاں سے رہ رہ کر ہمیں فیض کی یہ نظم بے اختیار یاد آرہی ہے حالانکہ ہمارا ارادہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد جیسی دعائیہ کلمات سے اختتام کرنے کا تھا:
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظمِ بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کہ دستِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں بنے ہیں اہلِ ہوس،
مدعی بھی منصف بھی کسے وکیل کریں،
کس سے منصفی چاہیں مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں
بجھا جو روزنِ زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتِ سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ اُن کی رسم نئی ہے، نہ اپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ اُن کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل بُرا نہیں کرتے
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اَوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہدِ وفا استوار رکھتے ہیں
علاجِ گردشِ لیل و نہار رکھتے ہیں
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55169 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.