مسجدِ نبوی ﷺ کی فضاؤں میں پھیلی درود و سلام کی مشکبو
گونج کیف سرور کی لذتیں بکھیر رہی تھیں ۔عاشقان ِ رسول ﷺ کے چہروں پر عقیدت
و احترام کے سینکڑوں چاند روشن تھے ۔ پوری دنیا سے آئے ہوئے پروانوں کی
درود و سلام کی صداؤں سے مسجد نبوی ﷺ کا کونہ کونہ گونج رہا تھا ۔ پوری
دنیا سے آئے ہوئے یہ عاشقان ِ رسول پیغمبر اسلام ﷺ کے جانثار تھے مگر کچھ
لوگ جانثاروں کی صف میں بہت نمایاں ہوتے ہیں یہ لوگ شہنشاہِ مدینہ ﷺ کی ہر
سنت کو زندہ کرنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ ساتھ شاہان ِ وقت سے بھی جنگ
کرتے ہیں۔سرورِ دوعالم سے محبت کا یہ عالم کہ اپنی ایک ایک سانس کو مزاج ِ
نبوت کے مطابق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے ہی عاشقانِ رسول ﷺ اولیا اﷲ کے
نام قیامت تک امر ہو جاتے ہیں کہاں گئے وہ ظالم حکمران آج زیرِ زمین حشرات
الارض ان کی ہڈیوں میں سوراخ کر چکے ہونگے ۔کیڑے مکوڑے ان کی ہڈیوں کو بھی
کھا چکے ہونگے ۔ان کے مقبرے آج ابابیلوں کے مسکن ہیں ۔کوئی فاتحہ خواں نہیں
کوئی چراغ روشن نہیں آج ان ظالموں پر کیا عالم تنہائی اور بے بسی ہے ۔روز و
شب کے ہنگامے اِسی طرح جاری رہیں گے زمین اِسی طرح اپنے محور پر گھومتی رہے
گی ۔ لیکن قیامت تک روزانہ اِسی طرح ہجوم ِ عاشقان کی کثیر تعداد روضہ رسول
ﷺ پر عقیدت کے پھول نچاور کرتی رہے گی ہر نئے دن کے ساتھ ہی اِس کی تعداد
اور عشق و احترام میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔ چودہ صدیوں سے عاشقان ِ رسول ﷺ
کا یہ قافلہ عقیدت و احترام اور درود و سلام کی صداں کے ساتھ رواں دواں ہے
اور قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ چودہ صدیوں کے تصور کے ساتھ ہی ایک خیال
برقی رو کی طرح آیا اور میرے دل و دماغ کو ہلا کر چلا گیا ۔سرورِ کونین ﷺ
کی حیات مبارکہ کے آخری دن ۔ جب دعوت و تبلیغ کا کام پورا ہو گیا جب ایک
نئے اسلامی معاشرے کی تعمیر و تشکیل عمل میں آگئی اب گویا غیبی ہاتف آپ ﷺ
کے دل و دماغ کو یہ احساس دلا رہا تھا کہ دنیا میں آپ ﷺ کے قیام کا زمانہ
اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے ‘ جب آپ نے حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا
کر روانہ کیا تو رخصت کے وقت آپ ﷺنے فرمایا اے معاذ غالبا تم مجھ سے میرے
اِس سال کے بعد نہ مل سکو بلکہ غالبا میری اِس مسجد اور میری قبر کے پاس سے
گزرو گے تو حضرت معاذ یہ سن کر شافع ِ محشر کی جدائی کے غم میں رونے لگے
پھر حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے
ہوئے سمندر کے سامنے آپ ﷺ نے تاریخی جامع خطبہ ارشاد فرمایا ۔اے لوگوں میری
بات سنو کیونکہ میں نہیں جانتا شاید اِس سال کے بعد اِس مقام پر تم سے کبھی
نہ مل سکوں گا ۔ اور میں تم میں اِیسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم نے
اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اِس کے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اﷲ
کی کتاب لوگوں یاد رکھو میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت
نہیں لہذا اپنے رب کی عبادت کرنا پانچ وقت کی نماز پڑھنا رمضان کے روزے
رکھنا ۔ خوشی سے اپنے مال کی زکوۃ دینا۔ اپنے اﷲ کے گھر کا حج کرنا اور
اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا ایسا کروگے تو اپنے رب کی جنت میں داخل
ہوگے(ابنِ ماجہ) اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا
کہو گے صحابہ نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ ﷺ نے تبلیغ کر دی پیغام پہنچا
دیا اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا یہ سن کر آپ ﷺ نے انگشت ِ شہادت کو
آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا اے اﷲ
گواہ رہنا۔جب آپﷺ خطبہ فرما چکے تو پروردگار نے یہ آیت نازل فر مائی‘ترجمہ
: آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری
کر دی اور تمھارے لیے اسلام کوبحثیت دین پسند فرمایا جب یہ آیت مبارکہ حضرت
عمر فاروق نے سنی تو بہت روئے پوچھنے پر کہ آپ کیوں رو رہے ہیں تو فرمایا
اِس لیے کہ کما ل کے بعد زوال ہے تمام مناسک ِ حج سے فارغ ہو کر آپ ﷺ مدینہ
منورہ کی طرف لوٹ گئے ۔ اب دعوتِ دین مکمل ہوگئی تھی اب سرورِ کائنات ﷺ کے
احوال و گفتار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہو گیئں تھیں کہ اب آپ ﷺ
اِس حیات مستعمار اور اِس جہان ِ فانی کے باشندگان اور اپنے پروانوں کو
الوداع کہنے والے ہیں ۔ رمضان المبارک میں آپ ﷺ نے بیس 20دن کا اعتکاف
فرمایا جبکہ آپﷺہمیشہ دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اِس سال حضرت
جبرائیل نے آپ ﷺ کو دو مرتبہ قرآن کا دورہ کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ
دور کرایا کرتے تھے اور حج کے موقع پر آپﷺ نے فرمایا مجھ سے حج کے اعمال
سیکھ لو کیونکہ شاید اِس کے بعد میں حج نہ کر سکوں پھر ایام تشریق کے وسط
میں سور نصر نازل ہوئی اِس کے بعد آپ ﷺ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے جانے کا
وقت آن پہنچا ہے صفر ھ میں آپ احد میں شہدا کی قبروں پر تشریف لے گئے اور
اِس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں پھر واپس آکر
منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا میں تمھارا امیرِ کاروان ہوں اور تم پر
گواہ ہوں بخدا میں اِس وقت اپنا حوض ِ کوثر دیکھ رہا ہوں مجھے زمین اورزمین
کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں اور بخدا مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے
بعد شرک کرو گے بلکہ اندیشہ اِس کا ہے کہ دنیا طلبی میں باہم مقابلہ کرو گے
(متفق علیہ) ۔ ایک رات رسول کریم ﷺ بقیع تشریف لے گئے اور جا کر اہل بقیع
کے لیے دعا ئے مغفرت کی فرمایا اے قبر والوں تم پر سلا م ہو فتنے سیاہ رات
کے ٹکڑے کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے ہیں اور بعد والا پہلے والے سے
زیادہ برا ہے اور یہ کہہ کر اہل قبور کو بشارت دہ کہ جلد ہم بھی تم سے
آملنے والے ہیں۔29صفر ھ روز دو شنبہ کو سرور ِ دو عالم ایک جنازے میں بقیع
تشریف لے گئے جنازے سے فراغت کے بعد واپسی پر آپ ﷺ کو دردِ سر شروع ہو گیا
۔ دردِ سر کی شدت سے تیز حرارت ہو گئی کہ سر مبارک پر بندھی پٹی کے اوپر سے
حرارت محسوس ہونے لگی ۔ یہ آپﷺ کے مرض الموت کا آغاز تھا ۔ فخرِ دوعلم ﷺ
اِس مرض میں تقریبا 13یا 14دن تک مبتلا رہے ۔ شہنشاہ ِ دو عالم ﷺ نے اِسی
بیماری کے عالم میں گیارہ دن تک نماز پڑھائی ۔ شافع محشر ﷺ کی بیماری بڑھتی
گئی ۔ آپ ﷺ کی طبیعت روز بروز بوجھل ہوتی جا رہی تھی ۔ آپ ﷺ ازواج مطہرات
سے پوچھتے کہ کل میں کہاں رہوں گا ۔ ازواج ِ مطہرات آپ ﷺ کے سوال کو سمجھ
گئیں ۔ اِس لیے ا نہوں نے آپ ﷺ کو اجازت دے دی کہ آپ ﷺ جہاں چاہیں رہیں ۔
اب آپ ﷺ حضرت عائشہ کے حجرہ مبارک یعنی مکان میں داخل ہوگئے ۔ حضرت عائشہ
کے مکان میں آپ ﷺ کو فضل بن عباس اور حضرت علی بن ابی طالب سہارا دے کر لے
گئے ۔ شہنشاہِ دو عالم ﷺ کے پروانے صحابہ کرام بہت زیادہ دکھی اور مضطراب
تھے ۔ آپ ﷺ کی بیماری کی وجہ سے عاشقانِ رسول ﷺ بے چین ، بے قرار اور بہت
زیادہ غمگین تھے بار بار آپ ﷺ کی صحت یابی کی دعائیں کی جارہی تھیں ۔ جس دن
رسول کریم ﷺ حضرت عائشہ کے مکان میں منتقل ہوئے آپ ﷺ کے سر مبارک پر پٹی
بندھی ہوئی تھی ۔ آقائے دو جہاں ﷺ نے اپنی حیات ِ مبارکہ کا آخری ہفتہ حضرت
عائشہ کے مکان میں گذارا۔دوران بیماری ہماری ماں حضرت عائشہ رسول کریم ﷺ سے
حفظ کی ہوئی دعائیں پڑھ پڑھ کر آپﷺ پر دم کرتی رہتی تھیں ۔ لیکن آپ ﷺکی جسم
کی حرارت اور بڑھتی جا رہی تھی ۔شفا اور صحت یابی کی امید میں حضرت عائشہ
آپ ﷺ کا ہاتھ مبارک آپ ﷺ کے جسم مبارک پر بار بار پھیرتی تھیں کہ دستِ اقدس
کی برکت سے آپ ﷺ کی بیماری شفا میں تبدیل ہو جائے ۔ |