جذباتی لوگوں کیلئے چھوٹی چھوٹی باتیں بہت اہمیت رکھتی
ہیں، اگر وہ بات خوشی کی ہو تو اس کی اہمیت دوگنا ہوجاتی ہے۔ ان باتوں سے
خوشیاں ناصرف ہمارے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر جاتی ہیں بلکہ ایک روحانی تسکین
بھی میسر آتی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے صدر نے پاکستان کو لگی لپٹی دھمکی
دی جو ہم پاکستانیوں کیلئے انتہائی دکھ کی بات تھی اور اس دکھ سے غم و غصے
نے جنم لیا ۔ اس دھمکی کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ
گاہیں ختم نہیں کر رہا جس کیلئے اور کاروائیاں کی جائیں ۔اس دھمکی آمیز
بیان نے جہاں پاکستان میں غم و غصے کی فضاء قائم کی تو دوسری طرف دنیا کہ
دوسرے ممالک نے بھی امریکی صدر کے بیان پربھرپور مذمت کی۔ یوں تو ڈونلڈ
ٹرمپ اپنے ملک میں اہم نہیں ہیں تو پھر دنیا کو ان کے بیانات سے کیسی
پریشانی ۔اس بیان سے امریکی صدر نے ذاتی نوعیت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی
جسے پاکستان میں سستی شہرت کہا جاتا ہے۔ ایسی شہرت یا مقبولیت کا مقصد
سوائے خبروں اور سماجی میڈیا کی رونق بننے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ
بھی ممکن ہے کہ امریکی انتظامیہ کو اپنے صدر کے ایسے بیان پر خفت کا بھی
سامنا کرنا پڑا ہو مگر اپنی جھوٹی انا کی بقاء کی خاطر کچھ بھی کہنے سے
قاصر رہے ہونگے۔ قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے ۔
گوکہ پاکستان ہر فورم پر یہ بات بہت واضح کرتا چلا آرہا ہے کہ پاکستان کی
قربانیاں کسی بھی دہشت گردی سے لڑائی میں ملوث ملکوں میں سب سے زیادہ ہیں
اور دنیا کے کئی ممالک نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ
پاکستان مذکورہ بالا امور پر ابتک اپنی خارجہ پالیسی واضح نہیں کر سکا ہے
جبکہ گزشتہ دو دہائیوں سے ہم دہشت گردی کی جنگ میں امریکی اتحاد کے سب فعل
رکن رہے ہیں جس کا خمیازہ ابتک لگ بھگ ۷۵ ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کر کے
بھگت چکے ہیں دوسری طرف مال و اسباب کے نقصانات کا جائزہ لگانا کسی حد تک
مشکل ہے دوسری طرف پاکستانی قوم یعنی ہماری نئی نسل کی ذہنی نشونما اس دہشت
گردی کی نظر ہوکر رہ گئی ہے۔ یہ جنگ پاکستان اور پاکستانیوں کو کھوکھلا کئے
جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔ جس کا منہ بولتا ثبوت کراچی
میں انصار الشریعہ نامی ایک تنظیم سے وابستہ انتہائی پڑھے لکھے نوجوانوں کی
وابستگی ہے۔ تاریخ گواہی دے گی کے پاکستان جیسے ملک نے اس دہشت گردی کی جنگ
وہ کردار ادا کیا ہے جو امریکہ خود ادا نہیں کرسکا۔
امریکی صدر کے دھمکی آموز بیان کی سب سے بڑی وجہ ہماری خارجہ پالیسیوں کی
کمزوری اور ناکامی ہے۔ میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے بعد سیاسی افق
پر ایک نئے دور کے آغاز کی توقع نہیں کی جارہی تھی لوگ مختلف نامور اور
میاں صاحب کے خاص لوگوں کو بطور وزیر اعظم بنائے بیٹھے تھے لیکن محترم شاہد
خاقان عباسی کا نام سامنے آتے ہی ایک عجیب سی سہمی سہمی سی فضاء ماحول پر
چھاتی محسوس ہونے لگی۔ شاہد خاقان عباسی صاحب نے اپنی کابینہ تشکیل دی اور
اس بات سے قطعی نظر کہ وہ کتنے دنوں کیلئے وزیر اعظم بنے ہیں کام پر دھیان
دینا شروع کردیا ۔ اب غور کرنے سے پتہ چل رہا ہے کہ وہ کسی ٹیکنو کریٹ کی
قسم کے سیاست دان ہیں جو اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت کر رہے ہیں جو
صوبوں کے دورے بھی کر رہے ہیں جو اندرونی خلفشار کے ساتھ ساتھ بیرونی زبانی
حملہ آوروں سے نمٹنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی صاحب سے
اپنی ہر تقریر میں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ اپنے قائد میاں نواز شریف
کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں جو کہ قطعی غلط ہے کیونکہ میاں صاحب تو سوائے
اپنے خلاف دائر کیسوں سے نمٹنے کی کوششوں میں ہی چار سال گزار کر پاکستان
کی معیشت کو دھجکے پر دھجکا دیتے چلے گئے ہیں۔
امریکی صدر کے دھمکی آمیز بیان پر پاکستان کا دفترِ خارجہ کوئی خاطر خواہ
جواب نہیں دے سکا ۔کچھ دنوں کے بعد ہمارے کچھ وقتی وزیرِ اعظم نے امریکی
صدر کو للکارا اوربتایا کہ اگر آپ نے کچھ ایسا ویسا کرنے کی کوشش کی تو
نقصان بھی آپ کا ہی ہوگا وزیر اعظم صاحب کے اس بیان سے امریکی صدر ہی نہیں
بلکہ پینٹاگون کو بھی دن میں تارے دیکھا دئیے ہونگے۔ امریکہ کو اب یہ سمجھ
لینا چاہئے کہ پاکستان ہی وہ ملک ہے جو بیک وقت کئی محاذوں پر باقاعدہ بر
سر پیکار ہے یہ محاذ صرف اپنی سرحدوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ داخلی محاذ
زیادہ خطرناک نوعیت کے ہیں۔ پاکستان ایک بہادر قوم ہے جو لفظی وار تو ایسے
ہی جھیل جاتی ہے۔ بھارت کی بلا اشتعال گولہ باری کی وجہ سے ابتک کتنے ہی
معصوم لوگ شہادت نوش فرما چکے ہیں مگر سرحدی علاقوں میں مقیم لوگ اپنے گھر
خالی کرنے کو تیار نہیں ہیں ، کسی بھی حفاظتی حصار کے متمنی نہیں ہیں یہ ہے
پاکستان کی عوام کا جزبہ اور حوصلہ جو اپنے وطن کی خاک پر مر مٹنے کیلئے ہر
وقت تیا رہے ۔
فی الحال پاکستان کیلئے اچھی بات یہ ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کچھ پیشہ ورانہ
کردار ادا کرتے دیکھائی دے رہے ہیں جبکہ تاثر یہ قائم کیا جا رہا تھا کہ یہ
ایک ڈمی وزیر اعظم ہونگے اور انگلیوں پر نچانے والے انہیں نچائنگے لیکن کچھ
مختلف صورتحال دیکھائی دے رہی ہے۔اللہ کرے ہمارا ملک اس موروثی سیاست کے
چنگل سے نکل جائے اور شاہد خاقان عباسی صاحب جیسے لوگوں کو اپنے ملک کیلئے
کچھ کرنے کا موقع مل سکے اور اپنی عوام کے ووٹوں کا صحیح حق ادا کر سکیں۔
محترم عباسی صاحب کا مزاج کچھ کچھ قومی مزاج سے شناسا لگتا ہے شائد وہ
جانتے ہیں کہ قوم چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش بھی ہوتی ہے اور اپنی خوشی کا
اظہار بھی کرتی ہے۔ ایسے ہی لوگ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں
اوردنیا کو اس کی اہمیت سے روشناس کرا سکتے ہیں۔ |