نائن الیون کے بعد جس طرح امریکہ نے عجلت میں افغانستان
پر چڑھائی کر کے ساری دنیا کے امن کو تہہ و بالا کر دیا اس سے ناصرف ساری
دنیا کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ خود امریکہ نے بھی اپنے لئے پریشانی
پیدا کر لی ان سارے واقعات کے بعد امریکی معیشت کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کی
معیشت پر برے اثرات مرتب ہوئے ساری دنیا کے ممالک کو اپنی خارجہ پالیسیوں
کا از سر نو جائزہ لینا پڑا دنیا میں ایک دم سے دہشت گردی ،عسکریت پسندی
اور ان جیسے کئی عوامل سامنے آئے ایسے میں اگر ان حالات و واقعات کا باریک
بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے پوری دنیا میں دہشت گردی کی ایسی
فضاء قائم ہوئی جو دہشت گرد گروہ چاہتے تھے اور لگ ایسے رہا ہے کہ اس سارے
کھیل میں امریکی مفادات کو محفوظ بنایا گیا یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کے بعد
دنیا بھر میں دہشت گردی کی ایک ایسی لہر چلی جو آج تک مٹنے کا نام نہیں لے
رہی افغانستان میں ناکامی کے بعد امریکیوں نے اپنی ناکامیوں کا ملبہ
پاکستان پر ڈال دیا یہ شروع دن سے ہی ہوتا چلا آیا کہ ناکامیاں امریکہ اپنے
اتحادیوں پر اور کامیابیاں اپنی جھولی میں ڈال لیتا ہے حالانکہ اس جنگ میں
سب سے زیادہ مالی ، جانی نقصان پاکستان نے اٹھایا ہے اور اس کی معیشت کے
ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں لیکن امریکی بہادر ہماری
قربانیوں کو سراہنے کے بجائے بھارتی زبان میں بات کر رہا ہے اور الٹا چور
کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہمیں ہی اس کی جڑ قرار دے کر انڈیا کو خوش کرنے
کی بھونڈی کوشش میں ہے لیکن عالمی برادری بجا طور پر پاکستان کی قربانیوں
کو دیکھ بھی رہی ہے اور ان کی تائید بھی کر رہی ہے امت مسلمہ کو اگر دیکھا
جائے تو پاکستان اس وقت لیڈنگ رول میں ہے تمام امت مسلمہ میں پاکستان وہ
واحد ملک ہے جو ایٹمی دولت سے مالا مال ہے شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام
اسلامی ممالک پاکستان کے ایٹم بم کو مسلم بم کہتے ہیں ۔امریکی ناکامیوں کے
پیچھے بہت سے دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ امریکہ کی دوہری پالیسی بھی ہے وہ
افغانستان میں گڈ اور بیڈ دو اسطلاح میں کام کرتاہے اگر کوئی اس کے فائدے
کے لئے ہے تو وہ گڈ اور اگر اس کے نقصان میں ہے تو وہ بیڈ اس گڈ اور بیڈ
میں وہ اپنا بہت بڑا نقصان کر چکا ہے اور اسی نقصان کے ازالے کے لئے وہ
الزام پاکستان کے سر تھونپ کر خود اس گیم سے نکلنے کی کوشش میں ہے ۔امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا اعلان کیا ہے اگر اس
پالیسی کا حقیقی تجزیہ کیا جائے تو یہ افغانستان سے معدنیات کی لوٹ کھسوٹ
خطے کی محاذ آرائی میں اضافے اور بھارت کو علاقے میں اس کے جارحانہ رویوں
میں شہ دینے کے مترادف ہے پاکستان کے لئے اس میں کوئی چونکا دینے والی بات
نہیں ہے کیونکہ اس میں امریکہ کی طرف سے ان بے بنیاد الزامات کا اعادہ کیا
گیا ہے کہ وہ مخصوص دہشتگردوں کو تحفظ فراہم کررہا ہے اور اب امریکہ اس
صورتحال پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا دہشتگرد ہمارے خلاف ایٹمی ہتھیار
استعمال کرسکتے ہیں چنانچہ ہم افغانستان میں غیر معینہ مدت تک موجود رہیں
گے وہاں موجود فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اور کارروائیوں میں شدت لائی جائے
گی مذکورہ پالیسی میں صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ بھارت سے شراکت داری مضبوط
بنائیں گے صدر ٹرمپ کی طرف سے افغان پالیسی کے اعلان اور پاکستان پر بے
بنیاد الزامات کے تناظر میں چین نے سخت موقف اختیار کیا ہے اور امریکی موقف
کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے دہشگردی کے خاتمے کیلئے بہت
قربانیاں دی ہیں عالمی برادری دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی کوششوں
کو تسلیم کرے جبکہ روس نے کہا ہے کہ ٹرمپ کی نئی حکمت عملی سے افغانستان
میں کوئی نئی معنی خیز مثبت تبدیلی نہیں ہوگی۔ساری دنیاجانتی ہے کہ پاکستان
نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مالی اور جانی قربانیاں دی ہیں یہ پہلا موقع
نہیں ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان پر الزامات عائد کئے گئے ہیں سابق صدر
اوبامہ کے دور میں بھی ایسے ہیں الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں دراصل
امریکی خفیہ ایجنسیوں اور وزارت دفاع نے افغانستان میں اپنی ناکامی کو
چھپانے کیلئے یہ طریقہ تلاش کیا ہے پاکستان پر بے بنیاد الزام عائد کرکے
اپنے اوپر پڑنے والا عوامی پریشر کم کرنا چاہ رہی ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
جس طرح پاکستان نے شمالی وزیر ستان سمیت اپنے تمام قبائلی علاقوں میں
آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے ذریعے دہشگردوں کے انفراسٹرکچر اور
ان کے مضبوط ٹھکانوں کا خاتمہ کیا ہے افغانستان میں امریکہ ، نیٹو یا افغان
حکومت اس نوعیت کی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں جو امریکہ کی بڑی ناکامی ہے
امریکی پالیسی کے بعد یہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ امریکی بلیک میلنگ اور مخصوص
ہتھکنڈوں سے محفوظ رہنے کیلئے دوست اور حلیف ممالک کو اعتماد میں لیا جائے
اگرچہ چین نے کھل کر پاکستان کے بارے میں امریکی موقف کی نفی کی ہے تاہم
روس، ایران ، وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت دیگر دونوں کے ساتھ مشاورت میں
تاخیر نہیں ہونی چاہیے تاکہ امریکہ کو اس کی زبان میں جواب دیا جائے اور اس
کو بتایا جائے کہ جنگ وہ ہار اہے پاکستان نہیں اور اس کی جنگ میں جو نقصان
پاکستان کا ہوا ہے وہ شاید امریکہ کا اپنا بھی نہیں ہوا امریکی پالیسی سے
یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ وہ اپنی ساری ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر
خود جان خلاصی کرانا چاہتا ہے - |