اتفاق کی بات تھی کہ اک موچی کی برات میں سب عاشق اکٹھے
ہو گئے تھے،،،مجنوں۔۔فرہاد،،
اور رانجھا سب اک چھت کے نیچے جمع تھے،،،ماہیوال اور مرزا شہر سے باہر
تھے،،،جبکہ رومیو کو
پنجاب کا ویزا نہیں ملا تھا،،،
تینوں ایسے حلیے اور حالت میں تھے،،،جیسے وہ شادی میں نہیں بلکہ موچی کے
چالیسویں
میں آئے ہوئے ہوں،،،مجنوں پوئٹری بھول چکا تھا،،،رانجھے کو اپنی بانسری کا
اتا پتا یاد نہ تھا،،،
فرہاداس کھدال کو کوس رہا تھا جس سے اس نے دودھ کی نہر بہائی تھی،،،اسے
پورا یقین تھاکہ
شیریں کے شہر یا کسی عاشق کی سازش تھی،،،جس نے اس پر بہت سی بھینسیں کھڑی
کروا
رکھی تھی،،،اور انجکشن لگا لگا کر دودھ کی نہر بہا دی گئی تھی،،،
فرہاد روزانہ مالش کروا کروا کر تھک چکا تھا،،،مگر جسم کا درد کم ہو کر
نہیں دے رہا تھا،،،
اب اس کا خیال تھا کہ وہ کراچی جا کر آغا خان ہسپٹل میں کسی آرتھو پیڈک سے
کنٹیکٹ کرے
تینوں حسرت و یاس کی تصویریں بنے ہوئے تھے،،،کچھ سوجھائی نہیں دے رہا
تھا،،،
بار بار تینوں کے سیل فونز پر ان کی کامیاب محبتیں مس پر مس کال دے رہی
تھی،،،تینوں کے
آنسو تھم کر نہیں دیتے تھے،،،بھوک پیاس اڑ چکی تھی،،،آنکھوں کے گرد حلقے پڑ
چکے تھے،،،
جسموں پر ایسے نشانات تھے،،،جیسے پنجاب پولیس نے چھترول کی ہو،،،بحریہ کے
دسترخوان
سے کھانا کھا کھا کر وہ عاشق کم،،،مفتے ذیادہ لگ رہے تھے،،،
تینوں عاشق اس وقت کو یاد کر کر کے ایک دوسرے کے گلے لگتے،،،اور روتے جاتے
تھے
جب وہ پورا دن تیار ہوکر خوشبو لگا کر،،،تیل سے بال سر پر جما کر ،،،گھر
سےباہر نکلا کرتے تھے،،،
زمین۔موسم۔گالی۔ڈنڈا۔چھتر۔طعنہ ہر چیز ان کو اچھی لگا کرتی تھی،،،
اور آج یہ دن کہ منہ دھوئے ہوئے عرصہ ہو گیا تھا،،،اب تو مکھیاں بھی ان
کےمنہ پر بیٹھنا
پسند نہیں کرتی تھیں،،،مجنوں ہر مس بیل پر تڑپ کر دیکھتا تھا کہ یہ لیلی کی
نہ ہو،،،
یہی حال باقی دو کا بھی تھا،،،تینوں بارات میں برتن۔کپڑوں اور سبزیوں کی
باتیں کر رہے تھے،،،
اس بے عزتی کا ذکر کر چکے تھے جو روزانہ کامعمول اوران کا مقدر بن چکی
تھی،،،
کچھ سوجھائی نہیں دیتا ،،،کیا کرےگا اب تو مجنوں بیٹا،،،دل لگا بھی لیا
پرکیوں شادی کربیٹھا،،،
کیا کرے گا اب مجنوں بیٹا۔۔۔۔۔
|