ہماری حماقت دیکھیے کہ ہم اس گھڑے کو بھرنے میں لگے ہوئے
ہیں۔جس کا پیندا ٹوٹا ہوا ہے۔بھر بھر مشکیں ڈالی جارہی ہیں۔مگر گھڑا ہے کہ
بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔سخت تکان کے باوجود ہم ہمت نہیں ہاررہے۔ڈٹے
ہوئے ہیں۔او ر اپنی ہمت کو مجتمع کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح اسے لبا لب کرنے
کی سعی میں ہیں۔بدقسمتی دیکھیے کہ ہمیں نہ خود ٹوٹے پیندے کا احساس ہورہا
ہے نہ کوئی سیانا ادھر دھیان دینے میں مدد دے رہا ہے کہ جب تک پیندا ٹوٹا
رہے گا۔گھڑا نہ بھر پائے گا۔آمریت ہمارے قومی ایجنڈے میں گھڑے کے پیندے کا
وہ سوراخ ہے جومسلسل گھڑے کے خالی ہوجانے کا سبب بن رہاہے۔آمریت نے ہمیشہ
بنے بنائے نظام کو تہہ وبالا کردیا۔مشرف دور میں آمریت کی تمام روایات کی
جھلک واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔حسب روایت پہلے آئین کی معطلی ہوئی۔پھر
عدلیہ سے نیا حلف وفاداری لیا گیا۔جو ججز مشرف سے وفاداری ثابت نہ کرسکے
گھر بھیج دیے گئے۔گویا آمر کا دیا حلف نامہ آئین کے دیے حلف نامے سے طاقتور
ہے۔اس کے بعدباری آئی ملک میں رائج سیاسی نظام کی۔ مدتوں کی محنت اور جدو
جہد سے قائم سیاسی نظام کو دھڑن تختہ کردیا گیا۔سیاسی جماعتو ں کے قیا م او
رتکمیل کے درمیان عشروں کا فاصلہ ہوتاہے۔آمر یہ فاصلہ حرف غلط کی طرح مٹا
دیتاہے۔حقیقی قیادت کو چن چن کر نشان عبرت بنایا گیا۔اور ان کی پارٹیوں کو
دھڑن تختہ کردیا۔اس طرح کہ ان کی اصل شکل کہیں گم سی ہوکر رہ
گئی۔پیپلزپارٹی سے پیٹریاٹ نکالی گئی۔بالکل اسی طرح جیسے مسلم لیگ سے ق لیگ
نکالی گئی تھی۔فاداران کی ایک نئی فوج پیدا کرنے کے لیے مشرف صاحب نے آمریت
کی ایک اور روایت کو بھی نبھایا۔بلدیاتی نظام رائج کرکے یونین کونسل سے ضلع
تک ایسے لاکھو ں لوگ آگے لائے گئے۔جو مشر ف سے وفادار ی کی بنیا دی شرط پر
منتخب ہوئے۔ہر آمر نے اس طرح کی نئی کھیپ پیدا کرنا لازمی فریضہ سمجھا
ہے۔یہ کھیپ بعد میں حقیقی سیاسی قیادت کو بلیک میل کرنے او رسیاسی نظام میں
ابتری کا سبب بنتی ہے۔
چوہدری نثار سے سابق وزیر اعظم نوازشریف کی ملاقات معنی خیزہے۔ایک خبر کے
مطابق دونوں طرف سے کلے شکوے سامنے آئے۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب
چوہدری نثار سے متعلق کچھ لوگ بے وفائیوں کے افسانے تراشنے میں مصروف
ہیں۔اپنے قائدنوازشریف سے وہ متعدد بار اختلاف رائے کا اظہارکر چکے
ہیں۔انہیں نوازشریف کے بعض دوستوں کے اس رویے سے اختلاف ہے جو اداروں سے
ٹکراؤسے متعلق ہے۔جمہوریت کے استحکام اور مضبوطی کے نام پر یہ دوست
نوازشریف کو بار بار فوج کے سامنے لاکھڑا کردیتے ہیں۔یہ سامنا کبھی کبھی
براہ راست ہوتاہے۔اور کبھی ایوان صدر یا عدلیہ کی صورت میں بالواسطہ۔چوہدری
نثار اس موقف سے اختلاف رکھتے ہیں۔ان کا مشورہ ہے کہ نوازشریف ایسے دوستوں
سے دور رہیں۔یہ لوگ پہلے بھی نوازشریف کو سیاسی اور معاشی نقصان پہنچا چکے
اور اس بار بھی ان کی نااہلی کا ایک بڑا موجب بنے ہیں۔نوازشریف سے چوہدری
نثار کی ملاقات کے اصل حقائق نامے کا پتہ تو کچھ دنوں بعد چلے گا۔فی الحال
تو میاں صاحب چوہدری نثار کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے نظر نہیں آتے۔حلقہ
ایک سو بیس کا الیکشن جیتنے کے بعد انہیں ایک نیا ولولہ پایا تھا۔اب پارٹی
صدارت پر بحالی سے متعلق ترمیم انہیں اپنی ہمت دوبارہ مجتمع کرنے پر
اکسارہی ہے۔
چوہدری نثار کا فارمولہ غالبا لولا لنگڑا قتدار قبول کرلیے کا ہے۔وہ سمجھتے
ہیں کہ جمہوری قیادت اپنی محنت اور لگن سے اسی تھوڑے بہت اختیار سے اچھی
پرفارمنس دے سکتی ہے۔ان کا موقف ہے کہ ایسی پرفارمنس غیر جمہوری اداروں کو
بیک فٹ پر جانے پر مجبور کرسکتی ہے۔یہ ادارے جمہوری قیادت کی نااہلی او ربد
عنوانی سے مجبور ہوکر مداخلت کرتے ہیں۔اگر جمہوری قیادت موقع نہ دے تو یہ
مداخلت باقی نہ رہے۔چوہدری صاحب آپ کا فارمولہ مسائل کو حل کرنے کی بجائے
انہیں بڑھانے کا سبب بن رہاہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جمہوریت کے لپیٹے جانے کے
لیے ہمیشہ نااہلی اور بد عنوانی سبب نہیں رہی۔بالخصوص جو پرفارمنس بھٹو اور
نوازشریف نے دی۔وہ مثالی ہے۔بھٹو نے ایک نئے پاکستان کا نقشہ دیا۔نوازشریف
دور میں ترقی او رخوشحالی کی گواہ پوری دنیا ہے۔سی پیک اس اعتماد کی دلیل
ہے۔جہاں تک دوسرے کچھ بد عنوان اور نااہل لیڈران کا معاملہ ہے۔انہیں لانے
اور توانا کرنے والے بھی یہی غیر جمہوری بھائی ہیں۔یہ بھائی یا تو الو قسم
کے لوگ پسند کرتے ہیں۔جو صرف دی گئی پرچیاں پڑھ کر تبدیلی کے نعرے لگاتے
رہیں۔یا پھر انہیں عیار اور بے ایمان لوگ عزیز ہیں۔جو شرافت اور ایماندار ی
کا چولا پہنے ریاست بچانے کی تماشہ گری کرنے کا فن جانتے ہیں۔نااہل او ربد
عنوان قیادت ایک مسئلہ ضرور ہے۔مگر اس کے تانے بانے بھی آمریت سے جڑے ہوئے
ہیں۔نوازشریف آمریت کو وہ پتھر سمجھتے ہیں۔جو آئے برس نظم ونسق کے گھڑے کی
پیندا ٹوٹنے کا سبب بن رہاہے۔قوم کو چوہدری نثار کا یہ فامولہ بالکل
نامنظور ہے۔کہ پیندا ٹوٹا ہونے کے باوجود گھڑا بھرنے کی کوشش جاری رکھی
جائے۔نوازشریف ٹوٹے گھڑے کو بھرنے کی حماقت کرنے کی بجائے اس کا پیندا ٹھیک
کرنے کی سوچ رکھتے ہیں۔ |