لاہور این اے 120کے انتخابی معرکہ میں کامیابی کے بعد
مریم نواز کا خطاب اتنا ہی دھواں دھار ہونے کا امکان تھا جتنا عوام نے
دیکھا اور سنا اس روز جب مریم نواز کا جوش خطابت اپنے عروج پر تھا اور
کارکنان گلے پھاڑ پھاڑ کر وزیر اعظم نواز شریف کے نعرے لگارہے تھے تو
یقیناًبنی گالہ کے مکین تلملا رہے ہونگے نوازشریف کی بیٹی نے طنز کے نشتر
اپنے مد مقابل پر تو چلائے ہی مگر وہ اپنی فتح ان دیکھی قوتوں کیخلاف فتح
قرار دینے کو ترجیح دیتی رہیں ۔
اس انتخابی معرکے میں مسلم لیگ(ن) کو ملنے والے ووٹوں کا تناسب سابقہ
انتخابات سے کم تھا تاہم حکمران جماعت ان دنوں جس اندرونی و بیرونی خلفشار
کا شکار ہے اس کو مد نظر رکھا جائے تو یہ کامیابی بھی کچھ زیادہ بری نہیں
ہے ۔ اس فتح پر شاد ہونے کا سب سے زیادہ حق بھی مریم نواز کا ہی تھا کیونکہ
انہوں نے مہم جوئی کا جو راستہ اختیار کیا تھا اس کے بعد کامیابی زیادہ
آسان نہیں تھی ۔
این اے 120کے انتخابات نے میاں فیملی کے اندرونی اختلافات کی افواہوں کو
اکسیجن دی شہباز شریف کی پراسرار خاموشی اور لاتعلقی دال میں کچھ کالا کا
اشارہ دے رہی ہے ۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ اختلافات مہم جوئی اور مصلحت کے
حوالہ سے ہیں ، شہباز شریف چوہدری نثار کے ہمنوا ہیں اور یہ گروپ کسی محاذ
آرائی کے حق میں نہیں ہے شنید یہ ہے کہ اکثریتی اراکین اسمبلی کی خاموش
حمایت بھی اس گروپ کو حاصل ہے لیکن مریم نواز وزیر اعظم کے گھر بھجوانے کے
فیصلہ کو نا انصافی قرار دیتے ہوئے مہم جوئی کی خواہش مند ہیں اور تاحال
میدان ان ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
این اے 120 کے معرکہ کو مریم نواز کی سیاست میں باضابطہ انٹری بھی قرار دیا
جارہا ہے ۔ پارٹی کے اندرونی حلقے جو آج تک مریم نواز کو ، غیر سیاسی،اور
ناسمجھ گردانتے رہے اصل پریشانی ان کیلئے ہے کیونکہ تمام اداروں کو ، کوڈی
کوڈی ، کرنے والی مریم نواز کا لب و لہجہ بتارہا ہے کہ کہانی این اے 120 کی
گلیوں میں ختم نہیں ہوگئی بلکہ اصل کہانی تو اب شروع ہورہی ہے ۔
مجھے اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مریم نواز مسلم لیگ (ن) کی قیادت
سنبھالنے کیلئے پرتول رہی ہیں۔
کھٹن اور مشکل حالات میں ایک قابل ذکر کامیابی نے ان کے جوش و خروش کو
یقیناًجلابخشی ہوگی تاہم میاں خاندان کے اندرونی اختلافات میں اب مزید تلخی
گھلنے جارہی ہے آنے والے چند روز میں شاید مصنوعی لگاوٹ بھی دم توڑدے ۔
پہلے ہی مصائب کے شکار اس خاندان میں اگررخنہ پڑگیا تو پنجاب کی سیاست میں
بھونچال آجائے گا۔
این اے 120 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کے احسن انتظامات کا تمام مبصرین
نے اقرار کیا ہے اب جبکہ عام انتخابات کی آمد آمد ہے یہ اشد ضروری ہے کہ
شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے قابل ذکر اقدامات اٹھا ئے
جائیں تاکہ ماضی کے نا خوش گوار تجربات کے مطابق قوم کو بعد از انتخاب
دھاندلی کی صداؤں پر ایک نئے انتشار کا شکار نہ ہونا پڑے ۔ اس انتخاب کو
مانیٹرنگ کرنے والی سماجی تنظمیوں میں سے ایک اہم تنظیم سی پی ڈی آئی نے
مجموعی طور پر انتخاب کو انتہائی شفاف قراردیا ہے اس تنظیم نے الیکشن کمیشن
کے عملے اور پاکستان آرمی کے جوانوں کے کردار کوسراہا ہے تاہم جن معمولی
کوتاہیوں کی نشاندہی کی گئی ان کا تدارک کرکے مستقبل میں انتخابی عمل کو
مزید مثالی بنایا جاسکتا ہے ۔
یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ این اے 120 کا اعصاب شکن معرکہ نوازشریف کی مہم جو
بیٹی نے جیت لیا اب ان کی مزید پیش قدمی کیا ہوگی ؟
یہ وہ سوال ہے جس کی گونج اس وقت ہر سیاسی حلقے میں سنائی دے رہی ہے اگر ان
کا اگلا ہدف پارٹی صدارت ہوئی تو کل تک ان کو ناسمجھ قرار دینے والوں کے
ہوش ٹھکانے آجائیں گے ۔ |