فلم’چوری چوری‘ میں لتا منگیشکر اورمنا ڈے کی آواز میں
نغمہ نگارشیلندر کا '' جہاں میں جاتی ہوں وہیں چلے آتے ہو،چوری چوری مرے دل
میں سماتے ہو،یہ تو بتاؤ کہ تم میرے کون ہو؟'' بہت معروف فلمی گیت ہے۔ یہ
فلم1965ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہاں کسی فلم یا کسی گیت پر تبصرہ نہیں
کرنامقصود نہیں بلکہ اس فلمی گیت کے پس منظر و موجودہ عالمی حالات کے تناظر
میں مجھے امریکہ اور عسکری تنظیموں کے درمیان ''تعلق''کا عجیب رشتہ دیکھنے
کو مل رہا ہے۔عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ اس امَر کی جانب کرائی جارہی ہے کہ
اگر روہنگیائی مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے مظالم کا کوئی سدّباب نہیں کیا گیا
تو یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ رخائن’عسکریت پسندوں‘ کا نیا گڑھ بن
سکتا ہے۔
پس منظر میں اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس رُجحان سے امریکہ اور
یورپ کو فائدہ جبکہ چین کو نقصان پہنچے گا۔یہ بڑا عجیب اتفاق (منصوبہ بندی)
ہے کہ دنیا بھر میں جہاں جہاں امریکی مفادات کو کسی ملک سے خطرہ محسوس ہوتا
ہے تو وہاں پہلے’عسکری تنظیمیں‘ پہنچ جاتی ہیں۔امریکہ نے مملکت عراق میں
جارحیت کیلئے پہلے عراق کو ایک ہوّا بنا یا اور ایران سے لڑوا کر عراق کی
کمر ٹھونکتا رہا، کویت پر عراقی حملے میں امریکہ کا آشیر باد شامل تھا جو
بعد ازاں عظیم جرم قرار پایا۔ جب عراق پر امریکہ نے حملہ کرنے کا فیصلہ
کرلیا تو نائن الیون واقعے کے بعد'' بش ڈاکٹرائن '' کے تحت دنیا بھر میں
القاعدہ کی طاقت کا ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ القاعدہ اتنی'' مضبوط ''ہو چکی ہے
کہ وہ امریکہ جیسے طاقت ور ملک پر بھی حملہ کرنے کی استطاعت رکھتی ہے اس
لئے اسے روکنا ضروری ہے۔’عسکری تنظیم‘ کا جواز بنا کر امریکا پہلے
افغانستان میں جا گھسا اور پھر منظّم منصوبے کے تحت عراق کے خلاف کیمیاوی
ہتھیاروں کی موجودگی اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کی CIAکی
جھوٹی رپورٹ مرتب کرکے حملہ کردیا۔ افغانستان میں داخلے کے لئے القاعدہ کے
نام پر راستہ ہموار کیا اور پھر عراق میں داخل ہوگیا۔دولتِ اسلامیہ امریکا
کی تخلیق ہے۔ لبنان میں ایک کانسپرنسی تھیوری گردش کر رہی تھی جو عالمی
توجہ کا مرکز بن گئی کہ دولتِ اسلامیہ کو خود امریکا نے بنایا ہے۔ ان سازشی
نظریات کو ہیلری کلنٹن کی کتاب ہارڈ چوائسزسے مزید تقویت ملی۔ وسطی بیروت
میں ایک لبنانی اہلکار کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں سازشی نظریہ ہمارے
خون میں شامل ہے۔ اس کا اشارہ اس افواہ کی جانب تھا کہ عراق میں داعش یا
دولتِ اسلامیہ نامی شدت پسند گروہ کے پیچھے امریکی ہاتھ ہے اور اس کا
اعتراف سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے اپنی کتاب، ہارڈ چوائسز میں
کیا ہے۔امریکا نے داعش کی تخلیق کرکے پوری دنیا میں دہشت گرد تنظیم کا خوف
پھیلایا اور شام میں اپنی مداخلت کا جواز پیدا کیا، شام میں خفیہ فوجی کیمپ
قائم کرلئے، ترکی نے جب ان خفیہ امریکی کیمپوں کی نشان دہی کی تو امریکہ نے
باضابطہ سرکاری احتجاج کیا۔کردستان ورکرز پارٹی کو ترکی دہشت گرد تنظیم
قرار دے چکی ہے۔ جبکہ امریکہ کردستان ورکرز پارٹی کی حلیف کرد شامی تنظیم
پیپلزپروٹکیشن یونٹس کو مسلح کررہا ہے ترکی حکومت ان باغیوں کی حمایت کا
الزام امریکہ پر عائد کرتی ہے۔امریکہ نے لیبیا کو برباد کرکے مغربی مداخلت
کیلئے راستے کو ہموار کیا،سابق امریکی صدر بارک اوبامہ نے فاتحانہ انداز
میں کہا تھا کہ قذافی کی ہلاکت اہم دن ہے۔جبکہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہلری
کلنٹن کا بھی کہنا تھا کہ معمر قذافی کی ہلاکت سے لیبیا کی تاریخ کے بد
قسمت دور کا خاتمہ ہو گیا ہے۔کرنل قذافی کی ہلاکت کے بعد لیبیا میں ایک نئے
دور کا آغاز ہوا ہے۔۔ مصر میں اسلا م پسند حکومت کو فوجی بغاوت کا سامنا
ہوا۔ ہیومن رائٹس واچ مڈل ایسٹ کی ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن کا یہ تبصرہ بہت
فکر انگیز ہے: یہ سوال تو اب باقی نہیں رہا کیا مصر بحالی جمہوریت کے راستے
پر چل رہا ہے؟ مگر دیکھنا یہ ہے اس کے وحشیانہ جبری ہتھکنڈوں کی امریکا کب
تک پردہ پوشی کرتا رہے گا۔ فوجی انقلاب کے ذریعے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ
اُلٹے جانے کے بعد سے مصری حکام کے اقدامات کا دیانتدارانہ جائزہ جس نتیجے
پر پہنچاتا ہے، وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ جمہوری آزادیوں کو یقینی بنانے کے
بجائے مصری حکام اس کے برعکس اقدامات کررہے ہیں۔ تو ترکی میں ہونے والی
فوجی بغاوت کے سرغنہ فتح اﷲ گولن نے امریکہ میں پناہ حاصل کی ہوئی ہے۔ترک
حکومت کا الزام ہے کہ امریکا میں پینسلوانیا میں مقیم ترک مبلغ فتح اﷲ گولن
اور ان کی تحریک ہی ترکی میں گزشتہ برس موسم گرما میں کی گئی انقرہ حکومت
کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے اصل محرک تھے۔افغانستان سے امریکی فوجیوں کے
مکمل انخلا ء کی وعدہ خلافی کرکے مزیدچار ہزار امریکی فوجی افغانستان میں
بھیجے جا رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے عسکری تنظیموں کا
جواز بنا کر پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا اور پاکستان کے خلاف
سخت کاروائی کی براہ راست دہمکی دے ڈالی۔اب روہنگیا میں مسلمانوں پر ہونے
والے مظالم پر عالمی عسکریت پسندتنظیموں نے جارحانہ بیانات دیکر یہ عندیہ
دیا ہے کہ برما کے خلاف سخت اقدام اٹھایا جائے گا۔ خدشہ یہی ظاہر کیا جارہا
ہے کہ امریکہ،چین کو دو اطراف سے گھیرنے کیلئے افغانستان کے بعد برما میں
اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ یعنی ایک طرف افغانستان اور دوسری
طرف برما سے۔دنیا بھر میں ہونے والی خانہ جنگیوں اور متعدد ممالک کو غیر
مستحکم رکھنے میں امریکی پالیسیوں کا عمل دخل اور مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی
نہیں رہی ہے۔امریکا۔شمالی کوریا تنازعہ محض بیانات کی حد تک رہتا ہے یا پھر
اس سے آگے بڑھتا ہے اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوئی سخت
فیصلہ لینے کی پوزیشن میں اس لئے نہیں ہے کیونکہ فی الحال امریکہ یہ نہیں
چاہتا کہ شمالی کوریا کے خلاف جنگ میں امریکا پہل کرے، کیونکہ چین واضح طور
پر کہہ چکا ہے کہ اگر امریکہ نے شمالی کوریا پر حملے میں پہل کی تو چین
شمالی کوریا کا ساتھ دے گا۔امریکا ایک شاطر لومڑی کی طرح چین کو چہار اطراف
سے گھیرنے میں مصروف ہے۔ شمالی کوریا کے خلاف آڑ لیکر جنوبی کوریا میں
امریکی میزائل شکن نظام '' تھاڈ''نصب کردیا۔ جس سے خود جنوبی کوریا کی عوام
میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور امریکی اقدام کے خلاف مظاہرے کئے گئے روس نے
بھی اس پر احتجاج کیا۔ جنوبی کوریا کے ساتھ ملکر امریکہ نے جنگی مشقیں بھی
شروع کیں۔ تھاڈ نظام کی تنصیب پر چین کو کہنا پڑا کہ'' جنوبی کوریا اور
امریکا خطے میں اشتعال انگیزی سے باز رہیں ''۔ کیونکہ اس سسٹم کی وجہ سے
چین پر بھی نظر رکھی جا سکتی ہے اور اس علاقائی سلامتی کا توازن بگڑ سکتا
ہے۔ دوسری جانب بھارت کو پاکستان میں سی پیک منصوبے کے خلاف سازشوں کا
ٹھیکہ امریکہ نے دیا ہوا ہے تو دیگر سہولت کاری کا ٹھیکہ افغانستان نے لے
رکھا ہے جو پاکستان کے خلاف تمام سازشی مہروں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم
کررہا ہے۔ جدیدترین ٹیکنالوجی کے حامل امریکہ کو پاکستان میں دہشت گردی
کرنے والے عناصر نظر نہیں آرہے، ایسا لگتا ہے کہ صرف بھارت میں حریت پسندوں
کو خطے کے لئے خطرہ قرار دیکر دہشت گرد ڈکلیئر کررہا ہے۔ یعنی مقبوضہ
کشمیرکے مسئلے کے حل کے بجائے بھارت کو شہ دی جا رہی ہے کہ وہ امریکہ کی
طرح عسکری تنظیموں کی موجودگی کا سہارا لیکر پاکستان کے خلاف عسکری کاروائی
کرے۔لیکن امریکا اس ٹڈی دَل فوج کو امریکی فوج کی طرح سر تا پیر مسلح تو
کرسکتا ہے لیکن ان میں جرات کہاں سے پیدا کرے گا۔امریکہ اور عالمی عسکریت
پسند تنظیموں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے اور تشدد کے لئے امریکہ کی جانب
سے غیر روایتی ہتھیاروں کا استعمال اور کرایئے کے فوجیوں سمیت ٹارگٹ کلرز
کی سینڈیکٹ کو استعمال کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی ہے۔امریکا اپنی
مذموم مقاصد اور مخصوص مفادات کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے، امریکہ کی خون ریز
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اُس نے ہمیشہ پہلے سازشیں رچی ہیں اور پھر ان
سازشوں کو جواز بنا کر اقوام متحدہ کو گمراہ کیا ہے اور اقوام متحدہ پر
ڈکٹیٹر شپ کی حامل قوتیں سلامتی کونسل کے نام پر امریکی مفادات کا تحفظ
کرتی ہیں۔ روس، چین امریکی مفادات کی کھل کر مخالفت (ویٹو) نہیں کرسکتے
کیونکہ پوری اقوام متحدہ کی عالمی تنظیم کو امریکہ نے غلام بنا رکھا ہے۔
سلامتی کونسل کی مستقل اراکین میں ایک بھی مسلم ملک ویٹو پاور نہیں رکھتا
اور پانچ مستقل اراکین میں ایک بھی مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ مسلم ممالک کی
تنظیم او آئی سی کا کردار کاغذی اور صرف بیانات کی حد تک ہے اور وہ بھی اگر
امریکا کے مفادات سے متصادم نہ ہوں۔ ان تمام حالات میں اب اظہاریہ کے پہلے
پیرایئے پر غور کیجئے کہ 1965میں ریلیز ہونے والا فلمی گیت امریکا پر کتنا
صادق بیٹھتا ہے کہ جہاں میں (عسکری تنظیمیں) جاتی ہو ں وہیں چلے آتے
ہو،چوری چوری مرے دل(مخالف ملک) میں سماتے ہو،یہ تو بتاؤ کہ تم میرے کون
ہو؟۔تو اس کا آسان جواب سب کو معلوم ہے کہ امریکا عسکری تنظیموں کا گاڈ
فادرہے۔ جو امریکی مفادات کے لئے جارحیت کا راستہ ہموار کرتی ہیں، کبھی
جمہوریت کے نام پر، کبھی آمریت، کبھی انتہا پسندی تو کبھی دفاعی معاہدوں کے
نام پر۔۔۔َََ |