رسول پاکؐ کا فرمان ہے کہ’’ مسلمان ایک جسدواحد کی طرح ہے ۔ ایک عضو دُکھے
تو پورا بدن درد محسوس کرتا ہے ۔ ‘‘اس حدیث پاک سے ختم الرسلؐ نے دوقومی
نظریے کی بنیاد رکھی ۔ مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں آباد ہوں وہ ایک قوم
اور ایک امت ہیں جبکہ دنیا کی تمام اقوام جو اﷲ کی واحدانیت کی منکرہیں وہ
اپنے مذہب کا کوئی بھی نام رکھ لیں ایک قوم ہیں جسے غیر مسلم کہا جائے گا۔
تاہم کفار منکرین یا غیر مسلموں کے حوالے سے کہ کون کافر ہے اورکون نہیں
بحث میرا موضوع نہیں۔ اس وقت دنیا میں سرحدی حد بندی کے بعد اسلامی ممالک
کی تعداد 56ہے جس میں 39ممالک وہ بھی شامل ہیں جنہیں سعودی حکومت نے اسلامی
اتحادی فوج کے نام پہ اپنے مفادات کیلئے اکٹھا کرنے کی کوشش کی جبکہ
مسلمانوں کی تعداد پونے دو ارب کے لگ بھگ ہے ۔ ایک اﷲ اور ایک رسول کو
ماننے والی امت کے حکمرانوں سے متعلق باب العلم حضرت علی ؓ کیا قول ہے کہ
کسی بھی حکمران کو جب اقتدار ملتا ہے تو وہ اس کی اصلیت کھول دیتا ہے ۔
فلسطین ، کشمیر ، عراق، لیبیا، بوسینیا کے واقعات اس قول کی وہ حقیقی تصویر
ہیں جس کے آئینے میں مسلم حکمرانوں کا مفادات زدہ مسخ چہرہ دیکھا جاسکتا ہے
۔ مغل خاندان کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کی آخری آرام گاہ دینے والا
شہر رنگون سابقہ برما آج کے میانمار کا دار حکومت ہے جہاں امن کا نوبل
انعام پانے والی درندہ صفت ڈائین چڑیل او رکسی سامری کے خیالی نام سے بدتر
بھوت کی بھوتنی حکومت کرتی ہے ۔ زمانہ اس خوفناک وحشیہ کو آن سان سوچی کہتا
ہے جو ایک طویل عرصہ برمی فوج کے زیر حراست رہی ۔ برما کی سرحدیں بھارت
بنگلہ دیش او رچین سے ملتی ہیں اور یہاں گوتم بدھ کے ماننے والے بدھ مت
آباد ہیں ۔ 6لاکھ سے زائدمربع میٹر پر پھیلا یہ ملک بھارت او رچین کیلئے
خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ چین سڑکوں کے ذریعے دنیا کو جوڑ کر اپنی برآمدات
میں اضافہ کرکے سپر پاور بننا چاہتا ہے جبکہ بھارت علاقائی بالادستی کا
خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ ہر اس ملک کا دوست ہے جہاں اﷲ کو ماننے والوں پر
زمین تنگ کی جاتی ہے ۔ اسی لیے جب روہنگیا مسلمانوں کے خون سے ظلم کی نئی
داستان لکھی جارہی ہے تو عین اس موقع پر بھارت کا قصائی درندر موودی سوچی
کے پہلو میں جا بیٹھا او راسے گجرات میں ڈھائے گئے ظلم بتا کر مسلمانوں کو
تباہ کرنے کے نئے طریقے سکھانے لگا۔روہنگیا مسلمان دنیا میں 20لاکھ کی
تعداد میں ہیں جن میں سے 10لاکھ برما میں آباد ہیں او رباقی دیگر ممالک میں
برما میں نافذ کردہ امتیازی قوانین کا جائزہ لیا جائے تو اقوام متحدہ پر
تھوکنے کو جی چاہتاہے اور امریکہ تو اس قابل بھی نہیں کہ اس پر کوئی اہل
ایمان اپنا لعاب ضائع کرے۔ ان قوانین کے مطابق 25سال سے کم عمر لڑکی اور
30سال سے کم عمر لڑکا شادی نہیں کرسکتے ۔ مسلمانوں کو موبائل رکھنے کی
اجازت نہیں ۔ شادی کی سرکاری فیس 750ڈالر ہے جبکہ افزائش نسل کی اجازت نہیں
خاتون ہر دو ماہ بعد میڈیکل چیک اپ کروانے کی پابند ہے اوربچہ پیدا ہونے کی
صور ت میں 150ڈالر جرمانہ کیا جاتا ہے ۔ روہنگیا مسلمان دراصل اس راہداری
میں رکاوٹ ہیں جو چین او ربھارت برما کے ذریعے اپنے مفادات کیلئے بنانا چاہ
رہی ہے اور پاکستان کی بے حسی کی وجہ بھی پاک چین تعلقات ہیں کہ جو برما کے
خلاف کسی بھی کارروائی سے خراب ہوسکتے ہیں ۔ مفادات کی زنجیروں میں جکڑے
مسلم حکمران آگ میں جلتے معصوم بچوں ، آبرو ریز ہوتی خواتین اور سیخ پر
کبابوں کی طرح بھونتے مسلمانوں کے مجرم ہیں ۔ روزقیامت ان مظلوم مسلمانوں
کا مقدمہ رسول پاکؐ اﷲ کی عدالت میں دائر کریں گے اور آل سعود سمیت سب
حکمران مومنین نہیں مجرمین ہوں گے ۔ محض کیمیائی ہتھیاروں کے شک کی بناء پر
امریکہ کا عراق پر حملہ او رصدام حسین کا قتل نائن الیون کے CIAاو ریہودی
لابی کے ڈرامے کے بعد افغانستان پر حملہ شام میں کھلی مداخلت ، لیبیا میں
کرنل قذافی مرحوم سے پنگا، کیا اس بات کے کھلے ثبوت نہیں کہ درحقیقت شیطان
اول امریکہ ہی اصل دہشت گرد اور داعش اور اس سے منسلک گمراہ خوارج اس کے
اور اس کی ناجائزاولاد اسرائیل کے پالتو کتے ہیں جن کے بارے میں واضح
احکامات احادیث مبارکہ میں موجود ہیں کہ ان سے زمین کو پاک کرنا ثوا ب ہے ۔
اگر بے حس اور بے ضمیر OIC عرب لیگ وفات پا چکے ہیں تو پھر انہیں کاغذوں
میں زندہ رکھنے کا کیا فائدہ ؟ اگر اسلامی اتحادی فوج رہنگیا کے مسلمانوں
کا تحفظ نہیں کر سکتی تو پھر جنرل راحیل شریف جیسا مرد حق ایسی فوج کی کمان
کیوں کرے کہ جو عرب بادشاہوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے قائم کی جارہی ے ۔
سعودی عرب کے حکمرانوں اور دیگر بادشاہوں کو شاید اس دن شرم آتی ہو جب ایک
چھوٹے سے ملک مالدیپ نے برما سے تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا جبکہ
اسی طرح ترک صدر طیب اردگان اور ایرانی صدر حسن روحانی کے دو ٹوک اعلانات
سے ایک بارپھر ایران نے اور ترکی نے یہ ثابت کیا کہ وہ امت مسلمہ کے کسی
حصے میں بھی تکلیف کو اپنی تکلیف ہیں قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے
والے عرب ممالک آج بے شرمی کے گڑھے سے باہر آکر برما کے ساتھ سفارتی تعلق
ختم کرنے کا اعلان کیوں نہیں کررہے ۔ 20لاکھ روہنگی مسلمان 56ممالک اگر
چاہیں تو عزت اور وقار سے آباد کرسکتے ہیں ۔ صدر ایوب خان نے برما کے دورے
پہ جب ان مسلمانوں پاکستان میں آباد کرنے کا اعلان کیا تو 2لاکھ افراد ہجرت
کرکے یہاں آگئے۔ روہنگیا مسلم سوسائٹی کے صدر انو رحسین نے بتایا کہ ہم
گزشتہ 50سال سے پاکستان کو اربوں ڈالرز ماہی گیری اور گارمنٹس میں کما کردے
رہیں لیکن کسی روہنگی مہاجر کو مائیگریشن کارڈ یا شناختی کار ڈتک جاری نہیں
کیا جاتاا ورہمیں بیگانوں اور سوتیلوں کی طرح کہاں رہنا پڑرہے جبکہ بہت سی
رہنگی خواتین کلکتہ کے بازاروں میں جسم فروشی او رمنشیات کے دھندے میں
مبتلا کر دی گئی ہیں جس طرح شیخ مجیب کے آقا بھارت نے بنگال کی بیٹیوں کو
کلکتہ میں رسوا کیا آج بنگال کی ڈائین حسینہ کے سوا عوام کی اکثریت 71ء کی
جدوجہد کو تحریک آزادی نہیں تحریک فساد سمجھتی ہے ۔ موجودہ صورتحال کے
تناظر میں جبکہ اسلامی ریاستیں یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ جہاد کا اختیار صرف
ریاست کو ہے چوڑیاں پہن کر بیٹھی ہیں اور کسی ملک نے بھی برما کے خلاف جہاد
کا اعلان نہیں کیا تو ایسے میں پارہ پارہ قلب امت میں سے کوئی اگر ان
مظلوموں کے ساتھ ہونے والے ظلم کے رد عمل میں برما کو بدھوں کا قبرستان
بنادے تو کیا وہ دہشت گرد ہوگا کیا پائلٹ گن سے نوجوان مسلمانوں کو نابینا
کرنے والا بھارت اگر ۔۔۔یا لشکر کے قہر سے لرز اٹھتا ہے تو دہشت گرد کون ہے
بھارت یا آزادی پسند لوگ؟ کیا گولڈن ٹمپل کی بے حرمتی کرنے والے
ہندوستانیوں کو سکھ جواباً خون میں نہلا دیں تو دہشت گرد سکھ ہیں بھارت؟ ان
جیسے بہت سے سوالات کے جوابات ہر ذی شعور کے پا س ہیں مگر مفادات کی عینک
لب کشائی کی اجازت نہیں دیتی ۔ پاکستان کامیڈیا ہمارے اشتہارات کے پیسے پر
پلنے والا وہ بندر ہے جو ہمارا خون پی رہا ہے لیکن برما کے معاملے پر چپ ہے
۔ محمود صادق ، اوریا مقبول جان و چند دیگر کے سوا سب کی زبانیں چپ ہیں ۔
خود کو مسلمانوں کا ترجمان کہنے والا عامر لیاقت اور بابائے دانشور مبشر
لقمان اپنی تمام تر توانائیاں جیو اور نواز شریف پر سرو کررہے ہیں ۔ اداروں
کے مالکان کے کاروباری بغض کو غداری اور حب الوطنی کے ترازو میں تولا جارہا
ہے ۔ یہاں جگہ جگہ پر ڈرائی کلین فیکٹریاں لگی ہیں ۔ ہم کافر کافر کی گلی
سے نکل کر غدا رغدار کی سرنگ میں پھنس گئے او رعضو معطل کی طرح بے چارگی کا
شکار مسلمانوں کیلئے تاحال کچھ نہیں کرسکے اگر اﷲکا دیا اختیار میرے پاس
ہوتا تو میں برما سے سفارتی تعلقات ختم کرکے چین کی پرواہ کئے بغیر سی پیک
کے بجائے اﷲ پر توکل کرتے ہوئے اور امریکہ کو ٹھینگا دکھاتے ہوئے ہم خیال
ممالک کے ساتھ برما پر حملہ کردیتا۔ آن سان سوچی اور اس کے درندہ صفت
فوجیوں سے ایک ایک ظلم کا حساب لیتا ۔ بدھوں کو گوتم بدھ کی وہ تعلیمات
بتاتا جواخوت بھائی چارے اور پیار پر مبنی ہے اور دنیا کو یہ بتاتا کہ جب
قلب امت پارہ پارہ ہوتا ہے تو حسینی ہاتھ حیدری تلواروں سے یزید صفت
حکمرانوں پر اسطرح کا قہر بن کر ٹوٹتی ہیں کہ اﷲاکبر کی صداؤں میں سوچی
جیسی ڈائین اور مودی جیسے قصائی جہنم کے گڑھوں میں دفن ہوجاتے ہیں۔ آج بھی
بدر کے فرشتے صدا اور دعا کے منتظر ہیں آپ سے تو ابابیل کی فوج اچھی ۔ یہ
محض لفاظی یا جذبات نہیں آج بھی کشتیاں جلا کر پیچھے نہ لوٹنے کا عہد کرلیں
تو کوئی مسلمان بھی ثانی ٔطارق بن ضیاد بن سکتا ہے مگر نیٹ پر تصویریں دیکھ
کر ہائے ہائے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ روہنگیا کے مسلمان ڈائریکٹ ایکشن
چاہتے ہیں او راگر خاموشی کایہی عالم رہا تو اﷲ کے ڈائریکٹ ایکشن کیلئے
تیار رہیں ۔ شکر ہے روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں ہم اس چڑیا کی مانند
ہیں جو آتش نمرود میں پانی ڈال کر آگ نہ بُجھانے کے باوجودبھی خوش تھی کہ
جو میرے بس میں تھا میں نے کیا صلہ جانے خُدا جانے ۔
|