کراچی کا حلقہ این اے ۲۴۶جہاں سے ایم کیوایم نے نبیل گبول
کو ۲۰۱۳ کے عام انتخابات میں کھڑا کیا اور وہ حسب توقع کامیاب ہوئے ۔مگر
۲۰۱۵ میں انہوں نے نا صرف ایم کیوایم کو خیر باد کہا بلکہ اس نشست سے بھی
مستعفی ہونے کا اعلان کیا ۔ بعد ازاں اس حلقے میں ضمنی انتخابات کا انعقاد
ہوا جس میں ایم کیوایم نے کنور نوید جمیل صاحب کو کھڑا کیا اور پاکستان
تحریک انصاف نے عمران اسماعیل صاحب کوانکا مد مقابل لانے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن مہم کے دوران اسی حلقے کی حدود میں ایک بڑا
جلسہ منعقد کیاجس میں تحریک انصاف کی تمام اعلی قیادت نے شرکت کی ۔ ایسا
جلسہ شائد پہلی دفعہ ایم کیو ایم کے خصوصی حلقے میں کسی فریق نے کیا۔ کچھ
تجزیہ نگاروں نے اس جلسے کو کراچی میں تبدیلی کا عندیہ قرار دیا۔ یہ حلقہ
ایم کیوایم کے مرکزی دفتر المعروف ۹۰ کی حدود میں آتاہے اور کسی بھی سیاسی
جماعت کو اسکے مرکزی دفتر کے حلقے میں شکست دیناآسان نہیں ہوتا اور ایسا ہی
ہوا، ایم کیو ایم کے امید وار کنور نوید جمیل ووٹوں کے واضح فرق سے کامیاب
قرار پائے۔ کراچی میں اس انتخابات کے بعد سے بہت تبدیلیاں آچکی ہیں۔ یہ
انتخابی عمل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی خصوصی نگرانی میں منعقد ہوااور
بین الاقوامی میڈیا نے بھی اسے خصوصی اہمیت دی ۔ اگر یہ لکھا جائے کہ این
اے ۲۴۶ کاانتخاب دوبارہ لاہور میں گزشتہ روز (۱۷ ستمبر ) کو دہرایا گیا تو
شائد غلط نا ہو ، کیونکہ اس انتخاب کا حال بھی مذکورہ انتخابات سے کچھ
مختلف نہیں رہا بلکل ویسی ہی گہما گہمی شور شرابا دیکھنے میں آیا۔ یہ
انتخاب لاہور کے حلقہ این اے ۱۲۰ میں منعقد ہوا ۔ مگر اس حلقے میں انتخابات
کی وجہ کچھ مختلف تھی اور وہ یہ کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جن کی بنا پر
مسلم لیگ میں ن لگا ہوا ہے میاں محمد نواز شریف صاحب کوسیاست کیلئے دو دفعہ
تا حیات نااہل قرار دیا ہے اور نااہلی کی وجہ سے یہ نشست خالی ہوئی ۔ یہ
فیصلہ کسی ایرے غیرے نے نہیں بلکہ پاکستان کی سب سے اعلی عدلیہ سپریم کورٹ
کے معزز جج صاحبان نے سنایا ہے اور ایک طویل کارورائی(چھان بین) اس فیصلے
کے پیچھے ہے مگر بر سر اقتدار جماعت کیلئے یہ فیصلہ ابھی تک نا قابل قبول
ہے۔ مجھے کیوں نکالا کی صدائیں سب طرف گونج رہی ہیں اور پاکستان کسی تماشہ
گاہ کی صورت اختیار کیا ہوا ہے ۔ کرپشن در کرپشن کی بنا پر نااہلیت کی سند
پانے والے وزیر اعظم اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک سے باہر چلے گئے ۔ پاکستان
تحریک انصاف پہلے دن سے میاں صاحب کو حکومت تو کیا سیاست سے دور کرنے کا
مشن اٹھائے سڑکوں پر تھی اور یہ مشن اس لئے تھا کہ کیا پاکستان کے پاس
سوائے دو تین چہروں کے کوئی اور سیاست اور حکومت کرنے کا اہل نہیں ہے ۔ بہر
حال وہی ہوا جو ہونا تھا بیگم کلثوم نواز نے میدان مار لیا۔
این اے ۱۲۰ مسلم لیگ (ن) کا ابائی حلقہ ہے میاں نواز شریف صاحب اسی حلقے سے
منتخب ہوکر تین دفعہ وزیر اعظم بنے ۔ میاں صاحب اس حلقے میں رہنے والوں کا
جتنا شکریہ ادا کریں کم ہی ہوگا کہ وہ ہر بار اتنی برائیوں اور بے رحمیوں
کے باوجود میاں صاحب کو جتواتے رہے اور اس بار بھی بیگم کلثوم نواز کو بھی
جتوا دیاجبکہ بیگم صاحبہ بھی اپنے علاج کے سلسلے میں ملک سے باہر ہی ہیں۔
لوگوں کی اپنے حکمرانوں سے ایسی محبت یقیناًاس دور میں ہوا کرتی ہوگی جب
حکمران چابک کے بل بوتے پر حکومت کرتے ہونگے اور آج اگر دنیا میں ایسی
تاریخی محبت کو زندہ حالت میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ پاکستان میں دیکھ لے۔
شائد اسٹیبلشمنٹ بھی اپنے آبائی حلقوں سے ہروانے کے حق میں نہیں ہے۔ آخر
اسٹیبلشمنٹ نے کیوں نہیں چاہا کہ وہ کراچی سے کنور نوید جمیل کو اور لاہور
سے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کو ہروا دے۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کا مقصد صرف مائنس
ون ہوتا ہے تو پھر عمران خان صاحب کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ اسی
سال یا پھر اگلی باری پاکستان تحریک انصاف کو آپ سے جان چھڑانی پڑ جائے گی
اور انکی مددبھی اسی ملک کے ادارے ہی کرینگے۔
ہم پاکستانی اپنی اپنی سوچ اور نام نہاد نظریات کے قیدی ہیں۔ پاکستان ہماری
ترجیحات کی فہرست میں معلوم نہیں کہاں آتا ہے ۔ ہم سب کچھ بدل سکتے ہیں
مگرہماری سوچ کو بدلنا یا پھر کسی اور زاوئیے پرسوچ کو موڑنا ناممکنات میں
سے سمجھ لیجئے ۔پاکستانیوں کو آج تک یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ پاکستان میں
سیاست دان بھی سول ڈکٹیٹرز کی صورت میں پرورش پاتے ہیں شائد ہی کسی پارٹی
کا سربراہ عوامی سوچ اور عوامی طرز کی زندگی بسر کرنے کا خواہشمند ہو۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان کے حکمران اور انکے اہل خانہ
پاکستان میں حکومت کرنے کیلئے آتے ہیں۔ یہاں کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں
ہے کیونکہ ہر پاکستانی یہ جانتا ہے کہ کون پاکستان میں کتنے دن کیلئے آتا
ہے اوراکثر وہ کس ملک میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں علاج معالجے کی سہولیات کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے حکمران اپنا تو اپنا اپنے اہل
خانہ کا علاج بھی پاکستان میں نہیں کرواتے ۔ یہ حکمرانوں کی کارگردگی کی
بنیادی اکائی ہے کہ آپ کے علاقے میں چھوڑ دیں ، شہر کو چھوڑ دیں، صوبے کو
چھوڑ دیں پورے ملک میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں ہے جہاں ہمارے حکمران اپنا
علاج کروا سکیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم جو ان حکمرانوں کو
ایوانوں میں بھیجتے ہیں انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں۔ ہم اپنے ساتھ ہونے
والی زیادتیاں بلکل کیس جانور کی طرح برداشت کرتے چلے جا رہے ہیں بلکہ کسی
کی نشاندہی پر اسی کی دھلائی کرنے لگ جاتے ہیں۔
چین بہت واضح انداز میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ترقی حاصل کرنے
کیلئے اپنے ملک سے کرپشن ذدہ افراد کا خاتمہ کرنا پڑیگا خصوصی طور پر
حکمران طبقے میں سے ، چین کے صدر سے ماخوذ یہ وضاحت کہ ہم نے تین سو (۳۰۰)
وزیروں کو پھانسی دی پھر کہیں جاکہ چین معیشت کا سپر پاور بننے لگا۔
اللہ کرے ہمیں جلد ہی یہ بات سمجھ آجائے کہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں
بدلتا جو اپنی حالت خود ہی نا بدلنا چاہے۔
|