ہر چند کہ ظالم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر تاریخ ِ
انسانیت میں جس قدر ظلم مذہب کے نام پر ہوا ہے شاید ہی کسی اور نام پر انتا
ظلم ہوا ہو۔برما میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے جو پہاڑ ڈھائے جا رہے
ہیں۔ اس کے پیچھے بھی یہی مذہبی عصبیت کار فرما ہے۔مذہبی عصبیت کا جو کریہہ
چہرہ برما میں ظاہر ہوا اس کو دیکھنے کی تاب لانا کسی بھی صاحبِ دل انسان
کے لئے محال ہے۔ظلم کے متحرک اور غیر متحرک مناظر نے شوشل میڈیا کو آج کل
ماتم کدہ بنا دیا ہے۔ کسی بھی شوشل سائٹ کو کھولتے ہی ایک ناظر محسوس کرتا
ہے کہ وہ راکھشسوں کی ایسی کالی دنیا میں جا پہنچا ہے کہ جہاں ہزاروں آدم
خور راکھشش چند ایک اولادِ آدم پر ٹوٹ پڑے ہیں اورایذا رسانیوں کے ایسے
حربے استعمال کر رہے ہیں کہ جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔میانمار
میں جبر و تشدد کی ایک ناقابلِ بیان داستان ہے جو ان انسان نما درندوں کے
ہاتھوں رقم ہو رہی ہے۔ برما میں روہنگیائی مسلمان سالہا سال سے گوناگوں
مظالم جھیل رہے ہیں ۔روہنگیا مسلمان مجبور و مقہورترین اقوام میں سے ایک
قوم ہے کہ جو مدتِ مدید سے موت سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
عرصہ دراز سے برما کی ایک ریاست رخائن میں بود و باش کے باوجود انہیں ابھی
تک شہری حقوق کیا بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔یہ کم نصیب
حکومتی عتاب کا ہمیشہ ہی ایک نرم ہدف (soft target)رہے ہیں وقتاً فوقتاً
اکثر یتی طبقہ نے انہیں نسلی اور مذہبی عصبیت کی بنیاد پر ظلم و جور کا
شکار بنا یا۔چنانچہ ۱۹۶۲ ء میں ان کے نام فارن کارڈ اجرا کر کے انہیں یہ
احساس دلایا گیا کہ وہ سالہاسال سے برما کی سرزمین پر رہتے ہوئے بھی غریب
الوطن ہیں۔ ۱۹۸۲ء میں غیر ملکی قرا ر دے کر روہنگیائی مسلمانوں کوتمام تر
شہری حقوق سے مکمل طور پر بے دخل کیا گیا۔وہ تعلیم تجارت اور صحتِ عامہ
جیسی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ وہ آزادانہ طور پر گھوم پھر نہیں
سکتے۔الغرض بودھ اکثریت انہیں حیوانوں سے بد تر سمجھتی ہے۔
حالیہ چند برسوں میں ان مظلوموں کے خلاف سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جاری
عتاب میں انتہائی شدت دیکھنے کو ملی ہیں۔شوشل میڈیا پر جودرد ناک اور دلدوز
مناظر دکھائے جا رہے ہیں ان کو لفظوں میں بیان کرناناممکن ہیں۔بستیوں کی
بستیاں آگ میں بھسم ہو رہی ہیں۔ شیرخوار بچوں کی سر بریدہ لاشیں کہیں پانی
میں تیر رہی ہیں تو کہیں مارے گئے بچوں کے نرم ونازک ابدان کچھ اس انداز
میں دیوار پر ٹنگا دئیے گئے ہیں کہ جیسے پھٹے پرانے اور گیلے کپڑوں کے
پارچے دھوپ میں سکھانے کے لئے رکھے گئے ہوں۔خواتین کی عصمت و عفت کو نہ صرف
تار تار کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں موت کے گھاٹ اتار کر لاشوں کے ساتھ بھی
بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ انسانی اعضاء چاروں اور بکھرے پڑے ہیں۔ایک ویڈیو
میں صاف طور پر دکھایا گیا ہے کہ بہت سی انسانی لاشوں کو سیکڑوں گدھ ایک
ساتھ نوچ رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بدھ بکھشووں کی ایک بڑی تعداد ان لاشوں
کے اردگرد نظر آرہے ہیں۔اور ان لاشوں کے اعضاء کے قطع برید میں مصروف ہیں
تاکہ گدھ ان قطع شدہ انسانی اعضاء کو بآسانی ہڑپ کر سکیں۔یہ سب کسی ایسی
جگہ ہو رہا ہے جہاں دنیا کو اہنسا یعنی عدم تشدد کا درس دینے والے ماتما
بدھ کے بہت سے بت نسب کئے ہوئے ہیں۔ زندہ انسانوں کے اعضاء کچھ اس بے
پروائی سے کاٹے جاتے ہیں کہ جیسے کسی درخت کی شاخ تراشی کی جا رہی ہو۔بودھ
دہشت گردوں کی مار دھاڑ سے جان بجا کر بھاگنے والوں کی دہشت زدہ آنکھوں میں
ایسے خوف ناک مناظر موجود ہیں کہ جنہیں دیکھنے کے لئے چشم ِ بصیرت کے ساتھ
ساتھ آہنی کلیجہ بھی چاہیے۔ہزاروں کی تعداد میں ہجرت کرنے والوں میں سے ہر
فرد کے پاس ایک داستانِ الم ہے جسے وہ من و عن بیان کرنے سے قاصر ہے ۔ لندن
سے شایع ہونے والے اخبار دی انڈیپنڈنٹThe) Independent (نے ان ہی مظلوموں
میں سے ایک مظلوم کی درد بھری روداد کچھ یوں نقل کی ہے ۔’’عبد الرحمان نامی
اس روہنگیائی مسلمان کا کہنا ہے کہ چٹ پئینChut) Pyin (گاؤں میں بہت سے
روہنگیائی مسلمانوں کو بانس سے بنی کٹیا میں بند کر دیا گیا اور پھر اسے آگ
لگائی گئی۔میرے بھائی کو دوسرے افراد کے ساتھ اجتماعی طور زندہ جلایا گیا۔
میں نے دیگر اہل ِ خانہ کو کھیتوں میں مقتول پایا جن کے جسموں پر گولیوں
اور تیز دھار والے ہتھیاروں سے لگے گہرے گھاؤ صاف دکھائی دے رہے تھے۔میرے
دو بھتیجوں کے سر کاٹے گئے تھے ان میں سے ایک کی عمر محض چھے سال کی تھی
اور دوسرے کی نو سال۔ میری سالی کو گولیوں سے چھلنے کر دیا گیا تھا۔‘‘
دنیا باخبر ہے کہ برما میں روہنگیائی مسلمانوں کی منظم اندازمیں نسل کشی
جاری ہے۔ نسل کشی کے دوران جو سفاک حربے استعمال ہو رہے ہیں ان سے یہ با ت
مترشح ہے کہ یہ کام ان مجرمانہ نفسیات اور مسخ شدہ انسانی فطرت رکھنے والے
قاتلوں کے ہاتھوں انجام دیا جا رہا ہے جنہیں سفاکیت ،درندگی اور سنگ دلی کی
باضابطہ تربیت دی گئی ہے۔کیونکہ محض نسلی دشمنی اور مذہبی عصبیت ایک عام
انسان کو یک دم اس قدر سنگ دل نہیں بنا سکتی ہے۔نسل کشی توظلم ِ عظیم ہے ہی
مگر جو ظالمانہ حربے معصوم لوگوں کو صفحہ ٔہستی سے مٹانے کے لئے استعمال
کئے جارہے ہیں ۔وہ نہایت ہی خوفناک ہیں۔ انہیں دیکھنے کے لئے پتھر کا دل
اور بے نم آنکھ چاہئے ۔یہ سوچ کر منہ کلیجے کو آتا ہے کہ کس طرح ان مظلوموں
نے اپنے پیاروں پر ہو رہے اس قدر ظلم و زیادتی دیکھی ہو گی اور ان مظلوموں
نے یہ کربناک اور دلدوزمظالم سہے ہوں گے۔
بہر کیف یہ ظلم و بربریت برمی بدھسٹ دہشت گردوں کے اس دعوے پر خندہ زن ہے
کہ وہ اس گوتم بدھ کے پیرو کار ہیں ۔جن کی تعلیمات امن و آشتی اور رحم و کر
م پرمبنی ہے۔ اس مذہب کے بانی ماتما بودھ کے بارے میں بتایا جا تا ہے کہ وہ
ایک شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔بڑے ہی ناز و نعم سے پالے گئے اس
شہزادے کو جب ایک دن عام انسانوں کی بے بسی اور لاچاری نظروں سے گزری تو وہ
اس قدر رنجیدہ خاطر دلبرداشتہ ہوگئے کہ راج محل کی عیش و عشرت کو لات مار
کر بنباس کی راہ لی۔کافی گیان دھیان اورریاضت کے بعد جن اقدار و اصول کی
بنیاد پر اس نے بدھ مت کی بنیاد رکھی اس کے مطابق انسان تو انسان کسی بھی
ذی روح مخلوق کو آزار اور دکھ دینا قطعاً ممنوع ہے ۔گویا عدم ِ تشدد اس
مذہب کابنیادی اصول ہے ۔گوتم بدھ نے تو اپنے پیرو کاروں کو’’ باطن کی پاکیز
گی ‘‘اور’’ محبتِ خلق‘‘ کی تلقین کی تھی عکس العمل اس کے آج میانمار اسی
مذہب کے نام پر خبث ِ باطن ، اور دوسرو ں کے تئیں اپنے نفرت و کینہ کا ایسا
مظاہرہ کیا جارہا ہے کہ میڈیا کی آنکھ اسے من و عن عکس بند کرنے اور قلم کی
روشنائی قلم بند کرنے سے عاجزہے ۔بدھ مت حسن اخلاق اور حسن ِعمل پرتاکید
کرتا ہے اور تمام انسانوں کے ساتھ شفقت ،حسن سلوک ، تعظیم و ہمدردی
اوررواداری کی تلقین کرتا ہے۔ مگر برما کے بودھ دہشت گردوں نے بد سلوکی ،
تعصب ،قطع رحمی،عدم ِ روا داری،اوربے حرمتی کے تمام تر ریکاڑ مات کر دئیے
اورنہتے روہنگیائی مسلمانوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹانے کا کام انجام دے رہے
ہیں۔ اس کام میں بدھ مت کے مبلغ اور بھکشو پیش پیش رہے ہیں۔واضع رہے
میانمار کے معروف بنیاد پرست مذ ہبی رہنما ء اشین وراتھو نے مسلمانوں نسل
کشی اور ملک بدری میں بنیادی کردار ادا کیا ۔اس نے اپنی نفرت آمیز تقاریر
میں ملک کی اقلیتوں علی الخصوص روہنگیا مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کا
کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ویراتھو نے برمی مسلمانوں کی جانب
اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا ’’آپ(برما کے بدھسٹ) احسان اور محبت
سے بھرپور ہوسکتے ہیں، لیکن آپ پاگل کتے (برمی مسلمان)کے پہلو میں نہیں سو
سکتے ۔(اس کام میں) اگر ہم نے کسی بھی قسم کی کمزوری دکھائی ۔تو ہماری سر
زمین پوری کی پوری مسلم ہو جائے گی."نفرتیں بھانٹنے اور اشتعال انگیزی کو
ہوا دینے میں مذکورہ راہب نے اس بدنامی پائی ہے کہ بی بی سی کی ایک رپورٹ
کے مطابق ٹائم میگزین نے جولائی ۲۰۱۳ء میں اپنے سر ورق پرا س کی ایک تصویر
شایع کی اور اس پر یہ سرخی جما دی۔۔۔’’بدھسٹ دہشت و حشت کا چہرہ‘‘۔ یہی وہ
شخص ہے کہ جس نے مذہبی عصبیت کی راکھ میں چھپی ہوئی چنگاری کو شعلہ ور کیا
اور ان کی شعلوں سے ہزاروں بھرے پرے گھروں کو ان کے مکینوں کے سمیت جلا کر
راکھ میں تبدیل کردیا ۔برما کی دبی کچلی مسلم اقلیت کے حقِ حیات کا حترام
تو کجا، اس نے برما میں اقوام متحدہ کی خصوصی خاتون نمائندہ’’ یاگی لی‘‘ کو
طوائف اور کتیا کہہ کر اس کی تذلیل کی۔مسلمانوں کے متعلق اس نے ایک مذہبی
تقریب کے دوران کہا تھا کہ ’’میں انہیں(مسلمانوں ) کو تخریب کار کہتا ہوں
کیونکہ وہ واقعاً تخریب کار ہیں۔ اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں ایک
بنیاد پرست بدھسٹ ہوں۔‘‘
یقینا ایک مذہبی رہنما نسلی اور مذہبی فسادات کو بھڑکانے یا انہیں روکنے
میں ایک کلیدی رول ادا کر سکتا ہے۔ یہ اب اس کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ
خون ریزی کو شعار بنائے یا انسانی خون کی قدرو قیمت سے اپنی قوم کو روشنا س
کرائے۔برما کے بدھسٹ مذہبی رہنمابدھ مت کی تعلیمات کے عین برعکس مذہبی
منافرت پھیلانے میں کافی سرگرم ہیں . 696 کے نام سے موسوم ایک مذہبی انتہا
پسند تنظیم قتل و غارت گری کا بازار گرم رکھے ہوئی ہے۔یہ تنظیم مذہبی
منافرت، نسلی تعصب، عدم ِ روا داری، انتہا پسندی،کی ایک علامت بن گئی ہے۔
ظاہر سی بات ہے جوعدمِ تشدد کی تعلیمات کو عام کرنے کا بلند بانگ دعویٰ
کرتے ہیں ۔ وہی جب تشدد کو فروغ دینے اور متشددعناصر کو منظم کرنے کا بھیڑا
اٹھائیں تو پھر وہاں پرکس سے امن و امان کی توقع ہو سکتی ہے۔ بقول ِ کسے
بنے ہیں اہلِ ہوس، مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
میانمار میں بدھ مت کے پرچار کرنے ولاے رحم و کرم اور اخلاق سے کس قدر تہی
دامن ہو کر تعصب و نفرت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے ہیں ۔اس کے ثبوت میں
معتدد المناک واقعات کا حوالہ دیا جا سکتا ہیں۔لیکن طوالت سے گریز کرتے
ہوئے فی الوقت ایک واقعہ کا ذکر کرنا ان کی انتہاء پسندانہ ذہنیت کی غمازی
کے لئے کافی ہے۔بی بی سی اردو سروس کے مطابق ’’سنہ 2013 میں رنگون کے شمال
میں واقع اوکن میں ایک مسلمان لڑکی کی سائیکل (حادثاتی طور) ایک بدھ راہب
سے ٹکرا گئی ۔ اس کے بعد سخت گیر بدھوں نے مساجد پر حملے کر دیے تقریبا 70
گھروں کو نذر آتش کر دیا۔ اس میں ایک شخص ہلاک اور نو دیگر زخمی ہوگئے۔‘‘اس
واقعہ سے یہ بات الم نشرح ہو جا تی ہے بدھ راہب معمولی سی بات پر مشتعل ہو
کر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ حالانکہ ان راہبوں کو بدھ مت کے بانی
ماتمابدھ سے منسوب ایسے سینکڑوں قصے از بر ہوں گے۔ جن میں دوسروں کے تئیں
ان کی کرم نوازی اور قوتِ برداشت کے قصیدے موجودہیں ۔ایسے ہی ایک قصے میں
لکھا گیا ہے کہ ایک روز ماتما بدھ ایک پیڑ کے سائے میں اپنی تعلیمات کا
پرچار کررہے تھے ۔ ایک شخص نے جو مہاتما بدھ کا سخت مخالف تھابہت سے افراد
کے سامنے ان کے چہرے پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔ماتما بدھ نے خندہ روئی کے
ساتھ اس شخص کو مخاطب ہو کر کہا کہ کیا آپ اس کے علاوہ بھی اپنے دل کی
بھڑاس نکالنا چاہتے ہیں؟آپ کے من میں جو کچھ آئے کر ڈالئے۔اس شخص نے
مہاتمابدھ کا یہ شریفانہ رویہ دیکھا تو حیران رہ گیا۔ وہ رات بھر اپنے
جارحانہ اقدام پر نادم ہو کر سو نہیں پایا۔ اگلے دن جب وہ اپنی غلطی کی
تلافی کرنے کے لئے مہاتما سے معافی کا خواستگار ہوا تو ماتما بدھ نے اس سے
مخاطب ہو کر کہا کہ کل سے گنگاکاکا فی پانی بہہ چکا ہے ۔اوربہتا ہی چلا
جارہا ہے اس کے بہاؤ سے ہر روز ایک نیا دریائے گنگا ہمارے سامنے آجاتا
ہے۔ہر فرد بشرکا دریا ئے حیات گنگا کی مانند رواں دواں ہے ۔اس لحاظ سے جس
شخص کے ساتھ تم نے کل بدتمیزی کی تھی ۔ وہ اب تمہارے سامنے نہیں ہے بلکہ اس
کی جگہ اسی کے روپ میں کسی دوسرے شخص نے لے لی ہے ۔ اور اسی طرح تم بھی وہی
آدمی نہیں ہو ۔جو کل میرے پاس آیا تھا۔اس لئے کل جو کچھ ہوا اسے بھول جاؤ
۔چلو ہم کسی اور موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔ ‘‘
ستم ظریفی یہ ہے کہ برما کی فوج ،عام بلوائی اور شدت پسند گروہ مسلمانوں کی
نسلی تطہیر سے بزعمِ خوداسی مہاتما بدھ کی آتما کو شانتی پہنچاننے کے لئے
کررہے ہیں۔جس مہاتما بدھ سے انسانیت کی مصائب و آلام دیکھ کر رہا نہ
گیا۔اور اسی سبب شہزادگی کو تج کر بنباس کی راہ لی،اسی کے ماننے والوں نے
ایک بڑی انسانی جمعیت کو ہزار ہا قسم کے تکالیف و مشکلات سے دوچار کر دیا
ہے۔اہنسا واد پر یقین رکھنے والے بدھ دھرم کو اپنا اوڑھنا بچھونا ماننے
والوں سے جتنا ہو سکا روہنگیائی مسلمانوں کو قتل کرڈالا۔ اور جولوگ کسی طرح
اپنی جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے وہ بھی انتہائی کسمپرسی کی
حالت میں در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ان کا دنیا میں کوئی پرسانِ
حال نہیں ہے۔مقتولوں کا کافی بے دردی سے تو مارا گیا لیکن زندہ بچ جانے
والوں کو قدم قدم پر موت کا سامنا ہے ۔کچھ تو جنگلوں میں مارے مارے پھر رہے
ہیں کچھ سمندر کا نوالہ بن گئے اور جو دیگر ممالک میں علی الخصوص بنگلہ دیش
پہنچ گئے ہیں غریب الوطنی میں ان کی حالت ناگفتہ بہہ ہیں انہیں ننھے بچوں
کے ساتھ بغیر چھت کھلے آسمان تلے میں سونا پڑ رہا ہے۔ فاقوں پر فاقے لگ رہے
ہیں۔ جو امداد ان تک پہنچائی جا رہی ہے وہ ایک انار سو بیمار کے مترادف
ناکافی ہے۔کیونکہ اس کثیر تعداد میں تارکین ِوطن کو ہنگامی بنیادوں پر
سنبھال پانا ایک ترقی یافتہ ملک کے لئے بھی ایک بڑا چلینج ہوتا ہے چہ جائے
کہ بنگلہ دیش جیسا غریب ملک !
روہنگیا ئی مسلمانوں کے تئیں عالمی برادری کا رویہ بھی دیدنی ہے۔ اس انسانی
المیہ کو ایک مخصوص قوم و ملت کے کھاتے میں ڈال کر عالمِ انسانیت خاموش
تماشائی بنی ہوئی ہے۔ مسلم امت کے صاحبِ فکرونظر افراد بھی نہ جانے کس سوچ
کے تحت صرف اور صرف امتِ مسلمہ کی بے حسی پر نالاں ہے۔حالانکہ اس قسم کے
اندوہ ناک انسانی المیے تمام عالمِ بشریت سے بلا لحاظ ِ مشرب و مذہب ہمدردی
کا تقاضا کرتے ہیں۔ اور انہیں روکنے کے لئے ہر فردِ بشر کو مقدور بھر کوشش
کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔عالمی برادری کی خاموشی اس حوالے سے صاف غمازی کر
رہی ہے کہ انسانیت کی اب کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے
سیکٹری جنرل انٹونیو گوئیڑز نے رسمی طور پر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا
ہے کہ میانمار میں ایک نسل کامکمل صفایا کئے جانے کا خطرہ ہے ۔انہوں نے ملک
کی عوامی رہنما ء آن سان سوکی اور سیکورٹی اداروں سے اپیل کی کہ وہ تشدد کو
روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔مگر فوج ،مذہبی انتہاء پسند قوتیں رہنگیائی
مسلمانوں پر روا رکھی گئی ایذارسانی سے نفسیاتی لذت محسوس کر رہے ہیں ۔ اور
نام نہاد امن کی دیوی کو تماشا بینی میں مست و مگن ہے ایسے میں اقوام متحدہ
کے سربراہ کے نازک الفاظ اور نرم وملائم لہجہ کسی آدم خور بلا کو واعظ
ونصیحت سے رام کرنے کی ناکام کوشش ہے۔
حاصل ِ کلام یہ کہ ایک خاص مذ ہب کی ایک مخصوص خطۂ زمین پر بالا دستی قائم
کرنے کے لئے ہری بھری انسانی بستیاں تہہ و بالا کی جا رہی ہے۔اور اس مذہب
کے نام نہاد وکیلوں کا یہی نظریہ ہے کہ یہ بالا دستی ایک نسل اور ایک دوسرے
مذہب کے ماننے والوں کا وجود مٹانے پر منحصر ہے۔ اور عالمی برادری اس بات
کے مدنظر نہایت ہی سکون کے ساتھ اس قتل ِ عام کو دیکھ کر اف تک نہیں کر رہی
ہے کہ یہ ظلم و جور ان لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے کہ جن کے ساتھ انہیں
نسلی،مذہبی، اعتقادی،قومی،اور لسانی اعتبار سے کوئی لین دین ہی نہیں۔لہٰذا
وہ ان کی فکر میں اپنا سر کیوں کھپائیں۔جب انسانیت اس قدر نفرتوں کے الگ
الگ خانوں میں بٹ جائے اور مشترکہ درد و غم کو بھی ایک دوسرے کے کھاتے میں
ڈالنے کی کشمکش ہر سو نظر آئے تو ایسے میں ہر ہمدرد انسان حکیم الامت کی
طرح منجیٔ بشریت کے آنے کی آس کیوں نہ لگائے جو آکر پھر سے انسان کو
انسانیت کا درس سکھائے۔
اے سوارِ اشہب دوراں بیا
اے فروغِ دیدہ ٔامکاں بیا
خیز و قانونِ اخوت ساز
دہ جامِ صہبائے محبت باز
دہ باز در عالم بیار ایّامِ صلح
جنگجویاں را بدہ پیغامِ صلح
آجا!اے وقت کی سواری کے شہسوار ! اے عالمِ ممکنات کی آنکھوں کے نور،
اٹھ اور دنیا میں الفت اور بھائی چارہ کے اصولوں کو پھر زندہ کردے۔ محبت کی
مے سے لبالب ساغر کو پھر سے گردش میں لا ۔دنیا میں امن و آشتی اور صلح کے
وہ دن پھر سے لوٹا دے۔اور جنگ پسند طبعیتوں کو امن کا درس سکھا دے۔ (علامہ
اقبالؒ)
|