اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 72واں سالانہ اجلاس
18ستمبر 2017کو شروع ہوا ۔جس میں 120 سے زائد ممالک کے سربراہان مملکت و
حکومت نے متنازعہ مگر اہم عالمی امور پر اظہارِ خیال کیا،امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ اور پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی پہلی بار اس اجلاس
میں شرکت کی۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی چار روزہ دورہ امریکہ کے لیے
16ستمبر2017کوروانہ ہوئے،جہاں انہوں نے امریکی نائب صدر مائیک سمیت ایرانی
صدر حسن روحانی،اردن کے شاہ عبداﷲ،برطانوی وزیراعظم تھریسامے ،عالمی بینک
کی سی ای او کرسٹا لینا جارجیوا سمیت مختلف رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور
اہم امور کو زیر بحث لاتے ہوئے جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم سے خطاب کیا ۔جو
واقعی لائق تحسین ہے۔ انہوں نے صاف اور واضح الفاظ میں امریکہ سمیت دنیا
بھر کو پیغام دے دیا کہ’’ملک میں سلامتی صورتحال بہتر اور جمہوریت مضبوط
ہے، دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے لاکھوں فوجی جوان خدمات انجام دے رہے ہیں
جبکہ اقوام متحدہ میں فرائض انجام دینے والے پاکستانی امن کیلئے کام کر رہے
ہیں۔ پاکستان نے دہشتگردی کیخلاف دنیا کا سب سے بڑا آپریشن کیا ۔دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بیشمار قربانیوں کے بعد افغانستان میں سیاسی
اور فوجی تعطل کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جانا پریشان کن ہے۔ہم کسی کے
لیے بھی قربانی کا بکرا بننے کے لیے تیار نہیں۔پاکستان افغانستان کی جنگ
اپنی سرزمین پر لڑنے کے لیے تیار نہیں نہ ہی ہم کسی ایسی ناکام حکمت عملی
کی تائید کرتے ہیں جو افغانستان اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو
درپیش مسائل میں اضافے کا سبب بنے ۔اپنے خطاب میں انہوں نے بتایا کہ 11
ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے آغاز سے لے کر
آج تک 27 ہزار پاکستانی دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔انہوں نے داعش،
القاعدہ سمیت دیگر انتہاپسند گروہوں کے ترجیحی خاتمے اور طالبان کے ساتھ
سیاسی حل تلاش کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے
خطاب میں مزید کہا کہ’’ بدقسمتی سے آج یواین چارٹر کی مسلسل خلاف ورزیاں کی
جارہی ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کی کوششوں کو طاقت کے
ذریعے سے کچلنے کے لیے 7لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔بھارت کشمیر میں جنگی
جرائم اور جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہاہے۔پاکستان کشمیر میں
بھارتی جرائم پر بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔بھارت جرائم پر
پردہ ڈالنے کے لیے ایل او سی پر سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے۔انہوں نے
بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت کو پیلٹ گنوں کے استعمال اور
دیگر جرائم سے روکے۔ بھارت کو پاکستان میں تخریب کاری کی پشت پناہی بند
کرنا ہوگی ، ہم بھارت کے ساتھ تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کے لیے تیار
ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بھارت کی کسی بھی مہم جوئی یا کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرئن
کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔پاکستان کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کیا جاتا
رہا ہے لیکن اگر بھارت لائن آف کنٹرول کے پار مہم جوئی یا پاکستان کے خلاف
محدود جنگ کے نظریے پر عمل کرتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے
گا‘‘۔اپنے خطاب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میانمار میں روہنگیا
مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔روہنگیا
مسلمانوں کے خلاف نسلی فسادات کی مذمت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ نہ
صرف تمام انسانی اقدار کے منافی ہے بلکہ ہمارے اجتماعی ضمیر کے لیے بھی بہت
بڑا چیلنج ہے۔مسئلہ فلسطین پربات کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا
کہ فلسطینی علاقوں پراسرائیل کے طویل قبضے اور غیرقانونی یہودی بستیوں کی
توسیع سے خطے میں بڑے پیمانے پرجنگ چھڑ سکتی ہے۔اس کے علاوہ انہوں نے اور
بھی معاملات کو زیر گفتگو بنایا ۔بلاشبہ وزیراعظم کا دورہ امریکہ سے دونوں
ممالک کے تعلقات میں برف پگھلنے کے آثار نظر آ رہے ہیں مگر کسی بڑی تبدیلی
کی توقع کرنا حماقت سے کم نہیں ہو گا۔مثل مشہور ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں
نقصان ہمیشہ گھاس کا ہی ہوتا ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو سرد جنگ
اور گیارہ ستمبر (9/11) کے بعد شروع ہونے والی جنگوں کے تناظر میں دیکھا
جائے تو پاکستان کا حال وہی ہوا جو گھاس کا ہوا کرتا ہے۔ البتہ دونوں ممالک
کے مابین تعلقات کی کہانی اتنی سادہ نہیں ہے۔ سچائی یہی ہے کہ روز اول ہی
سے دونوں ممالک کے درمیان ’’حلیفانہ‘‘ تعلقات رہے مگر اکثر شک و شبہ کا
شکار رہے۔امریکہ نے پاکستان پر بیشتر عرصہ تجارتی پابندیاں بھی لگا رکھی
رہی۔صرف یہی نہیں بلکہ جنگوں کے دوران امریکہ نے اپنے ہتھیاروں کے پرزے
دینے سے بھی انکار کر دیاتھا۔پاکستان جوہری پروگرامنگ کی مخالفت میں امریکہ
پیش پیش رہا۔کشمیر میں زلزلہ کے بعد امداد کی آڑ میں امریکہ نے سینکڑوں سی
آئی اے اور فوجی کارندے پاکستان میں داخل کر دئیے جن کا مقصد پاکستان کے
جوہری پروگرامنگ کو نقصان پہنچانا اور آئی ایس آئی میں گھسنا تھا۔ تاریخ
گواہ ہے کہ نائن الیون کے بعدجس طرح دہشت گردی اور دہشت گرد عناصر نے
پاکستان کو نقصان پہنچایا،اس کی بد ترین مثال دنیا میں نہیں ملتی اور اس
جنگ میں جتنا نقصان پاکستان کا ہوا ہے شاید ہی امریکہ یا کسی اور ملک کا
ہوا ہو،اور کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایک ایسا ملک جو دہشت گردی کا ہی شکار
ہو اور سپر پاور امریکہ کی طرف سے اسے ہی دہشت گرد ملک قرار دیا جائے ،یہ
کوئی نئی بات نہیں ہے امریکہ چونکہ بھارت کا دوست ہے اس لیے وہ پاکستان کو
سخت وقت دینا اپنا حق سمجھتا ہے۔دنیا گواہ ہے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف
پاکستان کی جدوجہد اور قربانیاں نظر نہیں آتی۔جس کی وجہ سے پاکستان آج بھی
ایک دورا ہے پر کھڑا ہے۔زیادہ دور کی بات نہیں 21اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیاء سے متعلق اپنی جس پالیسی کا اعلان
کیا،اس نے پرانی روش اختیار کرتے ہوئے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ ہم
پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر پاکستان ان لوگوں کو محفوظ پناہ گاہیں
دیتا ہے جن کے خلاف ہم لڑتے ہیں ۔اور دھمکی دی کہ پاکستان کو مزید ایسا
نہیں کرنے دیں گے اگر پاکستان نے ہمارا ساتھ دیا تو فائدہ ہو گا ورنہ نقصان
اٹھانا پڑے گا۔ڈو مور کا فارمولہ اپنا کرامریکہ نے ثابت کر دیا کہ وہ
پاکستان کی قربانیوں کو نہیں مانتا ،جس کے جواب میں پاکستان کی حکومت
،پارلیمان اور عوام نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ۔اس حوالے سے آرمی چیف جنرل
قمر جاوید باجوہ نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے دہشت گردی
کے خلاف بہت قربانیاں دیں لیکن اس سب کے باوجود کہا جا رہا ہے کہ پاکستان
نے دہشت گردی کا بلا تفریق مقابلہ نہیں کیا ،اگر پاکستان نے مقابلہ نہیں
کیا تو پھر دنیا نے بھی کچھ نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کو ڈو مور
کرنا پڑے گا۔پاکستان کے دوست ممالک نے بھی امریکی الزامات کو مسترد کرتے
ہوئے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں کو سراہا ۔سلام ہے افواج پاکستان
کے جوانوں ،سابق آرمی چیف (ر) جنرل راحیل شریف ،موجودہ آرمی چیف قمر جاوید
باجوہ کو جنہوں نے محدود وسائل کے ساتھ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی اوراچھے
اور برے طالبان کا فرق ختم کرتے ہوئے آپریشن شیر دل ،آپریشن راہ راست
،آپریشن راہ نجات ، آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفسادکئے،اور ملک سے دہشت
گردوں کا خاتمہ یقینی بنایا۔جس طرح پاکستان کی سلامتی کونسل کمیٹی نے بھی
امریکی پالیسی کو مسترد کیا اور ان کی امداد لینے سے انکار کیا ،وہ سب
امریکی توقعات کے برعکس تھا۔بات یہاں تک جا پہنچی کہ پاکستان نے امریکی
نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کو دورہ پاکستان سے بھی روک دیا۔امریکہ کے لیے
یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔
دورہ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم
شاہد خاقان عباسی اور امریکا کے نائب صدر مائیک پینس کے درمیان ملاقات ہوئی
تھی جس میں خطے میں امن و سلامتی کے لیے افغانستان کی صورتحال پر پاک
امریکہ مذاکرات جاری رکھنے پراتفاق کیا گیا تھا۔ملاقات میں مذاکرات کے
ذریعے دوطرفہ امور کا حل تلاش کرنے کے مقصد سے ایک امریکی وفد کے اگلے
مہینے دورہ پاکستان کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔شاہد خاقان عباسی اور مائیک
پنس کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے
صحافیوں کو بتایا تھا کہ وزیراعظم نے امریکا کے نائب صدر کو افغانستان اور
جنوبی ایشیاء کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی بیان کے بعد
قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں سے آگاہ کیا۔دوسری جانب افغان صدر نے بھی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے امریکا کی نئی افغان پالیسی
کو سراہا تھا اور ساتھ ہی عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ
مل کر کام کرنے کی اپیل کی ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کے موقع پر وزیر اعظم شاہد خاقان
عباسی نے قومی لباس زیب تن کیا ۔ان کے ہمراہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی
مستقل مندوب ملیحہ لودھی اور وفد کے دیگر اراکین بھی وہاں موجود تھے۔خطاب
کے بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندگان سے گفتگو
میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ’’ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے
موقع پر اہم امور پر موقف موثرطریقے سے اپنا مؤقف پیش کیا۔پاکستان کے نکتہ
نظر کو مثبت طور پر دیکھا گیا اور ہم نے ڈومور کی کوئی آواز نہیں سنی۔
امریکا کے ساتھ مختلف سطح پر بات چیت کی گئی جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی
طرف سے عالمی رہنماؤں کے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیے میں اْن سے ہونے
والی ملاقات انتہائی مثبت رہی۔اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل
انٹونیو گوٹریس نے قیام امن کے سلسلے میں پاکستان کے کردار کو سراہا اور
اظہار تشکر کیا۔ اس دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ میں
کام کرنے والے پاکستانیوں سے ملاقات کی۔واضح رہے کہ وہ پہلے پاکستانی
وزیراعظم ہیں جنہوں نے ان سے ملاقات کی ۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں کام
کرنے والے پاکستانیوں کو ملک کی معاشی بہتری سے متعلق بریف کیا۔
وزیراعظم پاکستان نے نیو پارک میں انہی خیالات کا اظہار کیا جو اس وقت قومی
بیانیہ قرار دیا جا سکتا ہے ،اس لیے پوری قوم اور ادارے اس پر متفق ہیں
۔دورہ امریکہ کا سب سے اہم پہلو وزیراعظم کی امریکہ نائب صدر مائیک پینس سے
ملاقات ہے ،جس میں عندیہ دیا گیا کہ بات چیت سے تعمیری پیش رفت ہو گی ۔بہر
حال وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکہ میں جو ملاقاتیں کی ہیں ،اس کے
اچھے نتائج نکلنے کی امید کی جا سکتی ہے ۔
٭……٭ |