اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72یں اجلاس میں پاکستان کے
وزیر اعظم نے دنیا کے سامنے اپنا دو ٹوک مؤقف پیش کیا۔انہوں نے پوری دنیا
پہ واضح کر دیا کہ اب پاکستان قربانی کا بکرا نہیں بنے گا اور انہوں نے
مزید کہا کہ بھارت کی بالا دستی خطے میں قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ
وہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن اس سے پہلے بھارت کو اپنے
رویوں میں تبدیلی لانی ہو گی۔جس دن پوری دنیا میں امن کا دن منایا جا رہا
تھا اسی دن بھارت نے ایل او سی پر فائرنگ کر کے معصوم اور بے گناہ پاکستانی
شہریوں کا خون بہایا ۔پاکستان نے بھی بھارت کی اس جارحیت کا ڈٹ کا مقا بلہ
کیا اور اس کی پوسٹوں کو تباہ کر دیا۔پاکستان کا واضح مؤقف ہے کہ بھارت کی
طرف سے ذرا سی مہم جوئی کو بھی جنگ تصور کیا جائے گا اور اسے اس کا بھر پور
جواب دیا جائے گا ۔بھارت کو چایئے کہ ان حرکتوں سے باز رہے ورنہ اس کے لئے
کئی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔یہ مختصر جنگ انتہائی خطرناک جنگ میں تبدیل ہو
سکتی ہے ۔
جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے تب سے ہی بھارت ہمارا ازلی دشمن بن
بیٹھا ہے اور کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا کسی نہ کسی طرح پاکستان کو
نقصان پہنچانے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہے۔بھارت پاکستان میں نہ صرف دہشت
گردی کو ہوا دیتا ہے بلکہ دہشت گردوں کی پشت پناہی بھی کرتا ہے۔بھارت نے
ایل او سی پر جو محاذ کھول رکھا ہے اس سے پاکستان شہری نشانہ بن رہے ہیں ۔اقوام
متحدہ کو چاہیئے کہ بھارت کو ایسی حرکتیں کرنے سے باز رکھے ورنہ یہ آگ پھیل
بھی سکتی ہے اور اس کئی دوسرے ممالک بھی متاثر ہوں گے ۔دنیا کے امن کے لئے
ضروری ہے کہ مذاکرات کا ارستہ اپنایا جائے یہ دور جنگوں کا دور نہیں ہے۔اس
بات کو بھارت بھی اچھی طرح سمجھتا ہیاس لئے وہ کوئی ایسی بے وقوفی نہ کرے
جس سے بعد میں اسے پچھتانا پڑے۔
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ افغانستان کا فوجی حل نہیں ہے بلکہ اس کو مذاکرات
کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے ۔یہ ان کی بات بالکل سچ ہے کہ کب سے امریکہ
کی فوجیں افغانستان میں طالبان سے جنگ میں مصروف عمل ہیں او ر ابھی تک
طالبان سے قبضہ شدہ علاقے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں بلکہ افغانستان
کے زیادہ تر علاقوں پر طالبان کا ہی قبضہ ہے ۔وزیر اعظم کے مطابق طالبان سے
مذاکرات ہی ایک بہتر حل ہے۔یہی طالبان پاکستان میں بھی دہشت گردی کروا رہے
ہیں اور انہی دہشت گردوں کی بھارت بھی پشت پناہی کرتا ہے اور اگر بھارت کو
افغانستان میں کھلی چھٹی مل گئی تو یہ پاکستان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو
گا۔کیونکہ بھارت وہاں بیٹھ کر پاکستان مخالف مہم چلائے گا۔اس لئے پاکستان
نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی بالا دستی قبول
نہیں ہے۔
اگردیکھا جائے تو پاکستان اس خطے کا اہم ملک ہے اور اس کے بغیر افغانستان
میں امن لانا مشکل ہو گا۔اور پر امن افغانستان ہی پاکستان کی سلامتی کا
ضامن ہے۔لیکن بھارت کے وہاں ہوتے ہوئے یہ سب ممکن نظر نہیں آتا۔وزیر اعظم
نے مزید کہا کہ امریکہ کو بھی چاہیئے کہ دونوں ممالک کے ساتھ ایک جیسا
برتاؤ کرے ۔وزیر اعظم نے اپنا مؤقف دنیا کے سامنے بہتر انداز میں پیش کیا
اور کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نبرد آزما ہیں اور کامیاب ہوئے
ہیں اب تک دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے 70 ہزار فوجی جوان اور شہری شہید
ہو چکے ہیں۔
کیا دنیا کو یہ نظر نہیں آتا ؟کیا امریکہ یہ نہیں جانتا؟سب کو نظر آتا ہے
لیکن اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔سب سے زیادہ جانیں گنوانے کے بعد بھی
ہمیں ـ"ڈو مور" کہنے والوں کو شرم نہیں آتی؟امریکہ کو ڈومور کہنے کی بجائے
جنگ کے خلاف پاکستان کی تعریف کرنی چایئے اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا
چاہیئے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات پر حرف آئے۔
وزیر اعظم نے کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بھی اپنا مؤقف دہرایا ،کشمیرکا
پر امن حل نکلنا چاہیئے ،اس کے لئے اقوام متحدہ اپنا ایک نمائیندہ مقرر کرے
،کشمیر کی بین الاقوامی تحقیقات کی جانی چاہیئے۔انہوں نے مزید کہا کہ
کشمیری راہنماؤں کو رہا کیا جائے اور کشمیریوں کے حقوق سلب نہ کئے جائیں۔جب
تک عالمی برادری بھارت پر دباؤ نہیں بڑھائے گی تب تک کشمیریوں پر یہ ظلم
جاری رہے گا لیکن ٓخرکب تک ۔۔۔؟
آخر ایک دن ظلم کے یہ بادل چھٹ جائیں گے اور کشمیری قوم ضرور اپنے ارادوں
میں کامیاب ہو گی ایک دن ان کی آزادی کا سورج ضرور طلوع ہو گا۔اور وہ دن
دور نہیں ہے یقیناً بہت قریب ہے ،بھارت کو اب تک سمجھ لینا چاہیئے کہ جس
قوم کو وہ کئی دہائیوں سے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہا ہے وہ ابھی تک اپنی
جدو جہد کے لئے قربانیاں دیتے جا رہے ہیں اور جب تک آزادی نہیں ملتی دیتے
رہیں گے ،آزادی ان کا مقدر ہے اور وہ ان کو مل کر رہے گی ۔انشااﷲ |