سالا مولوی ہی ذمے دار ہے

علامہ اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا نا کہ افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج مُلا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو ۔ سارے مولوی جو ہیں نا یہ بس اپنے حلوے مانڈے میں لگے رہتے ہیں۔ مولویوں کو چاہیے کہ اپنے جمعے کے خطبے میں لوگوں کو گندگی، جگہ جگہ کچرے پھینکنے کے حوالے سے آگاہی دیں، لوگ راستے کو خراب کرتے ہیں، تجاوزات قائم کرتے ہیں، تو مولوی کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اس حوالے سے سمجھائیں۔

ان تصاویر کو غور سے دیکھیے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بر سر اقتدار رہنے والے ان افراد میں سے کتنے افراد مولوی ہیں؟ کتنوں کا تعلق کسی مذہبی یا دینی جماعت ہے؟ جب حکمران یہ رہے تو پھر پاکستان کے ہر مسئلے کا ذمے دار دینی طبقہ یا مولوی کو کیوں کہا جاتا ہے؟

یہ سالا مولوی جو ہے سارے فساد کی جڑ یہی ہے، علامہ اقبال نے بھی تو یہی کہا تھا نا کہ
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج
مُلا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو

البتہ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ یہ بات انہوں نے ابلیس کی زبان سے کہی تھی، ان کا اپنا خیال نہیں تھا۔ لیکن مولوی اور دینی طبقہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کردار ہےجو ہر ایک کے نشانے پر ہے بالخصوص دین بیزار طبقہ تو پاکستان کے ہر مسئلے کی ذمے داری مولوی ( دینی طبقے)پر ڈالنا فرض سمجھتا ہے۔ مولوی اگر کچھ نہ کرے تو بھی نشانہ بنتا ہے اور اگر کچھ کرے تو زیادہ نشانہ بنتا ہے۔جی ہاں بات یہی ہے۔
معاشرے میں نوجوان نسل کے بگاڑ کی بات ہو تو کہا جاتا ہے کہ ’’ بھئی یہ تو مولویوں کا کام ہے نا کہ وہ لوگوں کی رہنمائی کریں۔‘‘ شہری شعورCivic sense کی جائے، اگر یہ کہا جائے کہ لوگوں میں ٹریفک کے مسائل کا شعور نہیں ہے، لوگ سگنل توڑتے ہیں، غلط انداز میں گاڑیاں چلاتے ہیں، تو اس میں ساری باتوں کے بعد تان اسی بات پر ٹوٹے گی کہ ’’ یار یہ سارے مولوی جو ہیں نا یہ بس اپنے حلوے مانڈے میں لگے رہتے ہیں، یہ ان کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو یہ بات بتائیں، اپنے جمعے کے خطبے میں اس پر بات کریں۔‘‘

شہر میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں، اس کا ذمے دار بھی بے چارہ مولوی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب فرمانے لگے کہ ’’ مولویوں کو چاہیے کہ اپنے جمعے کے خطبے میں لوگوں کو گندگی، جگہ جگہ کچرے پھینکنے کے حوالے سے آگاہی دیں، لوگ راستے کو خراب کرتے ہیں، تجاوزات قائم کرتے ہیں، تو مولوی کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اس حوالے سے سمجھائیں، انہیں راستہ روکنے کے حوالے سے احادیث بتائیں۔‘‘ میں نے پوچھا کہ مولوی کی بات کون سنے گا؟ جواب ملا کہ ’’ او بھائی ! لوگ مولوی کی بات سنتے ہیں، اس کا احترام کرتے ہیں، اس لیے انہیں اس معاملے میں بولنا چاہیے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ جناب بجا کہ مولوی کو بولنا چاہیے لیکن جناب عالی! اولین ذمے داری تو حکومت اور عوامی نمائندوں کی ہے کہ وہ اس کی بیخ کنی کریں،دوسرے نمبرپر میڈیا کا یہ فرض ہے کہ اس حوالے سے پروگرامات تیار کریں اور ہر چینل ایسے پبلک سروس کے پیغامات چلائے، حکومت لوگوں کو شعور دینے کے لیے پبلک سروس کے پیغامات کیوں نہیں چلاتی؟ اور پولیس تجاوزات قائم کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑتی؟ پہلا فرض تو ان تمام لوگوں کا ہے ، مولوی تو بہت بعد میں کہیں آتا ہے۔جواب ملا ’’ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں ، ان کو بھی کرنا چاہیے لیکن یار یہ مولوی کو بھی چاہیے نا ، وہ اتنی ’’فضول‘‘ باتیں کرتے ہیں تو کیا یہ کام نہیں کرسکتے؟ ‘‘

میانمار، فلسطین، کشمیر یا دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم و زیادتی پر احتجا ج کیا جائے تو اس پر بھی بے چارہ مولوی اور دینی طبقہ عتاب کا شکار ہوتا ہے۔ اب یہ تکلیف ہوتی ہے کہ ’’ ان کو ساری دنیا کی فکر ہے، ان کو اور کوئی کام نہیں ہے۔‘‘ میں مبالغہ آرائی یا غلط بیانی نہیں بلکہ میرے سامنے ایک صاحب نے جو گفتگوکی اور بعد میں مجھ سے جو گفتگو ہوئی وہ بیان کروں تو اندازہ ہوگا کہ لبرل طبقے کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ہمارے دفتر میں ہمارے ایک ساتھی لبرل ہیں بلکہ وہ تو خود کو کمیونسٹ پارٹی آف پاکستا ن کا ممبر کہتے ہیں۔ گزشتہ ماہ وہ دفتر میں ایک صاحب سے پوچھنے لگے کہ ’’ یہ میانمار کے جو لوگ ہیں ان کا مسلک کیا ہے؟ جواب دینے والے نے کہا کہ ان میں زیادہ تر بریلوی مسلک کے ہوتے ہیں۔ یہ سن کر ہمارے وہ معنی خیز انداز میں کہنے لگے کہ ’’ اچھا جب ہی یہ جماعت اسلامی اس معاملے میں کوئی ایکشن نہیں لے رہی۔‘‘ اگر چہ اس پر بات کی جاسکتی تھی لیکن میں خاموش رہا۔ اگلے ہی ہفتے کراچی میں جماعت اسلامی کی عظیم الشان ریلی کا انعقاد ہوا۔ اب وہ صاحب کہنے لگے کہ ’’ یار جماعت اسلامی کو ایک نیا منجن مل گیا ہے بیچنے کو۔‘‘ اب میں نے مداخلت کی اور کہا کہ جناب یہ تو کوئی بات نہیں ہوئی، ابھی دو دن پہلے تو آپ فرما رہے تھے کہ جماعت اسلامی والے بریلوی ہونے کی وجہ سے ان کے معاملے میں کچھ نہیں بول رہے اور اب آپ فرما رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کو نیا منجن مل گیا، یہ تو منافقت ہے، موصوف مکرنے لگے کہ میں تو ایسا کبھی نہیں کہا لیکن دفتر کے چند دیگر ساتھیوں نے بھی انہیں یاد دلایا کہ آپ نے ٹھیک اسی طرح کے الفاظ ادا کیے تھے تو وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے خاموش ہوگئے۔

یہ واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ دین بیزار، سیکولر، لبرل طبقے کا طریقہ واردات یہی ہے کہ مولوی اور دینی طبقے کو ہر حال میں کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ جو طبقہ اور جو افراد یہ چاہتے ہیں کہ مولوی کو لوگوں کو سمجھانا چاہیے، مولوی کو چاہیے کہ لوگوں کو شہری شعور سے آگاہی دینی چاہیے، اور جو طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ لوگ مولوی کی بات مانتے ہیں ، مولوی کا معاشرے میں اثر نفوذ بہت زیادہ ہے۔ انہیں اگر یہ کہا جائے کہ اگر مولوی کا اثر نفوذ بہت زیادہ ہے اور مولوی نے یہ کام کرنا ہے تو کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ مولوی کو منتخب کرکے اسمبلی میں بھیج دیا جائے، حکومت مولوی کو دیدی جائے تاکہ وہ یہ کام خوش اسلوبی سے ادا کرے۔ میں آپ کو شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ جیسے ہی آپ یہ بات کہیں گے مذکورہ طبقہ اور افراد فوراً اپنی رائے بدل دیں گے، اب یہ کہیں گے کہ مولوی کی تو کوئی سنتا ہی نہیں ہے، یا مولوی کی سنتا کون ہے؟ اس کے علاوہ یہ بڑی شدت سے اس بات کی مخالفت کریں گے کہ مولوی سیاست میں حصہ لینا چاہیے، اب ان کا موقف یہ ہوگا کہ مولوی کو چاہیے کہ وہ لوگوں دین کے مسائل بتائے، تبلیغ کرے ، اللہ اللہ کرے اور سیاست سے دور رہے۔آزمائش شرط ہے۔

دین بیزار ، سیکولر، کمیونسٹ طبقہ پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ دینی جماعتوں، مولوی اور مدارس کو ٹھہراتا ہے لیکن پاکستان کی تاریخ میں مولوی یا مذہبی طبقہ بر سرِ اقتدار کب رہا ہے؟ اس سوال کے جواب میں وہ آئیں بائیںشائیں کرنے لگتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک کبھی کوئی دینی جماعت برسرِ اقتدار نہیں رہی۔ پاکستان میں اسکندر مرز،ایوب خان، یحیٰ خان، جنرل ضیا الحق اور پرویز مشرف میں سے کوئی بھی مولوی یا مدرسے کا پڑھا ہوا نہیں تھا،نہ ہی ان کا کسی دینی و مذہبی جماعت سے کوئی تعلق تھا۔ دوسری جانب سول حکمرانوں میں لیاقت علی خان ، حسین شہید سہروردی، خواجہ ناظم الدین،ذوالفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف، ظفر اللہ خان جمالی، شوکت عزیز،یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی ان میں سے کسی ایک حکمران یا وزیر اعظم کا نام بتا دیں جو کسی دینی یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتا ہو۔سقوطِ مشرقی پاکستان کے جو تین مرکزی کردار ہیں ان میں سے ایک یحیٰ خان، دوسرا ذوالفقار علی بھٹو اور تیسرا شیخ مجیب الرحمٰن ہیں۔ کیا ان کا تعلق کسی مذہبی یا دینی جماعت سے تھا؟؟ ویسے بر سبیلِ تذکرہ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سب سے بڑی جمہوری پارٹی ہونے اور جمہوریت کی چیمپئن ہونے کی دعوے دارپاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوایک آمر ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے جب کہ یحیٰ خان کی آمریت میں ان کے پاس چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کا منفرد عہد ہ بھی تھا،اس کے باوجود ان کی پارٹی جمہوریت کی چیمپین کہلاتی ہے۔

جی اب ذرا مجھے بتایئے کہ جب مولوی یا مذہبی طبقے کے پاس کبھی اقتدار ہی نہیں رہا، وہ کبھی حکومت میں نہ رہا، نہ کبھی قانون سازی کی پوزیشن میں آیا، سول اور فوج انتظامیہ پر کبھی اس کا کنٹرول ہی نہیں رہا تو پھر سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ہر مسئلے میں مولوی یا دینی طبقے کو مورودِ الزام کیوں ٹھہرایا جاتا ہے؟ لیکن چھوڑیے اس بات کو آپ بھی آسان نسخہ آزمائیں کہ ’’ یہ سالا مولوی ہی ہر مسئلے کا ذمے دارہے۔‘‘

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1449221 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More