مملکت خداداد پاکستان کو اتنا قانون اور آئین کے تحت نہیں
چلایاگیا۔جتنا نظریہ ضرورت کے تحت کام لیاگیا۔ہرعشرہ کسی نہ کسی نئی ضرورت
کی بنیا درکھتا چلا گیا، یہ ضرورت کسی نہ کسی قانون سے متصادم رہی یا پھر
کسی آئینی شقکے خلاف نتیجہ یہی ہواکہ یا تو قانون اور آئین کو معطل کرنا پڑ
ا ۔یا پھر یہ ضرورت کسی اور نام پر پوری کرلی گئی۔ایسا طریقہ اختیارکیا
گیا۔کہ کام بھی ہوجائے۔او ر کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہو۔ڈر یہ تھاکہ
اگر معاملات عام ہوئے تو جواز کا مسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔جس کی دستیابی آسان
نہ تھی۔نوستاروں پر مشتمل قومی اتحاد بھی ایسے ہی معاملات کے سبب تشکیل دیا
گیا تھا۔یہ آج کی تحریک انصاف سے بالکل مشابہ ہے۔عمران خاں کو بھی چن چن کر
ہیرے مہیا کیے گئے۔او ر قومی اتحادمیں بھی چوٹی کے نگینے اکٹھے کروائے
گئے۔مماثلت کا ایک پہلویہ بھی نکلتاہے کہ تب بھی انتخابات میں دھاندلی کے
الزام سے بات چھڑی تھی۔اور پھر نفاذاسلام پر جاکر ٹھہر گئی۔اب بھی دھاندلی
کے الزام پہ بات شروع ہوئی تھی۔اوپھر تبدیلی یا انقلاب پرآکر تان ٹوٹ رہی
ہے۔تحریک انصاف کے کچھ شرکاء کو آج بھی اپنی جماعت او ر منزل سے متعلق اتنی
ہی آگاہی ہے۔جتنی تب کے قومی اتحادکے حصے داران کو اپنے اتحاد او رمنزل سے
متعلق تھی۔اب بھی کچھ لوگ اصلاح معاشرہ کے کارخیر میں حصہ لینے پر نازاں
ہیں۔اور تب بھی قومی اتخاد کے معززین اپنے آپ کو برائی کے خلاف مجاہدین
تصور کررہے تھے۔مماثلت کا یہ سفر یقیناًاس کھیل کے انجام تک جاری رہے گا۔جو
انجام قومی اتحاد کا ہوا۔تحریک انصاف کا نجام بھی اس سے مختلف نہیں
ہوسکتا۔جوں ہی بھٹو کو اقتدار سے ہٹادیا گیا۔نہ قومی اتحادرہا۔نہ اس کے
مجاہدین او رنہ ان کی منزلیں۔جب ضیاٗ صاحب نے کمان سنبھالی توتب قومی اتحاد
کے ممبران اپنے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوکر جدھرجدھر سے آئے تھے۔ادھر
ادھرلوٹ گئے۔عمران خاں کے عارضی رفقائے کار بھی اس موقع کے منتظر ہیں جب
کہیں سے کھیل ختم ہونے کا اعلان ہو۔اور وہ اس کڑی مشقت سے سبکدوش ہوں۔
متحدہ او رتحریک انصا ف کی طرف سے قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ
کیاگیا۔ہے۔دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ نوازشریف کی نااہلی کے بعد ملک
سیاسی بحران کا شکارہے۔دیگر کئی حکومتی اعلی منصب دار ان کے خلاف بھی
مقدمات چل رہے ہیں۔ملک میں غیر یقینی کی سی کیفیت ہے۔جس کو دور کرنے کے لیے
قبل ازوقت انتخابات ناگزیر ہیں۔واضح رہے کہ لیگی قیادت وطن واپسی آچکی
ہے۔جس سے ان قیاس آرائیوں کا خاتمہ ہوچکا۔جو شریف فیملی کے ملک سے فرا ر
ہوجانے سے متعلق تھیں۔ایسا تاثر دیا جارہاتھاکہ سابق وزیر اعظم اور ان کی
فیملی اپنی گرفتاری کے خوف سے ملک چھوڑ چکے ہیں۔اور وہ اب کبھی واپس نہیں
آئیں گے۔اب جبکہ نوازشریف اور اسحاق ڈار واپس آچکے ۔اب شریف فیملی کے
مخالفین کوئی نیا شوشہ اڑانے کے چکر میں ہیں۔نوازشریف اپنی اہلیہ کے علاج
کے سلسلے میں لندن آئے تھے۔ بعد میں عیادت کے لیے دیگر رہنما بھی لند ن
پہنچتے رہے۔اس اکٹھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لیگی قیادت نے اپنے آئندہ کا
سیاسی عمل طے کرنے کے لیے خاصی مشاورت کرلی۔متحدہ اور تحریک انصاف کی طرف
سے نئے الیکشن کا مطالبہ اپوزیشن کے اس منفی پراپیگنڈے کا ایک حصہ ہے جو
لیگی قیادت کے لندن قیام کیے جانے سے متعلق جاری رہا۔ایسی باتیں کی جاتی
رہیں ۔گویا شریف فیملی فرار ہوکر لند ن مین پناہ لیے ہوئے ہے۔نئے انتخابات
کا مطالبہ بھی عوام میں لیگی قیادت سے متعلق بد گمانیاں پھیلانا ہے۔
مسلم لیگ ن کو اس وقت قومی اسمبلی میں قریبادو تہائی کی اکثریت حاصل
ہے۔اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر وہ قومی اسمبلی میں کسی بھی آئینی ترمیم
منظور کروالیے جانے کی عددی قوت رکھتی ہے۔اسے سینٹ میں یہ دسترس حاصل نہیں
۔جس کا اسے کئی بار نقصان اٹھانا پرا۔جب بھی اسے کسی قانون سازی کی ضرورت
پڑی اسے سینٹ میں اقلیت ہونے کے سبب ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔یہاں اسے پی
پی کی دست نگر رہنا پڑا۔صرف اسی بل کو یہاں سے منظور ی ملی جو پی پی کی طرف
سے اوکے ہو۔جس بل کو پی پی نے بلڈوز کردیا۔مسلم لیگ ن کے لیے اسے منظور
کروانا ممکن نہ ہو۔پی پی کے بلڈوز کیے بل کو یا تو لیگی قیادت نے ایک سائیڈ
پر رکھ دیا۔یا پھر بالواسطہ روابط کے ذریعے اوکے کروایا۔سابق وزیر اعظم کی
نااہلی کے مدعے پر بھی سینٹ میں مسلم لیگ ن کو مسائل کا سامنا ہے۔وہ ایک
سیدھی سادی ترمیم سے اس مسئلے کا کوئی حل نکال سکتی تھی۔مگر پی پی رکاوٹ بن
رہی ہے۔عدلیہ کی طرف سے نااہل شخص کو پارٹی قیادت کے لیے اہل قرار دیے جانے
کے حق میں بل منظور ہوچکا۔مگر یہ منظوری کتنے جوکھم کے بعد آئی یہ بھی
نظرانداز نہ ہوپائے گا۔ لیگی ممبران کی تمنا ہے کہ تاحیات نااہلی کے معاملے
کو کسی آئینی ترمیم کے ذریعے طے کرلیا جائے۔مگر پی پی کی اکثریت اسے روکے
ہوئے ہے۔
قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ مارچ میں ہونے والے سینٹ انتخابات کوسامنے
رکھ کر کیا جارہاہے۔تحریک انصاف صرف وہی راگ آلاپتی ہے۔جس کی فرمائش کی
جائے۔قومی اتحاد والے بھی اپنے آئے دن کے بدلتے مطالبات کی شہرت رکھتے
تھے۔انہیں جو پرچی ملتی اسے پڑھ ڈالتے ۔تحریک انصاف بھی قبل ازوقت انتخابات
کی ایک نئی بات کرکے نوستاروں کی تاریخ دہرارہی ہے۔مقتدر حلقے نوازشریف کی
پارٹی صدارت کی بحالی سے پریشان ہیں۔انہیں پتہ ہے کہ اگر مارچ تک یہ سیٹ اپ
چلتارہا۔تو نوازشریف کے لیے سینٹ میں اکثریت حاصل کرلینا مشکل نہ ہوگا۔ خوف
یہ ہے کہ سینٹ میں اکثریت پانے کے بعد جب مسلم لیگ ن کو پی پی کی اجارہ
دار ی سے نجات مل جائے گی تو جانے وہ کیا گل کھلادے۔ کون کون سی ترمیم لے
آئی ۔تب وہ اپنے لیے جانے کون کون سے دروازے کھول لے او رکون کون سے دروازے
دوسروں کے لیے بند کروادے۔یہی خوف مجبور کررہا ہے کہ قبل ا زوقت انتخابات
کی پرچی لکھ کر دے دی جائے۔بچے جمہورے اسے پڑھتے رہیں۔اور ہلہ گلہ کرتے
رہیں۔ |