چلیں..! ایک لمبے عرصے بعد اپنے اندر ہی سے کسی میں یہ
ہمت پیدا ہو ئی اور وہ آگے بڑھ کر دنیا کی طرف سے مسلسل دِکھا ئے جا نے
والے (ایسے ویسے جیسے بھی )آئینے کو تسلیم کرتے ہوئے تبتے صحرا میں اُمید
کی روشن کرن بن کر اُبھرا ہے یہ محب وطن شخص دنیا کے بتا ئے جا نے والے
خدشات کو مصلحتاََ ہی سہی مگر اَبھی تک اپنی بات پر قا ئم ہے اور وہ عظیم
شخص وفاقی وزیرخارجہ خوا جہ آصف ہیں جو اندر او باہر سے انگنت ہونے والی
اچھی بُری تنقیدوں کے باوجود اپنا گھر ٹھیک کرنے کے بیان پر قا ئم ہیں ،اور
یہ اِس پر قا ئم کیو ں نہ ہوں؟کیو نکہ خواجہ آصف یہ با ت اچھی طرح جا نتے
ہیں کہ ایک لمحے کو دوسروں کے خاطر ہی اُن کی بات ما ن لی جا ئے اور اپنا
گھر بھی ٹھیک کرلینے میں کیا حرج ہے؟وہ یہ بھی جا نتے ہیں اور سمجھتے ہیں
کہ اپنے گھر میں ایسا ویسا کچھ ہوتا ہے ؟ تو سا منے والا تب ہی انگلیاں
اُٹھاتا ہے اور جب مسلسل اِس کی انگلیاں نظر انداز کی جا ئیں تو پھر
مدِمقابل اپنی اُنگلیاں اُٹھا تے اُٹھا تے کبھی اپنا ہا تھ اُٹھا نے کی بھی
ہمت کر بیٹھتا ہے اِس لئے خوا جہ آصف یہ سمجھتے ہیں کہ قبل اِس کے کہ سا
منے والے کی ہم پر ہا تھ اُٹھا نے کی ہمت پیدا ہو،ہمیں اپنا گھر سب سے پہلے
ٹھیک کرلینا بہتر ہوگا اور اَب یقینا وہ وقت آگیا ہے کہ ہر صُورت میں ہمیں
اور ہمارے سِول اور عسکری اداروں اور عوام کو بھی با ہم متحد و منظم ہو کر
ایک پیچ پر آتے ہوئے اپنا گھر ضرور ٹھیک کرنا ہوگا ور نہ؟ ہم نہ اِدھر کے
ہو ں گے اور نہ اُدھر کے۔
بہر حا ل ،کیا پاکستان برکس اعلامیہ کا ٹھیک طرح ازالہ کرنے کی پوزیشن میں
ہے؟؟ یا اِسے ابھی برکس اعلامیہ پر گول گھوما کر باتیں کرنے کی ضرورت باقی
ہے؟جبکہ اَب وقت آگیاہے کہ ہمیں ہر حال میں صاف گوئی کا راستہ اپناتے ہوئے
اپنی پوزیشن دنیا کے سامنے لازمی رکھنی ہوگی ہم ورنہ بہت سے دیکھی اَن
دیکھی مشکلات اور پریشانیوں کا شکارہوتے چلے جا ئیں گے،وفاقی وزیرخارجہ
اپنے گھر (پاکستان ) کی اپوزیشن دنیا کے سا منے واضح کرنے کے لئے دوست مما
لک سے مسلسل را بطے میں ہیں اور پوری کو شش میں ہیں کہ پاکستان کی بہت سے
حوالوں سے دنیا کے نزدیک پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازا لہ کر نے کے لئے
متحرک ہیں اور اُمید ہے کہ اِن کی ظاہر اور باطن کاوش کے اچھے نتا ئج اخذ
ہوں گے۔
تاہم کیا اَب یہ دِن اور یہ وقت بھی آناباقی تھاکہ ہما رے دوست بھی ہمیں یہ
کہنے لگیں گے کہ خود کوسُدھارو؟،یہ وہ لمحہ ہے کہ جب ہمیں خود یہ سوچناہوگا
کہ ہم نے ایسا کیا اپنے دوستوں سے چھپایاکہ وہ بھی ہندوستانی اور امریکی
بہکا وے میں آکر ہمیں کہیں کہ ہم اِن کے مطالبے پر فوری عمل کریں تو ہم پر
اِن سب ہوں کا اعتماد اور اعتباربحال ہوگا ورنہ؟شاید اَب اِن کے اورہمارے
درمیان اعتماد اور اعتبار کا جو رشتہ قا ئم رہاتھااِس میں شک و شبہ کی گنجا
ئش کی باریک لکیر ضرور پیدا ہوجا ئے گی لہذااَب اِس منظر اور پس میں یہ
امریقینا ہما رے لئے قابل غور اور حل طلب موڑپر پہنچ کرضرور خصوصی اہمیت کا
حامل ہے کہ ہمیں فوری طور پر اپنے بالخصوص دوست ممالک چین اور روس کا
اعتماد اور اعتبار بحال کرنے کے خاطر اپنی اصل حقیقت بیان کرنی ہی پڑے گی
اور برکس اعلامیہ پر گول گھوما کر باتیں کرنے کی بجا ئے کم ازکم اپنے نئے
پرا نے دوستوں چین اور روس کے سا منے سب کچھ سچ و حق کھول کر رکھ دینا ہی
ہمارے حق میں بہتر ہوگا ورنہ ؟ آج اگر ہم نے ابھی اپنی اصل حقیقت اور ئیل
پوزیشن واضح نہ کی تو پھر ہم اپنے پرا نے دوست چین اور نئے قریب آتے قربت
بڑھا تے دوست روس کا اعتماد کھوکر اپنے دواچھے اور پکے دوستوں ، ہمدردوں
اور حامیوں سے محروم ہوکر نہ صرف خطے میں بلکہ عالمی اور بین الاقوامی سطح
پر بھی تنہا رہ جا ئیں گے ۔
گزشتہ دِنوں بیجنگ میں ہونے والی نویں برکس کانفرنس جس میں پانچ ممالک
برازیل،روس،ہندوستان،چین اور جنوبی افریقہ کے سربراہان شامل تھے جنہوں نے
اختتامِ کانفرنس جو اعلامیہ جا ری کیا اِس میں واضح اور دوٹوک انداز اپناتے
ہوتے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے اِنہوں نے جان بوجھ کر افغانستان کو ایک طرف
رکھ کر صرف پاکستان میں پا ئی جا نے والی دہشتگرد تنظیموں کا کھلا تذکرہ
کیا ہے برکس نے پہلی مرتبہ اپنے اعلامیے میں پاکستان میں پا ئی جا نے والی
دہشتگرد تنظیموں کے خلاف اتفاق کرتے ہوئے طالبان لشکر طیبہ، جیش محمد، داعش
اور حقا نی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان پر دباؤ بڑھا تے ہوئے سخت کارروا ئی کا
مطالبہ کیا ہے‘‘ نہ صرف یہ بلکہ برکس کانفرنس میں شامل پا نچ ممالک میں سے
دوایسے ممالک( چین اور روس ) کی جا نب سے بھی پہلی مرتبہ پاکستان سے یہ
مطالبہ کیا گیاہے کہ پاکستان دہشتگرد تنظیموں کے خلاف کارروا ئی کرے بلکہ
دوسروں کی طرح اِن ممالک کے سربراہان کا بھی کسی کا نام لئے بغیر کہنا ہے
کہ’’دہشتگرد کارروائیوں کا ارتکاب ، انتظام یا مدد کرنے کے ذمہ داروں کو
انصاف کے کٹہرے میں بھی لایا جائے،عالمی انسداددہشتگردی اتحادقا ئم اور
جدوجہد بین الاقوامی قانون کے مطا بق کی جائے،‘ـ‘ ہا ں البتہ، افغانستان
میں فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت کے تحت حل نکالنے پر غورتوکیا گیامگر
افغانستان سے اپنے یہاں موجود دہشت گرد تنظیموں تحریک طالبان اور داعش کا
قلع قمع کرنے کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیاہے ، جبکہ اپنے مدمقابل آتے شمالی
کوریا کے جوہری میزائل تجربے کی ضرورمذمت کرتے ہوئے شمالی کوریاکے جوہری
مسئلے کو پُرامن مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے پر زور تو دیاگیامگر بڑے افسوس
کی بات یہ ہے کہ برکس کانفرنس میں عید الاضحی پر میانمار، روہنگیاکے
مسلمانوں کے قتل ِ عام اور مسلمانوں کی نسل کشی اور26سوگھرنذرآتش کئے جا نے
والے مظالم کی انتہاہوتے صدی کے المناک واقعات پر کسی ایک نے بھی میانمار ،
روہنگیاکے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار رکرتے ہوئے مذمت کا ایک
لفظ بھی نہیں کہا یہ برکس کانفرنس کا سب سے زیادہ بے رحمانہ نقطہ ہے جس کی
دنیا کی باشعور اِنسا نیت ہر سطح پر مذمت کرتی ہے اور تا قیامت کرتی رہے گی
جبکہ دنیا کی انسا نیت اِس پر بھی ضرور حیران اور شسسدر ہے کہ برکس کانفرنس
میں ہندوستان اور امریکی دباؤ میں آئے پانچ ممالک کے سربراہان نے افغانستان
میں پلنے والی طالبان اور داعش جیسی شیطان صفت دہشت گرد تنظیموں کا ملبہ
پاکستان کے سر ماردیا ہے اور کہا ہے کہ اِن خطرناک ترین شیطان کی ماں دہشت
گرد تنظیموں کے ڈانڈے پاکستان سے ہی ملتے ہیں حالانکہ پاکستان عالمی سطح پر
کئی مرتبہ ہزاروں مرتبہ واضح کرچکا ہے کہ پاکستان میں ایسی دہشت گرد
تنظیموں کا کوئی وجود نہیں جن کا اکثر عالمی برادری تذکرہ کرتی ہے کیو نکہ
پاکستان پہلے ہی عالمی دہشت گردی کا شکار ہے جو سرحد پار افغانستان اور
ہندوستا ن سے ہوتی ہے،اِن ہی دہشت گرد تنظیموں کا پاکستان کئی برسوں سے
مقابلہ کررہاہے اور بڑی حد تک پاکستان کو اِس میں کامیابیاں بھی مل رہی ہیں
اور اَب ایسے میں جبکہ امریکا و ہندوستان اور دیگر ممالک کے بعد چین اور
روس کی جا نب سے بھی پاکستان سے یہ کہنا کہ پاکستان دہشتگرد تنظیموں کا
اپنے یہاں سے خاتمہ کرے تو ایسا ہی ہے جیسے کہ ابھی تک پاکستان کی دہشت
گردی کے خلاف لڑی جا نے والی جنگ میں پاکستان کے قول فعل اور کردار پر شک
کیا جارہاہے جبکہ پاکستان روزِ اول ہی سے عالمی دہشت گردی کے خلاف اپنا
کرداد صاف و شفاف طریقے سے فرنٹ لا ئن پر رہ کراپناکردار ادابھی کررہاہے
مگر پھر بھی برکس کا نفرنس کے جاری اعلامیے میں پاکستان کو ہی دہشت گرد
نتظیموں کو پناہ دینے کا الزام لگا نا،پاکستان کے عالمی سطح پر اُبھرتے
ہوئے گُڈ مورال کو ہندوستان اور امریکا کے کہنے پر سپوتاژ کرنے کے مترادف
ہے بہرکیف، اِس صورتِ حال میں ہمیں یہ بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی کہ
ہندوستان اپنے مقصد میں ضرورکامیاب ہوگیاہے اور ہم خوش فہمیوں میں مبتلارہے
کہ کوئی ہماراکچھ نہیں بگاڑ سکتاہے کیو نکہ ہندوستان کی کوئی نہیں سُنتا ہے
مگر آج جب ہندوستان بیجنگ میں برکس اجلاس میں شامل ہوکر اپنے درست یا غلط
موقف کی ہمارے دوستوں چین اور روس سے تا ئید کرانے میں کامیاب ہوگیاہے تو
کیا پھر ایسے میں ہمیں اپنامحاسبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم سے یقینا
کہیں نہ کہیں ایسی غلطیاں ضرور سرزد ہورہی ہیں جن کا فائدہ ہندوستان
اُٹھارہاہے اور ہمارے دوستوں کو اپنا ہم خیال بنا کرہمیں نیچا دِکھا رہاہے۔
آج ہندوستا ن کی ہم پر کئے جا نے والے منفی پروپیگنڈو ں کی وجہ سے امریکا
سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی بھی اپنے گھر پاکستان پر ہونے والی اچھی بُری
تنقیدوں کے تنا ظر میں اگر وفا قی ویزر خوا جہ آصف اپنا گھر ٹھیک کرنے کی
بات پر قا ئم ہیں اور یہ اِسے ہر طرح کی دہشت گردی سے پاک ریاست بنا کر
درست راہ پر گا مژن کر نے کے عزم کا علم بلند کئے حقیقی معنوں میں کچھ بہتر
کرنے کا خوا ب لئے متحرک ہیں توپھرہر حال میں ہم سب کو اِن کا ساتھ دینا چا
ہئے تا کہ دنیا کے سا منے ہمارا ایک مثبت اوراچھا میسج جا ئے کیو نکہ ہما
رے لئے موجودہ منظر اور پس منظر میں اِس سے کچھ اچھا ہونا ممکن ہی نہیں
ہوسکتا ہے۔ |