روہنگیا مسلمانوں کا بہیمانہ قتل عام رک نہ سکا…… پاکستان میں شدید غم و غصہ، عوام سراپا احتجاج

میانمار کے مسلم اکثریتی صوبہ راکھین میں برما کی فوج اور حکومت کی جانب سے مسلمانوں پر ہونے والے بدترین مظالم کی وجہ سے دنیا بھر میں سینے میں انسانوں کا دل رکھنے والا ہر انسان کی آنکھیں اشک بار اور دل رنجیدہ ہے۔ ان پر ٹوٹنے والی قیامت کے تصور ہی سے دل کانپ اٹھتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔برما کے صوبے راکھین میں مجبور و بے کس مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ بے یار و مددگار انسانوں کی لاشیں جل رہی ہیں۔ خواتین کی عصمت دری کرکے ان کی برہنہ لاشوں کو درختوں کے ساتھ لٹکایا جارہا ہے۔ بچوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں گدھوں کے کھانے کے لیے پھینکا جارہا ہے۔ جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو ایک خندق میں جمع کرکے ان کے اوپر بلڈوزر چلوا کر انہیں زندہ دفن کیا جارہا ہے۔ بے بس و لاچار مسلمانوں کو زندہ جلا دیا جارہا ہے۔ میانمار کی درندہ فوج سے جان بچا کر روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرچکی ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں میانمار سے ہجرت کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ 64 ہزار ہوچکی ہے، جو کہ بنگلا دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ اکتوبر سے اب تک ڈھائی لاکھ سے زاید روہنگیا مسلمان بنگلا دیش منتقل ہوچکے ہیں۔ اکتوبر سے لے کر 25 اگست کے درمیان تقریباً 87 ہزار پناہ گزین بنگلا دیش منتقل ہوئے تھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق 25اگست سے لے کر 30اگست تک صرف 5دنوں میں 2100 قصبے مسلمانوں کے وجود کے ساتھ نذر آتش کردیے گئے۔ 1500 عورتوں کی عصمت ریزی کرکے انہیں فوجیوں میں تقسیم کردیا گیا۔ چلتے پھرتے انسانوں کو باندھ کر ان کے مختلف اعضاء کاٹے جارہے ہیں۔ ایک لاکھ انسان جنگلوں میں درندوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ ایک لاکھ افراد نازک حالت میں ہیں جن کو ابتدائی طبی سہولیات سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ ایک سو کلو میٹر پر آباد سارا علاقہ صفحہ ہستی سے مٹادیاگیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گٹرس نے میانمار کو خبردار کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا سلسلہ جاری رہا تو پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ اینٹونیو گٹرس نے کہا کہ میانمار حکومت فوری طور پر روہنگیا مسلمانوں کو یا تو شہریت دے یا انہیں قانونی حیثیت دے تاکہ وہ آزاد زندگی گزار سکیں۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے، لیکن مظالم کے اس کربناک المیے کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ حقوق انسانی کی علمبردار ساری تنظیمیں بے بس نظر آرہی ہیں۔ عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کاسلسلہ برسوں سے جاری ہے اور اب اس میں ایک بار پھر شدت آ گئی ہے۔ لاکھوں روہنگیا برما سے ہجرت کرکے دیگر مسلمان ملکوں میں پناہ گزین ہوچکے ہیں۔ 2013ء میں اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی ان قوموں میں شمار کیا تھا، جن کی سب سے زیادہ نسل کشی کی جا رہی ہے اور روہنگیا کو دنیا کی مظلوم ترین قوم قرار دیا تھا۔ 1982ء میں روہنگیا مسلمانوں کی بھاری اکثریت کو برما کی شہریت سے بھی محروم کر دیا گیا تھا۔ اس سارے معاملے کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں اس مسئلے کو مسلمانوں کا مسئلہ توکہا جا رہا ہے، لیکن اسے حل کرانے کے لیے عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ برمی حکومت کے ساتھ سفارتی سطح پر جس انداز میں بات کرنے کی ضرورت ہے، وہ نہیں کی جا رہی۔ دیگر مسلم ممالک میں بھی اخبارات کی حد تک شاید اس مسئلے کا ذکر ہو رہا ہو، لیکن حکومتی سطح پر خاموشی ہے۔

برمی درندوں کے ہاتھوں مسلمانوں پر تاریخ انسانیت کے ہونے والے بدترین مظالم کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امت مسلمہ کے تمام حکمران ایک اجلاس بلاتے، جس میں فوری طور پر روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکواتے اور ان کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور الگ ریاست کی راہ ہموار کرتے، لیکن چند ایک کے سوا تقریبا تمام مسلم ممالک کے حکمران انتہائی پھسپھسے بیانات دے کر خود کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں۔ چند مسلم ممالک نے سرکاری سطح پر اپنی حیثیت کے مطابق اپنا کردار ادا کیا۔ انڈونیشیا نے اہم کردار ادا کیا، جس کے وزیر اعظم آنگ سان سوچی اور بنگلا دیش وزیر خارجہ سے ملاقات کرچکے ہیں۔ ملائیشیا نے برما کے سفیر بلا کر احتجاج کیا ہے۔ چیچنیا میں حکومت کی سرپرستی میں لاکھوں افراد نے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ کئی دن بعد او آئی سی کی بھی آنکھ کھلی تو اس نے بھی برما میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی مذمت کی ہے۔ مالدیپ نے میانمار سے تجارتی تعلقات منقطع کردیے۔ ترک حکومت نے بنگلا دیش سے کہا ہے کہ اگر وہ اپنی سرحد کو روہنگیا کے مسلمان مہاجرین کے لیے کھول دے تو ترکی کا دارالحکومت انقرہ مہاجرین کے تمام اخراجات برداشت کرے گا اور اس کے ساتھ ہی ترکی صدر طیب اردوان کی اہلیہ بنگلادیش میں روہنگیا مہاجرین کے تعاون کے لیے پہنچ گئی ہیں اور ان کی امداد کر رہی ہیں۔روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے سب سے اہم کردار ترکی کے صدر طیب اردوان نے ادا کیا۔ اسلام آباد میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی صدارت میں وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر مذمت قرار داد منظور کی گئی۔ قرار داد میں کہا گیا کہ پاکستان روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتا ہے۔ میانمار میں براہ راست ریاستی اداروں کی سرپرستی میں خواتین و بچوں سمیت بے گناہ روہنگیا مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ نہتے شہریوں کے خلاف سفاکانہ اقدامات نہ صرف ریاستی دہشت گردی کے مترادف ہیں، بلکہ دنیا بھر کی قوموں اور برادریوں کے ضمیر پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ قرار داد میں نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ میانمار میں ہونے والے ظلم و زیادتیوں کے سلسلے کو فوری طور پر رکوائیں، کیوں کہ ملک میں ان کی سیاسی جماعت کی حکومت ہے۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے آگے بڑھ کر ٹھوس اقدامات کرے۔

دوسری جانب پاکستان میں بھی ہر انسان بہت اداس ہے۔ پاکستان کی تقریباً ہر سیاسی، مذہبی، صحافتی، سماجی، تعلیمی، کاروباری سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام شخصیات نے روہنگیا مسلمانوں پر گہرے دکھ کا اظہار کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ترکی حکومت کے ساتھ مل کر برما میں دہشتگرد فوج اور حکومت کو لگام دی جائے اور مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوائے جائیں۔ ان دنوں ملک بھر میں گھر گھر میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم ہی موضوع بحث ہیں، لوگ مختلف طریقوں سے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ملک بھر میں ان مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف مختلف شہروں میں دینی و سیاسی جماعتوں اور وکلا نے احتجاجی مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔ برما میں مسلمانوں پر مظالم اور نسل کشی کے خلاف مختلف مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے زیر اہتمام جمعتہ المبارک کو ملک بھر میں یوم احتجاج منایا گیا۔ نماز جمعہ کے اجتماعات میں مذمتی تقریریں کرنے کے ساتھ ساتھ قرار دادیں بھی پاس کی گئیں، جبکہ بعد ازاں ریلیاں نکالی گئیں اور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ جمعیت علمائے اسلام برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف 8 تا 15 ستمبر سے ہفتہ احتجاج منارہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام صوبہ خیبر پختونخوا کے قائم مقام امیر مفتی کفایت اﷲ نے صوبہ بھر کی تمام ضلعی اور ذیلی تنظیموں کو ہدایت کی ہے کہ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے حکم پر برما میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف 8 تا 15 ستمبر ہفتہ احتجاج منائیں۔ اہلسنت والجماعت پاکستان کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی کی ہدایت پر اہلسنت والجماعت نے جمعہ کو ملک بھر میں برما میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف یوم احتجاج منایا اور مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں۔ جمعیت علماء اسلام نظریاتی نے روہنگیا مسلمانوں پر برمی حکومت کے ظلم و بربریت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی تحریک چلانے اور آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی اور عوامی تحریک نے بھی ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ عوامی تحریک اور تحریک منہاج القران کے زیر اہتمام جمعہ کو 3بجے پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ جماعت اسلامی نے امیر جماعت سراج الحق کی زیر قیادت اسلام آباد میں احتجاجی مارچ کیا۔ سراج الحق نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ ختم ہونے تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ سنی تحریک نے بھی لاہور پریس کلب کے باہر احتجاجی ظاہری کیا۔ پشاور سمیت کے پی کے کے متعدد شہروں میں خیبرپختونخوا کی کال پر ہڑتال کی گئی۔ لاہور میں دفاع پاکستان کونسل، جماعۃالدعوۃ اور ملی مسلم لیگ نے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف چوبرجی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ میانمار سے سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں اور وہاں سے اپنے سفیر کو واپس بلایا جائے۔ میانمار کی فوج اور بدھسٹ دہشت گرد مظالم سے باز نہیں آتے تو پاکستان، ترکی اور دیگر مسلم ممالک اپنی فوج وہاں داخل کریں۔ تحریک لبیک یا رسول اﷲ کے زیر اہتمام داتا دربار سے پنجاب اسمبلی تک مارچ کیا گیا۔ مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی اور تحریک لبیک یا رسول اﷲ کے سرپرست اعلیٰ پیرافضل قادری نے کہا کہ فساد، دہشت گردی اور ظلم وستم کا واحد علاج جہاد فی سبیل اﷲ ہے۔ لاہور میں وکلا نے ہائیکورٹ سمیت ماتحت عدالتوں میں ہڑتال کی اور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اسلام آباد میں وکلا نے عدالت عظمیٰ سے پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجی ریلی نکالی، جبکہ 11ستمبرکو روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف بڑے احتجاج کی کال دی۔ راولپنڈی ہائیکورٹ اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز نے بھی مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف مکمل ہڑتال کی اور بطور سوگ عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور 9 ستمبر کو اسلام آباد میں برما کے سفارتخانہ کے سامنے مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔ خیبر پختونخوا بار کونسل نے میانمار میں قتل عام کے خلاف پورے صوبے میں عدالتی بائیکاٹ کا اعلا ن کیا۔ کراچی کی صحافی برادری کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور اقوام متحدہ کی خاموشی کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ، مظاہرے میں کراچی یونین آف جرنلٹس کے تمام دھڑوں ،کراچی پریس کلب ، فیڈرل یونین آف جرنلٹس، پاکستان ایسوسی ایشن آف پریس فوٹوگرافرز، سیاسی جماعتوں ، تاجر برادری ، بنگالی ایکشن کمیٹی، برمی برادری، رائس ایکسپورٹ ایسوسی ایشن اور ہندو برادری کے رہنماں نے شرکت کی۔ حیدرآباد میں بھی مختلف سیاسی، سماجی تنظیموں اور وکلا نے احتجاج کیا۔ آزاد جموں و کشمیر بھر کی بار کونسلز نے ہڑتال اور عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ قصور میں پاکستان فلاح پارٹی نے اظہارِ یکجہتی میانمار مسلم ریلی نکالی، جس میں کارکنان اور شہریوں نے بھرپور شرکت کی۔ اوکاڑہ میں بھی پاکستان فلاح پارٹی نے جامع مسجد سے پریس کلب تک ریلی نکالی۔ اندرون سندھ مختلف شہروں میں برما میں روہنگیا مسلمانوں پر برمی فوج اور ملیشیا کے ظلم وستم اور قتل عام کے خلاف سیاسی و سماجی تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ حیدرآباد یونین آف جرنلسٹس (دستور) نے برما میں روہنگیا کے مسلمانوں پر برمی فوج اور ملیشیا کے ظلم وستم اور قتل عام کے خلاف پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں صحافیوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ بار نے بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف ریلی نکالی اور برما کی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ برما میں مسلمانوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف کشمیری بچے اور جوان بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ مسلمانوں کو تحفظ دینے کا انتظام کرے۔ کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں کئی احتجاجی مظاہرے سوشل میڈیا پر متحرک افراد کی جانب سے منعقد کیے گئے، جن میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تقریباًتمام مظاہروں میں شرکا نے برمی سفیر کو ملک بدر کرنے اور اپنے سفیر واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔شرکا کا کہنا تھا کہ پاکستان حکومت برما سے تمام تعلقات منقطع کرکے ترکی کے ساتھ مل کر جلد از جلد روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوائے۔ اگر ضرورت پڑے تو مسلم ممالک کے ساتھ مل کر برما میں اپنی فوجیں داخل کردینی چاہیے۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.