برما میں جوکچھ ہورہا ہے اسے ظلم وبربریت کہنا کافی
نہیں۔انسان کی تخلیق سے اب تک کسی نے انسانوں پر ایسا ظلم دیکھااورنہ سنا ۔عالمی
ضمیر کی بے حسی اورمجرمانہ خاموشی برماحکومت کی ریاستی بربریت سے بڑا سانحہ
اورالمیہ ہے ۔انسانیت کے حامی برما کی ریاستی بربریت کیخلاف اٹھ کھڑے
ہوں۔کسی مذہب کے انسانوں کوناحق قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔برماحکومت
کی سرپرستی میں مسلمانوں کاقتل عام ناقابل برداشت ہے ۔برماکے مسلمانوں کی
نسل کشی کے سلسلہ میں یونائٹیڈ نیشن اوردنیا کی مہذب ومقتدرقوتوں
کاکردارایک سوالیہ نشان ہے۔ برما کا مسئلہ آج کا نہیں۔1826میں انگریزوں نے
اس پر قبضہ کیا ،انگریزگئے تو وہاں بدھوؤں کو اٹھانے کی کوشش کی ،1942میں
چالیس دن تک قتل عام جاری رہا،ڈیڑھ لاکھ لوگ شہید ہوئے،1947میں جب انگریز
جا رہے تھے تو پھر قتل عام ہوا،1954میں باقاعدہ فوج نے قتل عام کا آغاز
کیا،1982میں بھی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔برما میں مسلمانوں پر مظالم
کے خلا ف پاکستانی قوم سراپا احتجاج ہے۔سیاسی و مذہبی جماعتوں نے احتجاج
ریکارڈ کروایا وہیں کالم نگارں،شاعروں،ادیبوں کی نمائندہ تنظیم ورلڈ کالمسٹ
کلب نے الحمرا ہال میں سیمینار کا انعقاد کیا جس میں ورلڈ کالمسٹ کلب کے
سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی،چیئرمین محمد دلاور چوہدری،صدر مظہر
برلاس،جنرل سیکرٹری محمد ناصر اقبال خان،پیپلز پارٹی کے رہنما میاں منظور
احمد وٹو،تحریک انصاف کے رہنما و اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمو
الرشید،جماعت اسلامی کے ترجمان امیر العظیم،جماعۃ الدعوۃ لاہور کے مسؤل
ابوالہاشم ربانی،پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چوہدری،مسلم لیگ(ن) کی رکن قومی
اسمبلی عارفہ خالد پرویز،مولانا محمد زبیر البازی،اختر ڈار،کیپٹن (ر)عطاء
محمدخان ،رقیہ غزل ،سردارمرادعلی خان،قاضی سعداخترقریشی ،محمدآصف عنایت
بٹ،شاہد رشید ، محمداکرم چودھری ،عابدسلمان،ملک غضنفر اعوان ،عبداﷲ ملک ،نبیلہ
طارق ،ممتازاعوان ،میاں اشرف عاصمی ،سلمان پرویز،محمدشاہد محمود ،خالدنصر،غلام
عباس صدیقی،علی عمران شاہین،طاہراقبال خان اورخاکسارنائلہ شوکت نے خطاب
کیا۔سیمینار میں اہل قلم کی کثیر تعداد موجود تھی۔ ڈاکٹر محمد اجمل خان
نیازی کا کہنا تھا کہ دنیا مین جہاں ظلم ہوتا ہے وہ مسلمانوں پر ہوتا
ہے،ذلت صرف مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے۔علامہ اقبال نے یہ بات پہلے کہہ دی
تھی کہ بجلی بے چارے مسلمانوں پر گرتی ہے،جو اپنی زندگی،ایمان ،نظریات کی
حفاظت نہیں کر سکتا اسے دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ہم سے ہمارے حق چھین
لئے گئے۔ہمارے پاس کچھ نہیں رہا۔برما کے مسلمانوں کے ساتھ بہت مظالم ہو رہے
ہیں۔ مسلمانوں سے دنیا نے ڈرنا چھوڑنا دیا ہے۔مسلمان ہی صرف اذیت کے
اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔برما میں مظالم کے حوالہ سے جلسے ہوتے ہیں۔ایٹم
بم جس قوم کے پاس ہوں اس قوم کی حالت کمزور ایسا نہیں ہونا چاہئے۔اگر زندہ
ہیں تو ہمیں ثابت کرنا چاہئے کہ ہم زندہ ہیں۔ورلڈ کالمسٹ کلب کے چیئرمین
محمد دلاور چوہدری نے کہا کہ ہم ادھر بھی ہوتے اور ادھر بھی یہ رویئے ختم
کرنے ہون گے۔ ہمیں جہاد کی اشد ضرورت ہے،تعلیمی،معاشی میدان میں جہاد کرنا
ہے۔جب تک آواز مضبوط نہیں ہو گی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔انسانی حقوق سات ہزار
سال میں ڈھونگ ہیں۔اگر ہماری آواز میں طاقت ہے تو اقوام متحدہ میں آواز
بلند کریں ،برمی سفیر کو بلائیں ۔ جب تک ہم جہاد کا فارمولا نہیں اپنائیں
گے معاشی،سماجی،علمی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے۔انتہائی افسوس کی بات ہے کہ
ہم ایٹمی طاقت ہیں لیکن بارڈر غیر محفوظ ہیں۔ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے
گا ۔ساری دنیا ایک طرف ہو جاتی ہے امریکہ ویٹو کرتا ہے اور اسرائیل ابھی تک
قائم ہے۔اگر اپنے آپ کو مضبوط نہیں کریں گے تو کچھ نہیں کر سکیں گے۔ دنیا
مفادات کی ہے۔دنیا آپ کو کارنر کر رہی ہے کیونکہ فائدہ نہیں
اٹھایا،انٹرنیشنل انٹرسٹ ڈیولپ نہیں کر سکے۔سی پیک جن قومون کے انٹرسٹ میں
ہے وہ لے کر آ رہے ہیں،پہلے زرداری،مشرف سی پیک کے سرخیل بنے ہوئے تھے اب
موجودہ حکومت کہتی ہے کہ سی پیک ہم لے کر آئے ہیں۔سی پیک کی وجہ سے الیون
بلین ڈالر کی انویسمنٹ ملی باقی لون ہے۔ ورلڈ کالمسٹ کلب کے صدر مظہر برلاس
نے کہا کہ مسلمانوں کی نسل کشی قیام پاکستان کے وقت ہوئی
تھی،راوی،چناب،ستلج سرخ ہو گئے تھے اور وہ خون مسلمانوں کا تھا۔ مسلمانوں
کی ریاستیں دہشت گرد لیکن ظلم کرنے والے انصاف پسند بنے ہوئے
ہیں۔امریکہ،اسرائیل ،انڈیا ایک پیج پر ہیں اور عالمی سیاست میں شمالی
کوریا،روس،ترکی،چین ،پاکستان ایک پیج پر ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو
ایک جسد کی مانند کہا تھا۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئے اور اپنی
خامیوں کا احاطہ کرنا چاہئے۔اسلامی تعلیمات میں ظلم کو ہاتھ سے روکنے کا
حکم دیا گیا ہے۔ میاں منظوراحمد وٹو نے کہا کہ برما کے مسلمانوں پر مظالم
کی وجہ سے ہر پاکستانی پریشان ہے۔حکومت برما کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج
ریکارڈ کروائے ۔اگر برما باز نہیں آتا تو سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔محمو
الرشید نے کہا کہ ورلڈ کالمسٹ کلب کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ،مختلف
اہم ایشور پر پروگرام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جو واقعات ہم دیکھ رہے ہیں
سوشل میڈیا پر چیزیں آ رہی ہیں ایسا بربریت کا المناک مطاہرہ کم ہی ملتا
ہے۔کلہاڑیوں کے ساتھ بچوں کو ذبح کیا جا رہا ہے۔مظالم کی جتنی مذمت کی جائے
کم ہے۔ حکومتی سطح پر جس طرح سٹینڈ لینا چاہئے تھا اس طرح جرات و دلیری نظر
نہیں آئی۔برمی مسلمانوں کی مدد کے لئے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔برما کا
سفارتخانہ بھی بند نہیں کیا۔پنجاب و قومی اسمبلی میں قراردادیں پاس ہو
جائیں گی اور معاملہ ختم ہو جائے گا۔پاکستان ایٹمی طاقت ہے۔دنیا کی چھٹی
بڑی مملکت ہے۔روٹین کے مذمتی بیان پر احتجاج کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ
امریکہ کا بھی دوہرا معیار واضح ہو چکا ہے،۔اسے برما کے مسلمانوں پر مظالم
کیوں نظر نہیں آتے۔طیب ارگان کی تحسین کرنی چاہئے کہ خاتون اول وہاں پہنچ
کر سامان تقسیم کر رہی ہیں اور اعلان کیا کہ مظالم بند کریں ورنہ ہم بارڈر
کراس کر کے پہنچ جائیں گے یہ بات پاکستان بھی کر سکتا تھا۔حسینہ واجد جس نے
مہاجرین پر دروازے بند کر دیئے اس کے خلاف بھی بات کر سکتے تھے۔ حکمرانوں
کے رویوں کے خلاف بھی احتجاج کی ضرورت ہے۔جو قائدانہ کردار ادا ہونا چاہئے
تھا وہ نہیں ہوا۔امیر العظیم نے کہا کہ 1992میں مشرقی پاکستان گیا اور وہاں
لوگوں کی حالت زار دیکھی۔ چالیس لاکھ کی آبادی میں سے پانچ لاکھ لوگ مارے
جا چکے ہیں ۔لفظوں سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے ،عمل سے حل ہوتے
ہیں۔پاکستانی حکومت او آئی سی کی آڑ میں بدعملی کا نمونہ بنی ہوئی
ہے۔،حکومتیں مفادات کی شکار اور بے حسی کے کفن اوڑھ کر دفن ہو چکے ہیں
اسوقت باہر نکلتے ہیں۔برمی حکومت کو ظلم سے کون روکے گا،قومی اسمبلی کی
قرارداد نہیں روک سکتی۔برما کو وارننگ دی جائے کہ وہ ظلم بند کرے ۔برما کو
دہشت گرد ملک قرار دیا جائے۔اسلامی دنیا کے سامنے آواز اٹھائی جائے۔نوید
چوہدری نے کہا کہ برما کے مسلمانوں پر جو کچھ ہوا قابل مذمت ہے۔ عالمی
اداروں میں بیٹھ کر ان ایشو کا اٹھانا چاہئے۔،سیکورٹی کونسل میں اٹھائیں
ایک قرارداد کی ضرورت ہے جو ملیحہ لودھی دے سکتی ہیں لیکن انہوں نے نہیں
کیا۔ابوالہاشم ربانی نے کہا کہ آج ہم جس ظلم کے خلاف ہم اکھٹے ہوئے ہیں اس
کا سلسلہ نیا نہیں ،مسلمانوں پر ظلم دنیا بھر میں ہو رہا ہے۔بنگلہ دیش اور
برما کے درمیان جنگل میں مقیم برمی مسلمانوں میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن
کھانا تقسیم کر رہی ہے۔میڈیکل کیمپ لگا کر طبی امداد دی جارہی ہے اور محفوظ
مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ آزادیاں ایسے نہیں ملتیں بلکہ چھیننی پڑتی
ہیں۔عالم اسلام کو برما کے مسلمانوں کے خلاف کھڑا ہونا ہو گا۔غلامیوں کے
خاتمے کے لئے نکلنا ہو گا۔امت مسلمہ کی خوشحالی کا راز دہشت گروں کے خلاف
جہاد فی سبیل اﷲ میں ہے۔ عارفہ خالد پرویز نے کہا کہ اقوام متحدہ تک آواز
پہنچانی چاہئے اور اختلافات ختم کر کے ہمیں آپس میں متحد ہونا چاہئے۔
مولانا محمدزبیر البازی نے کہا کہ برما کے مسلمانوں پر دہشت ناک مظالم
دیکھے تو رنج وغم،غصے،نفرت کی کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا،زندہ
انسانوں کو جلایا جا رہا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے گھروں پر قیامت بیت رہی
ہے وہ دہشت گرددرندوں کا شکار ہو رہے ہیں۔چنگیز خان،ہلاکو سے بھی بدھسٹ
دہشت گرد آگے نکل گئے۔دنیا خامو ش ہے اور مسلم حکمران بھی خاموش تماشائی
بنے ہوئے ہیں۔ نیلما ناہیددرانی نے کہا کہ مسلمانوں میں اتحاد نہیں ہے جس
کہ وجہ سے دنیا بھر میں مظالم ہو رہے ہیں۔سوڈان،انڈونیشا میں الگ ملک بنا
دیئے گئے لیکن کشمیر ،فلسطین کو آج تک آزادی نہیں ملی۔افواج پاکستان نے
دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا ،قربانیاں دیں اور دہشت گردوں کا قلع قمع
کیا۔رقیہ غزل نے کہا کہ برما کے مسلمانوں کی مدد کے لئے ورلڈ کالمسٹ کلب کی
آج کی تقریب بہت بڑا قدم ہے۔کشمیر،فلسطین سمیت ہر خطے میں مسلمان مر رہے
ہیں اور ہم خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ |