الشیخ امان الجامی رحمہ اللہ کا ایک انمول چند منٹوں کا
علمی بیان مگر امۃ مسلماء کے حالات پر نظر ڈالیں تو پوری حقییقت واضع کرتے
ہوۓ، اس کا عربی متن ضرور سنیں:
https://www.youtube.com/watch?v=d6-g7Jenvjs
اردو ترجمہ:
الشیخ محمد امان الجامی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اور عبادت میں اخلاص صرف اللہ واحد کے لیے ہے، اخلاص عبادت میں اللہ تعالی
کے لیے ہے، ریاکاری (دکھاوے) سے پاک۔ اپنے دل کو اس کے سوا (اللہ کے سوا)
کسی طرف نہ موڑو، اپنی نماز میں، اپنے روزے میں، اپنے علم حاصل کرنے میں،
اچھائ کی طرف دعوت دینے اور برائ سے روکنے میں.
تمہارا رب ہی اس میں ہونا چاہیے جسے تم مطلوب اور مقصود رکھو۔ اور جس کے
سوا کسی بھی طرف تم نہ پلٹو۔ یہ اخلاص ہے۔ اخلاص بہت مشکل ہے، اور اخلاص
میں سچائ زیادہ مشکل ہے۔ اور یہ سب اس کے لیے آسان ہے جس کے لئے اللہ آسان
بنا دے، اللہ المستعان، اللہ مددگار ہے۔
اور رسول پر ایمان (علیہ الصلوۃ والسلام) لانا، اور اسکی اطاعت کرنا، مطلق
طور پر اطاعت کرنا، جو ہم نے پچھلے درس میں بیان کیا۔ سچائ پر مشتمل اطاعت
مطلق طور پر ہے اور اسکو عقلوں پر پیمائش/فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تیسری
آیت کا مطلب بھی ہے، وہ تیسری آیت کیا ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور
کی عبادت نہ کرنا (سورۃ الاسراء 17 آیت: 23)
یہ آیت لا الہ الا اللہ کی تفسیر کرتی ہے جیسا کہ الشیخ نے کہا کہ اس (اللہ
تعالی) نے حکم دیا ہے لفظ قضی (حکم دینا) کے ساتھ۔
اور پھر اس (الشیخ) نے کہا کہ اللہ نے فرمایا:
أَلَّا تَعْبُدُوا
ترجمہ: "تم کسی کی عبادت نہ کرنا" اس میں لا الہ الا اللہ کا معنی ہے۔
قرآن کا جملہ:
أَلَّا تَعْبُدُوا
ترجمہ: "تم کسی کی عبادت نہ کرنا"مثاوی ہے:"کوئ سچا معبود نہیں کے".
تو اللہ کا کہنا کہ:
أَلَّا تَعْبُدُوا
ترجمہ: "تم کسی کی عبادت نہ کرنا".اور اس کے ساتھ اللہ کا کہنا کہ:
إِلَّا إِيَّاهُ
ترجمہ: "مگر اسکے سوا" اور اس میں مطلب ہوا اللہ کے سوا۔
تو یہ آیت لا الہ الا اللہ کی تفسیر ہوئ۔ اسی طرح لفظ اخلاص کو بھی سمجھا
جاتا ہے۔ اور قرآن لا الہ الا اللہ کی تفصیل بتاتا ہے۔
تو اگر قرآن کو ترک کر دیا جائے اور (عربی) زبان کو ترک کر دیا جائے اور لا
الہ الا اللہ کا معنی علماء کلام کے اقوال سے لیے جائیں تو پھر اس کلمہ میں
تحریف ہو جاتی ہے اور اس کا معنی صرف توحید الربوبیۃ بن جاتا ہے۔ اور وہ
کہتے ہیں کہ کوئ خالق نہیں، کوئ رازق نہیں مگر سوائے اللہ کے وغیرہ۔ یہ
باطل ہے لا الہ الا اللہ کے اعتبار سے (یعنی یہ اس کا اصل اور مکمل معنی
نہیں ہے).
بلکہ یہ تو توحید الربوبیتہ ہے جو کہ توحید العبادت (العلوہیتہ) کی دلیل
ہے، اس کو سمجھ لو۔ مگر یہ واضع سمجھ کئ علماء کلام (گمراہ علماء) میں نہیں
ہے۔
ان کے کبار علماء اس سے جہل میں ہیں کیونکہ انہوں نے ھدایت کتاب اللہ کے
سوا دوسری جگہوں پر تلاش کی، جو کہ نور ہے، واضع کتاب اور شفاء۔ انہوں نے
اس کتاب کو ترک کر دیا اور ھدایت وعلم ویقین کو دوسری جگہوں پر تلاش کیا تو
اللہ نے انہیں گمراہ کر دیا۔
شارح رحمہ اللہ نے اس کتاب میں فرمایا:
ھذا کلمۃ الاخلاص، کلمۃ الاخلاص لا الہ الا اللہ
ترجمہ: اور یہ معنی ہے کلمۃ الاخلاص کا. اور کلمۃ الاخلاص لا الہ الا اللہ
ہے.
جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا
وَبَيْنَكُمْ
ترجمہ: "آپ کہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات جو ہم میں اور تم
میں یکساں ہے.."
کیونکہ تمام انبیاء اس دعوۃ پر آئے:
أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا
ترجمہ: "کہ ہم اللہ تعالی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے اور نہ اسکے ساتھ
کسی کو شریک بنائیں گے".
(سورۃ آل عمران3 آیت: 64)
تو یہ اخلاص کا صحیح معنی ہے
تو اللہ نے فرمایا:
أَلَّا نَعْبُدَ
ترجمہ: "کہ ہم کسی کی عبادت نہ کریں".
جیسا کہ شیخ نے بتایا کہ اسکا معنی ہے"لا الہ"اور قول:"الا اللہ".
مستثنی ہے کلمتہ الاخلاص سے. لا الہ الا اللہ، فسبحان اللہ.
الشیخ رحمہ اللہ نے حیران کن انداز میں کہا، سبحان اللہ، یہ معنی امت کے
متاخرین (بعد کے) دانشوروں سے کیسے چھپا رہ گیا، حالانکہ یہ تو بہت واضع
ہے. جس نے اس کتاب کی تفصیل کی وہ عرب ممالک میں رہا اور وہاں علم حاصل
کیا. مثلا عربی لغت، علم الحدیث اور اسکے ساتھ کئ اور علوم.
تو وہ ان معاشروں کو جاننے لگا۔ اور اس نے کئ اشاعرہ علماء سے علم حاصل کیا
اور وہ اس پر حیران ہوا، کہ یہ اتنا واضع امر جبکہ وہ دانشور ہیں. وہ فصاحت
و بلاغت سے بولتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ: "بلاغت تو پرندوں کو بھی
نیچے اتار دیتی ہے." لیکن کس طرح، یہ معنی ان سے چھپا رہ گیا. اور کوئ
توفیق دینے والا نہیں مگر اللہ کے سوا.
کیونکہ انہوں نے حصول اور طلب نہیں کیا، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، ھدایت کو
کتاب اللہ سے اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے. قرآن تو (محض) برکت
کے لیے (ان میں) پڑی جاتی ہے. اور دو صحیحین (بخاری مسلم) رمضان میں پڑی
جاتی ہے کچھ امراء کے گھروں میں جو فقراء کو کچھ اجرت دے سکیں، اور بخاری و
مسلم بیان کی جاتی ہے، برکت کے لیے. کتنی عجیب بات ہے!؟
وہ فقراء کو اکٹھا کرتے ہیں جو ان کے لیے قرآن ختم کرتے ہیں، وہ دو صحیحین
ختم کرتے ہیں، وہ ان کو چند رقم دیتے ہیں اور وہ چلے جاتے ہیں، "برکت کے
لیے"، مسلمون!
یہ ہے کتاب السنتہ کی حقیقت ایسے لوگوں کی نظر میں، یعنی محض "برکت کا
حصول" کہ بخاری و مسلم میں کیا ہے وہ نہیں جانتے:"امتحان پاس کر لیا مگر
نہیں جانتا".
اس دور مسلم امتہ جا چکی ہے تو جو اس سے بچ گیا اللہ کا شکر ادا کرے
اس ترجمہ میں غلطی ہو تو ضرور مطلعہ فرمائیں، تاکہ تصحیح کی جا سکے، جزاکم
اللہ خیرا۔ |