اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیرخارجہ سشما
سوراج کی جانب سے’’ ٹیررستان ‘‘کا لقب ایجاد کرنا اور ورکنگ باؤنڈری ، جنگ
بندی لائن پر بھارتی دہشت گردی کو جاری رکھنا پاکستان کے ساتھ بھارت کے
تعلقات ک مستقبل کو ظاہر کر رہا ہے۔ چین کا بھی رویہ قدرے مختلف ہونے کے
آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔کیوں کہ بریکس کے اعلامیہ میں پہلی بار پاکستان
اور لشکر طیبہ ، جیش محمد کا ذکر کیا جانا، دہشتگردی کے واقعات میں ملوث،
ان کے انتظام کرنے یا حمایت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا اعلان
کیا جانا بھارت کی سفارتی کامیابی قرار دی گئی۔سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار
نے پاکستان مخالف اعلامیہ کا ذمہ دار پاک سفارتکاروں کو قرار دیا ہے جن کی
کمان خواجہ آصف کے ہاتھ میں ہے۔بریکس اعلامیہ43صفحات پر مشتمل تھا۔ جو چین
میں بریکس نے جاری کیا۔جس نے افغانستان میں فوری طور پر جنگ بندی کامطالبہ
کیا۔چین میں بھارت کی سفارتی کامیابی اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی بریکس
ممالک نے کی۔ انہوں نے خطے میں بدامنی اور طالبان، دولت اسلامیہ، القاعدہ
اور اس کے ساتھی گروہوں بشمول مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ، اسلامک موومنٹ
آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد، ٹی ٹی پی اور حز ب
التحریرکی وجہ سے ہونے والے فساد کی مذمت کی۔ بریکس کے9ویں سربراہ اجلاس سے
قبل چینی وزیر خارجہ نے’’ انڈیا کے پاکستان کی جانب سے انسداد دہشگردی کے
حوالے سے خدشات‘‘ کا ذکر کیا تھا اور بریکس کو اس کے لئے غیر متعلقہ فورم
قرار دیا تھا۔اس کے باوجود اس فورم کو پاکستان ک خلاف استعمال کیا
گیا۔گزشتہ برس بھارتی شہرگوا میں جب چین، روس، جنوبی افریقہ، برازیل اور
بھارت کا سربراہ اجلاس ہو رہا تھا، اس وقت بھی بھارتی فوج کشمیر کی جنگ
بندی لائن پر گولہ باری اور شیلنگ کر رہی تھی۔ اس وقت بھارت جنگ بندی لائن
کی خلاف ورزی کا الزام پاکستان پر لگا رہا تھا۔ برازیل، روس، انڈیا، چین
اور جنوبی افریقہ(برکس)کے بارے میں بی بی سی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
برکس کی اینٹیں ایک ایک کر کے گر رہی ہیں۔
روس کے شہر اوفا کے بعد گوا اور اب چین میں بریکس سربراہ اجلاس ایک ایسے
موقع پر ہوا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ بھارت نے
پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس
وقت بریکس میں بھارت چین سے نالاں ہے۔ چین نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستی
نبھائی۔ مولانا مسعود اظہر کے معاملہ پر چین نے ویٹو کا اختیار پاکستان کے
حق میں استعمال کیا۔ جس نے بھارت اور اس کے دوستوں کے لئے مشکل کھڑی کی۔
روس کو وضاحت کرنا پڑی کہ اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات اور فوجی مشقیں
بھارت کی قیمت پر نہیں ہوئیں۔ بلکہ ان کی الگ نوعیت ہے۔
روسی صدر ولادمیر پیوٹن کے قریبی دوست اور اعلیٰ روسی عہدیدار سرگئی
چیموزوف کو یہ کہنا پڑا کہ پاک روس مشقیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلہ
میں تھیں۔ ان کا بھارت کی مخالفت سے کوئی سروکار نہ تھا۔ انھوں نے یہ بھی
وضاحت کی کہ پاکستان سے فوجی ساز و سامان کی فروخت پر کوئی بات چیت نہیں ہو
رہی ہے۔ وہ روس کی 700ہائی ٹیک سولین اور فوجی فرموں کے اتحاد روسٹیک سٹیٹ
کارپوریشن کے سی ای او بھی ہیں۔ اس لئے انہیں یہ بھی کہنا پڑا کہ روس نے
پاکستان کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں
لائی ہے۔ چیموزوف اور پیوٹن کے جی بی میں ایک ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ جرمنی
میں دونوں نے ایک ساتھ کام کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان کے
ساتھ روس کی فوجی مشقیں عالمی امن کے لئے تھیں۔ جبکہ وہ روس کی جانب سے ایم
آئی 35ہیلی کاپٹرز کی پاکستان کو فروخت کے حوالے سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان
کو جنگی ہیلی کاپٹرز نہیں دیئے گئے بلکہ یہ ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹرز تھے۔ یہ
بھارت کا روس پر دباؤ ہے۔ جس کی وضاحت کی گئی۔ اسی وجہ سے کافی عرصہ بعد
روس اور بھارت کے درمیان معاہدے ہوئے ۔ بھارت نے روس کو نظر انداز کرتے
ہوئے امریکہ، اسرائیل اور فرانس کے ساتھ دفاعی تعلقات قائم کئے ہوئے تھے۔
جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان خیر سگالی میں کافی کمی نظر آئی۔
مگرگزشتہ برس بریکس کانفرنس کی سائیڈ لائینز پر نریندر مودی نے پیوٹن کے
ساتھ اربوں ڈالر کے منصوبوں پر دستخط کئے۔ فوجی ساز و سامان کی مشترکہ
تیاری، خلائی تحقیقات، توانائی کی تلاش اور بھارت کے ریلوے نیٹ ورک کی
بہتری کے ان معاہدوں سے یہ پیغام دیا گیا کہ روس کو پاکستان سے دور رکھنے
کے لئے بھارت کوئی بھی حد پار سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ تامل ناڈو میں روس کے
تعاون سے بھارت ایک ایٹمی پانٹ بھی تعمیر کر رہا ہے۔ جو روس کے بھارت میں
12پلانٹس میں سے ایک ہے۔
پاکستان کا ردعملمعقول کیوں نہ تھا۔ جنوبی افریقہ، برازیل، روس کے ساتھ
سفارتی طور پر مسلسل روابط استوار کرنے میں پاکستان کیوں سستی دکھا رہا ہے۔
روس کے ساتھ تعلقات مرحلہ وار ہی بہتری کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ البتہ جنوبی
افریقہ اور برازیل بھی دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتیں ہیں۔ پاکستان اپنے مفاد
کو سامنے رکھتے ہوئے سفارتی طور پر ان سے تعلق پر از سر نوغور کر سکتا ہے۔
سارک کانفرنس کے التوا اور بھارت کے منفی کردار کے بارے میں بھی سفارتی
سرگرمیاں بھی تیز کرنے کی ضرورت ہے۔بھارت اپنے مفاد میں پاکستان کو دہشت
گردی سے جوڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں
پاکستان نے دی ہیں۔بھارتی فوج مسلسل گولہ باری اور شیلنگ کر رہی ہے۔ بھارت
جنگ بندی کی خود خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کا الزام بھی پاکستان پر لگا رہا
ہے۔ بریکس اجلاس کے موقع پر بھی بھارت نے ایسا ہی کیا۔ حقائق سے دنیا کو
آگاہ کرنا خاص طور پر اسلام آباد میں روس، جنوبی افریقہ، برازیل کے
سفارتکاروں کو ہی نہیں بلکہ مغربی اور یورپین سفارتکاروں کو بریفنگ دے کر
بھارت کے پروپگنڈہ کو زائلکرنے کی جانب توجہ نہیں دی گئی ۔ |