سن انیس سوستر کے بعد سے پاکستانی سیاست مکمل طور پر ایسے
سیاستدانوں ، سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں چلی گئی جو نہ صرف کرپٹ، بد عنوان
اور لوٹ مار کے ماہر تھے بلکہ وطن فروشی میں کمال درجہ رکھتے ، پاکستان کو
دو لخت کرنے والے سیاستدان ہی تھے جن کی ذاتی خواہشات، قوم پرستی نے اس ملک
کو مشکلات سے دور چار رکھا، جمہوریت کے نام پر جمہوریت کا قتل کیا گیا، یہی
سلسلہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بد سے بد تر ہوتا چلاگیا، لوٹ مار، ڈاکہ
زنی کے اس بازار میں وطن عزیزکی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں نے وہ تاریخیں رقم
کیں ہیں جن کا باب سیاہ حروفوں سے شروع ہوتا ہے اور سیاہ حروف پر ہی ختم
بھی ہوتا ہے، یہ پاکستان کی بد قسمتی ہے کہ پاکستانی عوام سیاسی شعور کے
فقدان کی وجہ سے انہی مکار، دھوکے باز اور فریبیوں کے چنگل میں سنہرے
خوابوں میں بار بار آجاتے ہیں جیسے بھوکے یا پیاسی لوگ جنگل میں بھٹکتے
پھرتے ہیں، پاکستان دینا کے اُن چند ممالک میں شائد ہی ایک ملک ہو جہاں بار
بار آئین سیاستدان اپنے مذموم عظام کیلئے تبدیل در تبدیل کرتے پھرتے ہیں،
جہاں عوام کے مفادات نہیں بلکہ اپنے اور اپنی عیال کی عیش و تعائش کیلئے
ملکی خزانے کو خالی کرکے ملک دشمنوں کی گودوں میں بکھیر دیتے ہیں،پی پی پی
،پی ایم ایل نون ، اے این پی، جے یو آئی ف اور ایم کیو ایم سمیت دیگر
جماعتوں نے کئی سالوں سےاس وطن عزیز پر اقتدار کی کرسی پر برجمان رہے لیکن
پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس طویل عرصہ میں بھی مستقل بنیادوں پر کوئی
خاطر خواہ ایسا عمل پیدا نہیں کیا جس سے براہ راست عوام کو فلاحی بنیاد پر
بہتر لائی گئی ہو، پاکستانی ملک میں ہو یا بیرون ملک محنت و مشقت کرکے مر
جاتا ہے مگر اپنے وطن میں بنیادی حقوق کیلئے سرکرداں ہی رہ جاتا ہے ،
اداروں کے سربراہ سیاسی سربراہ جو اقتدار میں موجود ہوتے ہیں انہیں تعینات
کرتے ہیں جو ان کی غلامی کا دم بھرتا ہوگویا اداروں کو غلامی زنجیروں میں
جکڑ کر رکھ دیا ہو، نظام زندگی اور نظام ریاست کو منجمد کرکے رکھ دیا، کون
سا ایسا شعبہ، ادارہ، وزرات ہے جہاں سیاسی مداخلت نہ ہو، جہاں بد عنوانی
اور رشوت ستانی عروج پر نہ ہو، پاکستانی سول کورٹ ہوں یا جیل خانہ جات ان
میں بیشتر ملازمین کرپٹ اور بدعنوان ہیں، سول کورٹ میں تاریخیں در تاریخیں
پیشکار بھاری رقم لیکر لگاتا رہتا ہے جبکہ جیلوں میں جو حال ہے وہ آج کے
میڈیا نے حقیقت آشکار کرکے رہ دیا ہے، قانون نام کی کوئی شے نہیں ، قتل و
غارت گری ایک عام سا فعل بن گیا ہے کیونکہ اس ملک میں نہ عدل ہے نہ انصاف
گویا جنگل کا قانون چل رہا ہو، دولت مند وڈیرے ہو یا چوہدری یا پھر خان یہ
سب کے سب اپنی ناجائز دولت پر فرعون بنے پھرتے ہیں ان کے جہاں چہروں پر
منحوسیت چھائی رہتی ہے وہیں ان کے بد افعال کی وجہ سے خباثت پھیلی رہتی ہے،
ملک بھر کی سیاہی سیاست کی دھلائی نا ممکن بن چکی ہے ایسے میں سپریم کورٹ
اور فوج اندھیرے میں روشنی تلاش کررہے ہیں، سپریم کورٹ اورافواج پاکستان
آئین کی پاسداری میں کسی طور کم نظر نہیں آتے جبکہ سول انتظامیہ اور سول
حکومتیں متواتر قانون شکنی، وطن فروشی میں مسلسل ملوث ہوتی جارہی ہیں، ملک
دشمن ممالک سے اپنے کاروبار اور دولت کی حفاظت کیلئے انفرادی تعلقات کو
قومی اور ملکی سطح کو مکمل نظر انداز کررہے ہیں، ایک طرف پاکستانی صحافی
،عوام اور ذی شعور لوگ مارشل لا کو بہت برا کہتے ہیں دوسری جانب بد ترین
جمہوریت جو جمہوریت کے نام کا لیبل اوڑھے ہوئے ہیں عوام کی توجہ حاصل کرنے
کی کوشش کررہی ہے۔۔۔ معزز قارئین!! پاکستان میں جب تک احتسابی عمل بغیر کسی
دباؤ کے شروع نہیں ہوتا کبھی بھی انصاف ممکن نہیں بن سکے گا، احتسابی
اداروں کے قوانین کو ہنگامی بنیادوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ
مجرم کے ثبوت حاصل کرنے کے بعد انصاف کو بیچنے کی روایت تبدیل کرنی پڑیگی،
نیب ہو یا اینٹی کرپشن ان اداروں کو دلال کی حیثیت میں رکھ دیا ہے ، جرم کی
نسبت رقم طے کرکے شفافیت کا سرٹیفکیٹ عنایت کردیا جاتا ہے، یاد رکھنے کی
بات تو یہ ہے کہ جرم ثابت ہونے کے بعد ہی سزا کا عمل شروع ہوتا ہے لیکن
ہمارے ہاں جرم ثابت ہونے کے بعد ہی رعایت کی ابتدا ہوتی ہے، قومی ہو یا
صوبائی تمام ایوانوں میںانسانی اسمگلر سے لیکر منشیات فروش، قاتل سے لیکر
دہشتگرد تک سب ہی تو ہیں کون ہے جو صادق و امین کہلائے، کون ہے جو جھوٹ سے
دور رہتا ہو، کون ہے جس نے قول و فعل یساں رکھے ہوں، کون ہے جو محب الوطن
اور خادمین کا عزم رکھتا ہو، یوں لگتا ہے کہ کرپشن سے پاک سیاست بھی اب
ہمیں چائنا سے درآمد کرنی پڑے گی یا پھر سعودی عرب کے مقدس شہروں سے طلب
کرنی پریگی لیکن شائد اس ملک کو ان سیاسی جماعتوں نے اس قابل ہی نہیں چھوڑا
کہ کوئی ان پر بھروسہ کرے یا اچھی سیاست کیلئے تعاون پیش کرسکے، دلی افسوس
سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں کرپشن سے پاک سیاست میسر ہو کوئی مذہبی
تو کوئی مورثی اور کوئی جذباتی انداز سے کرپشن کررہا ہے، کبھی کبھی خیال
آتا ہے کہ کاش قائد اعظم محمد علی جناح اور خان لیاقت علی خان کی زندگیاں
کچھ اور زیادہ ہوتیں تو ممکن ہے جو آج پاکستان کا حال بنادیا گیا ہے کبھی
بھی ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہمارا ملک پاکستان دنیا میں سب سے جدا منفرد اور
ترقی یافتہ ملک کہلاتا، یہ کرپٹ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں کبھی بھی نہیں
سدھریں گی اب تو ان کے خلاف آپریشن رد الکریشن کی اشد ضرورت ہے چاہے اس
کیلئے ایک کڑوی گولی مارشل لا کی برداشت ہی کیوں نہ کرنی پڑے، لگتا ہے کہ
پاکستان کو بچانے کیلئے آئین کو تبدیل کرنا ہوگا، پاکستان بچانے کیلئے
موجودہ سیاستدان اور سیاسی جماعتوں کو قلع قمع کرنا ہوگا کیونکہ ان جماعتوں
نے چالیس سالوں سے جہاں ملکی خذانے کو لوٹا ہے وہیں ملکی جڑوں کو کھوکھلا
کردیا ہے ، دہشت گرد ہو یا امریکی، بھارتی، برطانوی، اسرائیلی عزائم کیلئے
آلہ کار بن کر ملک پاکستان کو خاک کرڈالا ہے ، مورخ لکھ رہا ہے کہ پاکستان
کی موجودہ دور میں ایسی حالت ہے جیسی سانپ اپنی کھال تبدیل کرتا ہے یعنی
اپنی بقا کیلئے پرانی کھال اتار کر نئی کھال کو جسم پر ظاہر کرتا ہے یہی
صورتحال پاکستان کی ہے اب پاکستان کو اپنی بقا کیلئے نئی کھال کا جامع
پہننا پڑیگا ، سول پی ایم ایل نون ہو یا پی پی پی ، اے این پی ہو یا جے یو
آئی ف یا پھر ایم کیو ایم ان تمام سیاسی جماعتوں نے سوائے مایوسی ، کرپشن،
لوٹ مار، بدعنوانی کے عوام کو دیا ہی کیا ہے؟؟؟ عوام ،سپریم کورٹ اور افواج
پاکستان تلاش میں ہے ایسی سیاست کے جو مکمل کرپشن سے پاک ہو ، اللہ
پاکستانی عوام کو ایسی سیاسی پلیٹ ، سیاسی جماعت، سیاسی حکمران عطا فرمادے
جو قائد اعظم کے نقش قدم پر چلتا ہو ،االہ پاکستان کا حامی و ناظر رہے
آمین ثما آمین۔۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔!! |