روہنگیا مسلمانوں کا سب سے بڑا جرم مسلمان ہونا ہے، جس کی
پاداش میں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیا ہے اور دنیا کے یہ مظلوم ترین لوگ
حیوانوں سے بھی بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روہنگیا مسلمان دنیا کی
وہ بدقسمت قوم ہے، جن کے سر پر کوئی سایہ ہے اور نہ ہی پاؤں کے نیچے زمین
ہے۔ جنھیں دنیا کا کوئی بھی ملک اپنانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ یہ اگر
بنگلا دیش کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کے حکمران انھیں گولیوں کا نشانہ بناتے
ہیں اور اگر تھائی لینڈ چلے جائیں تو بے رحم انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ
کر جانوروں کی طرح فروخت کردیے جاتے ہیں اور اگر میانمار میں ہی رہتے ہیں
تو بدھ بلوائی اور برمی فوج ان کے گھروں پرحملے کرتے ہیں۔ ان کی عورتوں کی
عصمت دری کرتے ہیں،ان کے گھروں کو، ان کی بستیوں کو جلادیتے ہیں اور ان کو
مختلف طریقوں سے قتل کردیتے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے چند تازہ ویڈیوکلپ نظر سے گزرے، جن
میں مسلمانوں پر اتنے برے طریقے سے تشدد کی جا رہا تھا کہ ایک بھی ویڈیو
کلپ مکمل نہیں دیکھ سکا۔ روح تک لرز گئی، کئی بار آنکھیں نم ہوئیں۔ جب سے
یہ کلپ دیکھے ہیں، اس وقت سے وہ مناظر نظروں کے سامنے سے ہٹ نہیں رہے۔ ان
مناظر کو دماغ سے محو کرنا چاہتا ہوں، لیکن بھیانک طریقے سے روہنگیا
مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بھیانک مناظر بار بار آنکھوں کے سامنے
آجاتے ہیں۔ مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار دیکھ کر بہزاد لکھنوی یاد
آئے:
اس دور میں اے دوست زبوں حالی مسلم
دیکھی نہیں جاتی ہے، مگر دیکھ رہا ہوں
روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی ویڈیوز دیکھ کر اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں پر اس سے کئی گنا زیادہ ظلم ہورہا ہے جو
ہم سوچ سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر مظالم کے جو ویڈیوکلپ چل رہے ہیں، انھیں
دیکھ کر پتھر دل انسان بھی آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکتا، لیکن محو حیرت
ہوں کہ برمی درندوں کے سینوں میں انسان کے ہی دل ہیں یا واقعی ان لوگوں نے
درندوں سے پرورش پائی ہے۔ بدھ مذہب کے بارے میں یہ پرچارکیا جاتا ہے کہ یہ
امن وعدم تشدد اور صلح وآشتی کا مذہب ہے، لیکن اسی مذہب کے ماننے والوں کی
جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم دیکھ کر تو لگتا ہے یہ لوگ انسانیت
سے بالکل عاری ہیں۔ یہ لوگ مظلوم روہنگیا مسلمانوں پر ایسے ایسے مظالم ڈھا
رہے ہیں ، جو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے بھی شاید نہ ڈھائے ہوں گے۔ وہ لوگ
مسلمانوں کے ساتھ جو انسانیت سوز سلوک کر رہے ہیں، وہ سلوک دیکھ اور سن کر
انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر چلنے والے ویڈیوز کلپس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اجتماعی طور
پر سیکڑوں روہنگیا مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے اور یہ سب کچھ برمی فوج،
پولیس، میڈیا اور برما کے عوام مل کر کر رہے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کو قتل
کیا جاتا ہے اور باقی سب لوگ مل کر ان کو تڑپتا دیکھتے ہیں۔ روہنگیا
مسلمانوں کی بے بسی، مظلومیت اور چار درجن مسلمان ممالک کے حکمرانوں سے
مایوسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی جان بچانے تک کی کوشش نہیں کرتے۔ بندوقوں
اور تلواروں سے لیس ظالم وجابر برمی فوجی اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے
بدمعاش و بد قماش روہنگیا بچوں کے سامنے ان کے والدین اور والدین کے سامنے
ان کے جگر گوشوں کو انتہائی سفاکی اور بے دردی کے ساتھ ذبح کر رہے ہیں۔ ان
کے سامنے ان کی خواتین کو برہنہ کر کے عصمت دری کی جارہی ہے، لیکن وہ یہ سب
کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی کچھ نہیں کرسکتے:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
(شاد لکھنوی)
یہ سب کچھ اس جدید دور میں ہو رہا ہے، جس دور میں جنگی جانوروں کے تحفظ کی
تنظیمیں بھی دنیا میں موجود ہیں۔ سانپ بچھو، بھیڑیے اور کتے بلوں کی حفاظت
پر کئی ممالک ہر سال اربوں روپیہ خرچ کردیتے ہیں، لیکن روہنگیا مسلمان وہ
بد قسمت لوگ ہیں، دنیا میں جن کی کوئی شنوائی نہیں۔ گزشتہ چند دنوں میں
میانمار کے مسلم اکثریتی علاقے راکھائن سے ایک لاکھ سے زاید روہنگیا مسلمان
علاقے سے نقل مکانی کر کے بنگلا دیش چلے گئے ہیں، جب کہ چند دنوں میں
روہنگیا مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل
کردیا گیا ہے۔ ان کی لاشیں بے گورو کفن ہر طرف بکھری پڑی ہیں۔ وہ ان حالات
سے گزر رہے ہیں، جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، لیکن وہ سب کچھ اپنی جانوں
پر برداشت کر رہے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں پر بدترین ظلم و تشدد کیا جارہا
ہے، لیکن عالمی برادری، اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کی دیگر
تنظیموں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، حالانکہ میانمار میں اقوام
متحدہ کے مندوب برائے انسانی حقوق ینگ ڑی لی بہت واضح الفاظ میں یہ بتاچکے
ہیں کہ برما کی فوج اور پولیس روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی میں ملوث ہے۔
ینگ ڑی لی کا کہنا تھا کہ میانمار میں انسانی حقوق کی صورتحال میری توقعات
سے بھی بہت زیادہ خراب ہیں اوربرما میں ایک منظم طریقہ سے روہنگیا مسلمانوں
کا قتل عام کیا گیا۔ ہم روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو انسانیت کے خلاف
جرم کہیں گے۔ انسانیت کے خلاف جرم میں میانمار کی حکومت، فوج، سرحدی گارڈز
اور پولیس سب شامل ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر مظالم کی
ذمے دار میانمار کی حکومت ہے۔
اس معاملے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کا کردار بھی کچھ کم قابل
مذمت نہیں، جو خود کو انسانی حقوق کی چیمپئن کہلواتی ہے اور اس بنیاد پر
نوبیل انعام بھی حاصل کرچکی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر
آنگ سان سوچی کے بھی لب سلے ہوئے ہیں،اسے ڈر ہے کہ مظلوم روہنگیا مسلمانوں
کی حمایت میں بولنے کی صورت میں وہ اپنی سیاسی حمایت سے محروم ہوسکتی ہے۔
اس طرز عمل سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسانیت اور جمہوریت کے لیے بلند
بانگ دعوے کرنے والے رہنما بھی دراصل سیاسی مقبولیت کو ہی منزل مقصود
سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ سوچی کو 2015 میں اقتدار حاصل ہوا، لیکن وہ برسر
اقتدار آنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ اس انسانی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے کوئی
اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکی، بلکہ روہنگیا کے خلاف فوج کے مظالم کو یک
طرفہ پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہے اور فوج کی اس پالیسی پر عمل
پیرا ہے کہ روہنگیا کو برما یا میانمار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر عالمی برادری، مسلمان ملکوں اور
انسانی حقوق کی نام نہاد علمبردار تنظیموں کی خاموشی اور بے حسی انتہائی
شرمناک اور قابل افسوس ہے۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی سمیت تمام کے تمام
روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں گونگے، بہرے اور اندھے بن چکے ہیں، جب کہ
پوری دنیا کا میڈیا بھی اس معاملے پر خاموشی کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ مسلمان
ملکوں کے سر براہوں کو تو خیال کرنا چاہیے، جن کو صرف اپنے اقتدار کو طول
دینے سے غرض ہے، ان کو مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی فلک شگاف چیخیں سنائی
نہیں دے رہیں ، اگر یہ چار درجن مسلم ممالک برما حکومت کو ظلم و ستم سے
نہیں روک سکتے تو کم از کم کچھ کچھ روہنگیا مسلمانوں کو مل کر اپنے ملکوں
میں جگہ تو دے سکتے ہیں۔ظلم کے اس موقع پر 39مسلم ممالک کی مشترکہ فوج بھی
آنکھیں بند کر کے سوئی پڑی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فوجی اتحاد
مسلمانوں کی حفاظت کے لیے نہیں بنا تھا، بلکہ صرف کسی ایک ملک کی حفاظت کے
لیے بنا تھا۔ |