لاہور کے حلقہ 120میں جس طرح انتخابی مہم مریم نواز
شریف نے اپنے والدین کی غیر موجودگی میں چلا کر اپنی والدہ کو جتوایا اس کی
مثال پاکستان ستر سالہ تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔اس سیاست کی نئی کھلاڑی نے
ایک بہت ہی گھاگھ خاتون سیاست دان کو جس طرح چاروں خانے چیت کیا ہے وہ صرف
مریم نواز کا ہی کارنامہ ہے۔اس سے قبل 2013 کے انتخابی دنگل میں ان کے چچا
کے صاحب زاردے اور دیگر لیگی رہنما ؤں کی مشترکہ کوششوں سے انتخابی معرکہ
سر کیا گیا تھا۔مگر اس مرتبہ مریم نواز ا کیلی ہی اپنی ولدہ کی انتخابی مہم
چلاتی ہوئی دیکھی گئیں اور طاقتو اداروں کی سر توڑ کوششوں کے باوجود وہ
اپنے مشن میں سو فیصدی کامیاب رہیں۔کامیابی سچائی اور ثابت قدمی سے ہی حاصل
کی جا سکتی ہے۔جھوٹ ، گالی گلوج اور الزامات پر کامیابی طاقتور اداروں کی
تو مر ہونِ منت ہوسکتی ہے مگر حقیقی کامیابی ایسے لوگوں کا مقدر نہیں ہوا
کرتی ہے۔اس بے مثال کامیابی پر ہم اور تمام حقائق سے با خبر پاکستانی
محترمہ مریم نوز کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔مبصرین کا خیال ہے کہ مریم
نواز کو اپنے والد کی سیاسی وارث اور پارٹی کی ابھرتی ہوئی قائد کے طور پر
دیکھا جا سکتا ہے۔اس الیکشن کے حوالے سے جاپانی جریدہ ایشین ریویوبھی یہ ہی
بات لکھتا ہے کہ اپنی والدہ کی انتخابی مہم میں مریم نواز کا کردار اپنے
والد کی وارث کے طور پر سامنے آیا ہے اس طرح ناقدین کی سخت تنقید کے
باوجودمریم نواز نے بھی اس انتخاب کے بعد اپنی سیاسی حیثیت کو منوالیا
ہے۔گوکہ ان کا لہجہ طاقتوروں کے بارے میں کچھ سخت ہے۔
اس ملک کی بد قسمتی یہ ہی رہی ہے کہ ڈنڈا بر دار جب چاہتے ہیں ملک کے چیف
ایگزیکٹیوز کو اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جب وہ ان کے
اشاروں پر چلنے سے انکار کرتے ہیں ان کے اقتدار کے دن اپنی طاقت کے بل پر
کم کر دیتے یا کرادیتے ہیں۔نواز شریف نے گذشتہ ادوار میں تین مرتبہ اپنی
حیثیت منوانے کی کوشش کی اور تینوں مرتبہ انہیں اقتدار کی سبکدوشی کا منہ
دیکھنا پڑ گیا۔اس مرتبہ کی سبکدوشی میں زمینی فرشتوں کا بھی اہم کردار
تھا۔کیونکہ آج اقتدار پر شب خون مارنا طاقتور لوگوں کے لئے ترکی میں مارے
گئے شب خون کی ناکامی کے پیش ِنظر ماضی کی طرح سہیل نہیں رہا ہے۔نواز شریف
ماضی کے چیف آف آرمی اسٹاف کو لالی پوپ دے دے کر چلاتے رہے۔موجودہ چیف آف
آرمی اسٹاف کے بارے میں لوگوں کا یہ تاثر رہا کہ کچھ بہتر ہیں ۔ایک اخباری
نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل قمر جاویدباجوہ کا کہنا تھا کہ ہمارا
پاناما کیس سے کوئی تعلق نہیں ،لوگ جو اندازے لگاتے ہیں لگاتے رہیں۔پاناما
کا معاملہ عدالتیں ہی چلا رہی ہیں۔سول ملٹری تعلقات میں کوئی تناؤ
نہیں۔سابق وزیر اعظم سے بھی اچھے تعلقات تھے؟موجودہ سے بھی ہیں۔چیف آف آرمی
اٹاف جنرلقمر باجوہ نے نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کو کلثوم نواز کی جیت
کی مبارک بادی ہے۔یہاں جنرل باجوہ کی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جیتی
نواز شریف کی بیگم ہیں اور چیف آف آرمی اسٹاف مبارک باد شہباز شریف کو دے
رہے ہیں!ان کے اس جملے سے اندر کی کچھ خبر ملتی ہے۔ ان کی اس بات کی ایک
معزز کالم نگار نے ان الفاظ میں نفی کی ہے ’’جنرل صاحب کی خدمت میں مودبانہ
گزارش،2014 سے آج تک کے حالات و واقعات جناب کی بات کی نفی کرتے ہیں ۔زمینی
حقائق ،لاہور کا الیکشن،JITتفتیش کے دوران،انہوں نے واقعات بعد از
اں،JITرپورٹ ایک چیز بھی ایسی نہیں جو تشفی کر پائے کہ نادیدہ ہاتھ روبہ
عمل نہیں رہے‘‘
لڑائی سیاست دانوں کی کرپشن کی نہیں ،پاکستانی عوام کی آئینی بالا دستی ،
آیئنی استحقاق،جمہوریت، آئینی شفافیت اور منصفانہ آئینی انتقال اقتدار کی
ہے۔اس حوالے سے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز لکھتا ہے ،لاہور کے حلقے 120کا
انتخاب اسٹابلشمنٹ کے کردارکے خلاف ریفرنڈم تھا۔اس حوالے سے برطانوی اخبار
فنانشیل ٹائمز لکھتا ہے کہ نواز شریف کے مخالفین نے جولائی کے سُپریم کورٹ
کے فیصلے کے بعد یہ توقع لگائی ہوئی تھی کہ ان کی نااہلی کے بعد ؛پنجاب اور
قومی سطح پر ان کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔مگر ان کی امیدیں خاک میں مل
گئیں۔امریکی اخبار نیو یاک ٹائمزلکھتا ہے۔نواز شریف کے حامیوں نے انتخاب
جیتا۔تو لوگوں نے اس انتخاب کو نواز شریف پر ریفرنڈم کے طور پر دیکھا
ہے۔جنہیں سُپریم کورٹ نے نا اہل قرار دے کر مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا
تھا۔اگر کلثوم نواز اس نششت پر ہار جاتیں تو شریف خاندان کی سیاسی موت واقع
ہو جاتی۔ جس سے مخالفین کے دعوے کو تقویت پہنچتی کہ عوام نے عدلیہ کے فیصلے
کا ساتھ دیا۔لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور کلثوم نواز کامیاب
ہوگئیں۔حقیقت یہ ہے کہ طاقتور اسٹابلشمنٹکا زور عمران خان کی حمایت کی طرف
تھا۔شریف خاندان کے خلاف ایک مضبوط میڈیا مہم بھی چلائی گئی مگر اس کے
باوجود ان کے کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔اور معزول وزیرِ اعظم کو ایک تاریخی
کامیابی حاصل ہوگئی۔وزارت عظمیٰ سے معزول کئے جانے کے باوجود نواز شریف
پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان ہیں ۔بعض تجزیہ کاروں کا بھی یہ کہنا ہے
کہ پاناما اسکینڈل کی ہائپ کے باوجود نواز شریف طاقتور اسٹابلشمنٹ کا شکار
بنا دیئے گئے۔جو پاکستان کی تاریخ میں طویل مداخلت کار رہی ہے۔ انگلینڈ کا
اخبار گار جین اس حوالے سے لکھتا ہے کہ طاقتور ادارے کی طرف سے مبصرین کو
پولنگ اسٹیشنوں میں داخل نہ ہونے دینے کی شکایات نے انتخابی عمل پر منفی
اثرات مرتب کئے ۔جس سے یہ تاثر پختہ ہوتا ہے کہ حلقہ 120پر ن لیگ کی
کامیابی نے کئی راز بھی فاش کر دیئے۔ |