سندھ کی دھرتی وہ ہے جہاں سب سے پہلے دین اسلام کی روشنی
برصغیرخطے میں اسی راستے سے داخل ہوئی، ٹھٹہ و دیبل اورکراچی کی بندرگاہوں
کے ذریعے عربی تاجروں کی تجارت اور فروغ تبلیغ کا سلسلہ انہی راستوں سے
جاری ہوا، سندھ برصغیر کا وہ واحد خطہ تھا جہاں سے صوفیائے کرام ،عالم و
فاضل عرب و فارس سے یہاں آئے، یوں تو سندھ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں پر
صرف اور صرف ہندوؤں کی ذاتیں آباد تھیں ، ہندو مزہب میں انتہا کی اقربہ
پروری،اونچے ا ور نیچے طبقے کا رجحان عروج پر تھا، کئی کئی ایسی غیر اخلاقی
اور ظالمانہ روایات تھیں جن سے خاص کر نسوانیات ظلم کی چکی میں پس جاتی
تھیں گویا یوں سمجھ لیجئے کہ عورت ذات بھیڑ بکریوں کی مانند تھیں، ان کا
کام مرد کی غلامی اور بعد موت زندہ دفن ہونا بھی شامل تھا، ہندو ؤں میں
آج بھی کئی مقامات پر وہی رسم و روایات قائم ہیں جو دین اسلام کے آنے کے
بعد بھی یہاں اندھیری روایات تھیں، دین اسلام کے ماننے والوں کے جب قدم اس
خطے میں داخل ہوئے تو ان کے اعمال جو دین نے سیکھائے تھے دیکھ کر دائرہ
اسلام میں شامل ہوتے گئے ، وقت گزرتا گیا کئی مسلم سپہ سالار بھی آئے اور
انھوں نے اس خطے پر اپنی حکومت قائم کیں اُن کے دور حکومت میں اسلام اور
علم کا ایسا چراغ پھیلتا چلاگیا کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی اور
ایک وقت وہ بھی آیا کہ برصغیر میں دو قومی نظریہ کی تحریک نے جنم لیا اور
برطانوی مسلط حکومت کے اختتام پر اس خطے کو دو نظریئے میں منقسم ہونا لازم
و ملزوم بن گیا ،ایک نظریہ مسلم دوسرا ہندو تھا کیونکہ یہ دونوں قومیں جدا
جدا مزہب کے تحت عقیدہ رکھتی تھیں،ایسے موقع پر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے
ایک عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کی رہنمائی اور آپ کی بنائی ہوئی
سیاسی جماعت مسلم لیگ کے پلیٹ فارم کے ذریعے پورے ہندوستان کے مسلمان متحد
ہوگئے اور ایک الگ مسلم ریاست کا مطالبہ کرنے کیلئے تحریک چلائی گئی اسلامی
ریاست پاکستان کے حصول کیلئے، چودہ اگست سن انیس سو چودہ کو بالآخر قائد
اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں کامیابی و کامرانی حاصل ہوئی اور اسلامی
جمہوریہ پاکستان دنیا کے نقشہ پر وارد ہوا جس میں ایک مغربی پاکستان تھا جو
آج پاکستانی کی شکل میں ہے دوسرا مشرقی پاکستان جو آج بنگال کی شکل میں
الگ ملک قائم ہے۔۔۔معزز قارئین!! رسم و روایات انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں
جبکہ احکامات اللہ واحد کے حکم ہیں یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہب میں رسم و
روایات بہت ہیں جبکہ دین محمدی ﷺ میں احکامات ہیں، دین اسلام فطرت قدرتی ہے
جو مکمل حیات انسانی کے اصولوں پر قائم ہے جس میئں امن و سکون ، راحت اور
روحانیت کا عمل پایا جاتا ہےبحرکیف بانی پاکستان وہ شخصیت تھی جو علم کا
سمندراپنے اندر سمیٹے ہوئی تھی، جو قابلیت و اہلیت کی اعلیٰ ترین منزل پر
فائز تھی، جس کی مدابرانہ سوچ اور تحمل مزاجی کمال حد تک پہنچی ہوئی تھی،
شخصیت کا ایسا دبدبہ تھا کہ ان سے گفتگو کرنا کوئی آسان کام نہ تھا،
انگلستان ہو یا بھارت قائد اعظم محمد علی جناح کی وقالت و دلیل کےسامنے
ڈھیر ہوجاتے تھے، ایسے عظیم شخص نے ایسا پاکستان بنایا جس میں علم و فن ،
آزادی (حدود میں رہتے ہوئے)بہم پہچائی کہ ریاست پاکستان میں کی عظیم
ریاستوں میں سر فہرست تھی۔۔۔ معزز قارئین!! سندھ وہ واحد خو ش نصیب صوبہ
تھا جہاں ابتدائی دور میں تعلیم کی روشنی کا اجالا ہر سو پھیلا ہوا تھا ،
دیگر صوبوں کے مکین بھی اسی صوبے کے درسگاہوں سے علم کی پیاس بجھانے چلے
آتے تھے کیونکہ گزشتہ چالیس سال قبل تک اس صوبے میں ہجرت کرکے ایسے ایسے
عظیم شخص آئے تھے جو علم کے سمندر میں موتیوں و جواہرات سے مالا مال تھے
یہ حقیقت تھی کہ دنیا کی بھرپوردولت سے خالی تھے لیکن شرافت، دیانت،
ایمانداری، فرائض منصبی، خلوص ،نیک نیتی کے جذبے کوٹ کوٹ کے بھرے ہوئے
تھےلیکن وہ عظیم شخصیات وقت کے ساتھ ساتھ خالق حقیقی سے جاملتے چلے گئے اُن
میں میرپورخاص شہر کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اور علی گڑھ یونیورسٹی کے
فارغ التحصیل طالبعلم ، ماہر تعلیم جناب سردار حسین صدیقی بھی تھے جنہوں نے
اپنے قائد محمد علی جناح کی زیر تربیت سیاست ، حکمت ،دانائی، سچائی، عدل و
انصاف اور فرائض منصبی کو احسن انداز میں پورا کرکے حق ادا کیا۔۔۔۔۔معزز
قائرین!!یہ تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے وجود میں آنے کے
بعدسب سے زیادہ نا تلافی نقصان جو اس دھرتی کو پہنچا ہے وہ تعلیم اور
تعلیمی ادارے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت سے ہی تعلیم تجارت کی
جانب بڑھنے لگے، تعلیمی اداروں میں من مانیاں، اقربہ پروریاں، نا اہل لوگوں
کو نوازنے کا عمل ، لوٹ مار، رشوت ستانی ، گھوسٹ سسٹم رونما ہوا یہی سلسلہ
شہری حکومت میں ایم کیو ایم نے جاری کیا لیکن صوبے بھر میں با اختیار چالیس
سالوں سے حکومت کرنے والی پی پی پی نے سندھ کے ساتھ انتہائی ظلم و بربریت
کی تمام حدیں پار کردی، آج تک کرپٹ سابقہ و موجودہ وزرا تعلیم، سیکریٹریز
تعلیم، ڈائریکٹر ز تعلیم، ڈی ای اوز اور ایس ڈی ای اوز کے کوئی احتساب نہیں
کیا گیا مسلسل نظر اندازی کی وجہ سے اب تو اسکول و کالج کے ہیڈز بھی کرپشن
میں ملوث نظر آتے ہیں اپنے ماتحتوں سے غیر قانونی امور اس طرح کراتے ہیں
جیسے گویا یہ ان کا حق ہو، کرپشن کی نشاندہی کرنے کے باوجود کوئی مثبت عمل
فی الفور نہیں کیا جاتا یعنی محکمانہ تادیبی کاروائی کرنے سے گریز کیا جاتا
ہے اس کی سب سے بڑی مثال گزشتہ دنوں میں نے کراچی میں پائے جانے والے کرپشن
کے چند کیس پیش کیئے لیکن کوئی مثبت عمل نظر نہیں آیا، اب تو سندھ حکومت
نےکرپشن کا ایک اور سلسلہ شروع کردیا گیا ہےجو بائیو میٹرک کے نام سے ہے،
سندھ سیکریٹریٹ تغلق ہاؤس میں آئی ٹی ڈپارٹمنٹ بنایا گیا ہے جس میں
سرکاری محکمہ تعلیم کے ملازمین کا بائیو میٹرک کیا جاتا ہے اورتصدیق کی
جاتی ہے کہ یہ ملازم درست ہےاور ٹیم اسکولوں کو بھیجی جاتی ہیں کہ وہاں
جاکر حاضری کی کیفیت جان سکیں لیکن کئی ایسے اسکول ہیں جہاں بائیو میٹرک کو
نظر انداز کیا جارہا ہے وہاں کے اساتذہ کرام اپنی مرضی سے آتے ہیں اور
اپنی مرضی سے جاتے ہیں، تحقیق اور مشاہدے سے یہ بھی پتہ چلا کہ کئی سو ایسے
ملازمین ہیں جنھوں نے جعلی سرٹیفکیٹ بناکت پروموشن حٓصل کی ہوئی ہیں اور
حقدار کا حق مارا جارہا ہے میرے اپیل کرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا، ٹائم
اسکیل اور دیگر طریقہ کار کے ذریعے بھی دیکھا گیا ہے کہ تحقیقی و مشاہدہ
میں کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی ہے ، اینٹی کرپشن کے علم میں جب جعل سازی
کا کیس آتا ہے تو وہ لاکھوں رقم بٹورنے کے بعد کلیئرنس کا سرٹیفیکٹ دے رہے
ہیں اس سے بھی کرپشن کو تقویت مل رہی ہے ، دوسری جانب ایک سرکاری ملازم جو
عدل و انصاف کیساتھ اپنے حق کیلئے رجوع کرتا ہے تو اُسے قدم بہ قدم رشوت
دینی لازم ہوتی ہے،ایسے حالات میں کس طرح ایک استاد تعلیم کا حق ادا کرسکتا
ہے، کراچی سمیت پورامحکمہ تعلیم سندھ کرپشن کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے سندھ
کی ترقی و خوشحالی اُسی وقت ممکن ہوسکتی ہے جب تمام تعلیمی اداروں کا
فرداًً فرداً احتساب کیا جائے اور تعلیمی اسناد، پروموشن لیٹرز، کیڈر کی
تبدیلیاں کی تحقیق شفاف اورعدل و انصاف کی بنیاد پر کی جائیں۔۔۔معزز
قارئین!! آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے ذہن کی عکاسی اسی بات پر
لگاسکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے منتخب جیالوں کی خوشی کیلئے گاؤں گاؤں
دیہات دیہات کے بیشتر سرکاری سندھ بھر کے اسکولوں کو کہیں وڈیروں کی بیٹھک
تو کہیں ان کے جانوروں کے باڑے بنادیئے گئے ہیں، پی پی پی کے کسی بھی وزرا
کی اخلاقی جرات نہیں کہ اس بابت آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو اور فریال
تالپور کی توجہ دلاسکیں اور انہیں مشورہ دیں کہ سندھ تعلیم سے پیچھے رہے گا
تو کبھی بھی ترقی و خاشحالی ک جانب ہر گز نہیں بڑھ سکے گا اگر یہی حال رہا
تو ملک کے وفا دار ادارے اس بابت سخت اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔۔۔۔معزز
قارئین!! میرایہ کالم آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی اُس تقریر کی تقویت میں
لکھا رہا ہوں کہ انھوں نے چھ ستمبر کے موقع پر یوم شہدا کی تقریب میں ملک
بھر کے تمام سیاستدانوں، اداروں کو بآور کرایا کہ دہشتگردی کے تمام مشن
اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک کہ ملک بھر کے چپہ چپہ سے کرپشن کا
مکمل خاتمہ ممکن نہ بنایا جائے ، ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ کرپشن کے
سامنے آہنے دیوار بن کر سامنے کھڑا ہوجائے اور متعلقہ ادارے کے اعلیٰ
افسران کو ان کے محکمہ یا ادارے میں ہونے والی کرپشن کو آگاہ کرے اسی طرح
ہم پاکستان کی جڑوں سے کرپشن کا خاتمہ ممکن بناسکیں گے ، جب کرپشن کا خاتمہ
ممکن ہوگا تو ہمارا تعلیمی نظام بھی بہت بہتر ہوجائیگا، امیر و غریب سب
سرکاری انسٹیٹیوٹ کی جانب رخ کریں گے اور نجی تعلیمی ادارے اپنی تجارت سے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اس بابت پاک فوج کو بھی بیک اپ کرنی چاہیئے کیونکہ ایک
عام آدمی کس طرح طاقت ور با اختیار افسر سے کرپشن کی روک تھام کیلئے
مزاحمت کرسکے گا، جب عام شہری کے پس پشت بڑی طاقتیں ساتھ ہونگیں تو انشا
اللہ کرپشن از خود اپنی موت مر جائیگا، اللہ پاکستان اور بلخصوص سندھ
سےمحکمہ تعلیم کے اندر چھپے کرپشن کا خاتمہ کرنے میں ہم سب کی مدد فرمائے
تاکہ ہمارا پاکستان روشن، تابناک اور تترقی یافتہ ممالک کی صف میں بڑھ
سکےاور ہماری خواندگی کی شرح میں کئی گناہ اضافہ ہوسکے آمین ثما
آمین۔۔۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔!! |