پروفیسر رشید احمد انگوی
جمہوریت بطور سیاسی نظامِ حکمرانی دنیا بھر میں مقبول سہی مگر اس کی جومٹی
پاکستان میں پیدا ہوتی ہے اس کا کوئی جواب نہیں۔ پاکستانی عوام یا ووٹروں
کی اکثریت کو ان پڑھ اوربے خبر رکھ کر ان کا ایسے ایسے طریقے سے استحصال
ہوتا ہے کہ روئے زمین کا کوئی باضمیر انسان اس کا تصور تک نہیں کرسکتا۔ایک
عرصے سے کراچی میں تماشا دیکھا جاتا رہا کہ رات پولیس کے چھاپے میں اگر
کوئی انتہائی مجرم یعنی قاتل ڈاکوپکڑا گیا تواگلے روز شہر کی سڑکیں چوراہے
ٹریفک بند اوریونیورسٹی بورڈکے پرچے کینسل کہ ’’ہمارے کارکن‘‘پر ہاتھ ڈالا
گیا اوریہ بیان جاری کرنے والا اپنے اوپر عظیم جمہوری راہ نما کے سوا کوئی
نہ ہوسکتا تھا۔ اس کے برعکس ہزارہا معصوم مردوزن ’’بوری بندلاش‘‘کا مرتبہ
پاکر زندگی سے یوں محروم کردئیے گئے کہ کسی کی مجال نہیں کہ کہیں اس درندگی
کی رپورٹ درج کرائے اس لیے کہ یہ سب کچھ جمہوری مینڈیٹ کے دعوے کے ساتھ کیا
گیا اورمسلسل کیا گیا۔ ایسا بھی ہوا کہ ایک پارٹی کا موجودہ یا سابقہ کوئی
ایم پی اے کہیں قتل ہوا تو جمہوری مینڈیٹ کی خواہش پر چوبیس گھنٹے میں ایک
سو انسان درندگی کا شکار بنا کر ناحق قتل کردئیے گئے ۔ ایک اورجمہوری
مینڈیٹ نے اپنے لیے لازمی قراردے دیا کہ حکومتی خزانوں سے لے کر پلاٹوں ٗ
کارخانوں ٗ پلازوں وغیرہ جس چیز کی اندھادھند ٗ بے حدوحساب لوٹ مار چاہی
جمہوری مینڈیٹ کی برکت سے اپنے کھاتے میں ڈال دی۔ کسی نے پوچھنے کا خیال
ظاہر کیا تو جمہوری مینڈیٹ یوں دھاڑا کہ ہم فلاں قبر کا ٹرائل نہیں ہونے
دیں گے۔کیا شرق وغرب کی جمہوریتوں نے کہیں ایسا دیکھا یا سنا۔آگے چلیں کوئی
جمہوری مینڈیٹ اپنے چالیس سالہ خاندانی سیاست گری کے گن گارہا ہے۔تاریخ سے
پوچھیں کہ یہ عظیم جمہوریت کیسے وجود میں آئی تو پتہ چلتا ہے فلاں ڈکٹیٹر
کے ایک نائب ڈکٹیٹر یا صوبے دار نے ایک عددزیرومیٹر مرسیڈیز کا نذرانہ قبول
کیا ٗ اپنے نئے نویلے بنگلے کی تعمیر خصوصاًلوہے کے شعبے میں تمام خدمات
ونذرانے قبول کرکے فاؤنڈری نشین صاحبزادے کو عظیم الشان جمہوری مینڈیٹ
عطاکرکے صوبائی وزیر بنایا ٗ خاندانِ شریفاں کی سیاست کا سنگِ بنیاد رکھا
اورآنے والی صدیوں کے لیے ’’جمہوری مینڈیٹ ‘‘چغہ پہنایا اورکہا کہ ’’اتار
سکتے ہو تواتاردو‘‘۔اس عظیم صوبے دار کی عطاکردہ جمہوریت ہے کہ جان چھوڑنے
کا نام نہیں لیتی۔اگر کسی اعلیٰ سطح منصب پر نے کسی عہدے سے برطرف کیا توآج
تک مرثیہ جاری ہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔لوگوں نے کہا کسی اورنے نہیں
تمہارے خاص الخاص کرتوتوں کا نتیجہ ہے تو مینڈیٹ کی طاقت سے نغمہ جاری رکھا
کہ میں کہوں گا ٗ کہوں گا ٗ کہوں گا ٗروک سکتے ہو تومیرا نغمہ روک کر دکھا۔
آج کل پاکستانی قوم جنرل جیلانی کے بوئے ہوئے ببول اورکانٹوں کو بھگت رہی
ہے اورجمہوریت کا جیلانی ماڈل اپنی خزاں دکھانے پہ تلا ہوا ہے۔ ایک مترنم
آواز گونجتی ہے کہ میں جیلانی جمہوریت کا تسلسل ہوں ٗ مجھے ہٹا سکتے ہوتو
ہٹا لو ٗ مٹا سکتے ہو تو مٹا لو۔ غرض پاکستان کراچی ٗ لاڑکانہ اورلاہور
جیسے مقامات کے حوالے سے جمہوری مینڈیٹ کے مزے لوٹ رہی ہے۔ نہ روٹی ٗ نہ
کپڑا ٗ نہ مکان ایک جانب تو کراچی کی کچرا کنڈی دوسری جانب اورماڈل ٹاؤن کے
چودہ شہدا ء کی کہانی تیسری جانب۔ کہتے ہیں لاہورواسلام آباد کے جیلانی
سیاست کے شہسواروں کی پینگیں مودی سے جڑی ہوئی ہیں۔وہ لاہور جو کبھی حب
الوطنی اوربھارت دشمنی میں کوئی ثانی نہیں رکھتاتھا ۔آج جمہوریت کے دیوتاؤں
کے اثر سے اپنی فطرت بول چکا ہے۔مودی کی یاری حلقہ ایک سوبیس والوں کو اب
بری نہیں لگتی بلکہ مینڈیٹ نے اسے محبوب بنا ڈالا ہے۔ ہماراتومشاہدہ ہے کہ
جمہوریت سے بھرپورمینڈیٹ کتنی ہی قبروں کا صدقہ ہے۔ یوں کہیے کہ پارلیمنٹ
کا بڑا حصہ کسی خاص قبر کی نسلوں کے میرٹ پر حاصل ہوتا ہے یعنی دنیا کی
منفرد ’’مجاورپالے ٹکس‘‘اوریہی وجہ ہے کہ مینڈیٹ والوں کو زندہ انسانوں کی
فکر اسی لیے نہیں ہوتی کہ طاقت کا سرچشمہ تو قبرستان ہوتے ہیں۔ ایک اورپہلو
کہ ملک پر احسان جتلاتے نہیں ٹھہرتی کہ ہم کروڑوں کے نمائندے ہیں ۔ بالکل
سامنے کی حقیقت دیکھئے کہ موجودہ حکمران پارٹی ملک کے سترہ فی صد
(17%)ووٹوں سے منتخب ہوئی یعنی یہ تراسی فیصد(83%)ووٹروں کی نمائندگی نہیں
کرتی مگر یہ مینڈیٹ کی دھونس ہے کہ ڈیڑھ کروڑ ووٹ لے کر بھی بائیس کروڑ
انسانوں کے لیڈر کہلانے پر مصر ہیں اوراگر روک سکتے ہوتو روک لو۔جمہوریت کا
ایک اورپہلو حلقہ ایک سوبیس میں سامنے آیا جہاں ’’چوالیس مارکہ جمہوریت‘‘کے
ڈنکے بج رہے ہیں۔نہ جانے ہماری قوم کب دوپارٹی نظام اورپچاس فیصد رجسٹرڈ
ووٹروں سے زیادہ کی بنیاد پر نمائندگی کا اصول تسلیم کرے گی۔ ہم ویسے تو
مغرب کے عاشق بے مثال ہیں اوروہاں بس جانے کے خواب دیکھتے ہیں مگر وہاں چار
یا زیادہ سے زیادہ آٹھ سال کے بعد عہدے کا خواب بھی نہیں دیکھتے اوریہاں
فخر سے کہا جاتا ہے کہ ہمارا فلاں سیاسی ٹبر چالیس سال سے مینڈیٹ لیے پھرتا
ہے اورمزید چالیس سال کے خاندانی مینڈیٹ کے لیے سر پیر ماررہا ہے (جب اصل
مینڈیٹ جیلانی کی عنایت خسروانہ اوربدترین آمرانہ کارروائی کے سوا کچھ بھی
نہیں)۔آپ نے ایک اورنظارہ بھی دیکھا کہ کچھ ممبران جی جی بریگیڈ(گالم گلوچ
بریگیڈ)سرکاری خزانے سے وزارتوں کی مراعات وصول کرنے پر مامورہوگئے کہ ان
کے آقاؤں نے بھی اسی کی دہائی میں ایسے ہی کارنامے کیے تھے۔ آج کل نیب کا
چرچا ہے۔ کاش کہ عوام جان سکیں کہ پچھلے پانچ یا دس سال میں اس محکمے پر کل
خرچ کیا ہوا ٗ اورآمدن کتنی ہوۂ۔ ایک سابق حکمران آج کل محکمہ انصاف کے
بارے میں جو فرمودات جاری کررہا ہے وہ اس قابل ہیں کہ میوزیم میں رکھ کر
آنے والی نسلوں کو حقیقتِ حام سے آگاہ کیا جائے۔عمران خان کی خوش قسمتی کا
کہنا کہ چھوٹا یا بڑا حکمران (ن ہو یا پ)جب تک اس پر تبّرا نہ کرلے اس کی
بات پوری نہیں ہوتی ویسے عمران خان کی پارٹی کا نام بھی انصاف سے لیا گیا
اوراس نے انصاف کا بول بالا کرکے تاریخ ساز کارنامہ سرانجام دیا ٗ کیا ہوا
جو اس پرایک دودرجن مقدمات چلا دیئے گئے ۔ گالا لائی ٗ بابر اورعباسی ٹائپ
شخصیات ابھی اوربہت ہوں گی جو خان کا نام ونشان مٹانے کی حسرتیں دل میں لیے
پھرتی ہوں گی ۔ ہماری سیاست کا کیا ہی عجوبہ ہے کہ قائد حزب مخالف بھی اس
قدر پالیوشن سے متاثر قرار دیا جارہا ہے کہ اسے بدل ڈالا جائے حالانکہ ہم
خورشید شاہ کو ملک کا مایہ ناز سیاست دان سمجھتے ہیں ۔ پاک فوج کے سربراہ
نے ارسلان شہید کے اہل خاندان کے غم میں شریک ہوکر شان دار مثال قائم کی۔
پاک فوج کی عظمتوں اورقربانیوں کو ہمارا سلام عقیدت ومحبت پہنچے ۔ حکمران
ٹولے کا وزیر خزانہ بھی کیا خوب ہے کہ بائیس کروڑ رعایا سے لاتعلق ہوکر
اپنی اولاد کو یوں نوازا کہ شرق و غرب میں اس کے چرچے ہیں اورابن ڈار کے
عظیم الجثہ پلازوں کی عظمتوں کے فسانے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہیں۔ یہ
امریکی برطانوی خزانوں کے وزیر بے چارے جمہوریت کے ان دیو قامت مینڈیٹوں کو
سمجھ ہی نہیں سکے۔ ایک پنجابی محاورہ ہے :’’ہوری نوں ہوری دی ۔ انھے نوں
ڈنگوری دی‘‘اوریہ کہ ’’کہین نوں کہین دی۔ تے بلی نوں دنہی دی‘‘۔مینڈیٹوں
والے اپنے پناموں ٗ اقاموں ٗ پلازوں ٗ جائیدادوں کی فکر کریں مگر ہم بے
چارے عوام کے ’’ٹماٹر‘‘تواپنی اوقات پر لے آئیں ۔ ہم آپ کے شکر گزار ہوں گے
اورآنے والی تمام صدیوں میں آپ کے مینڈیٹوں کی پوجا پاٹ کرتے رہیں گے۔ |