اتنی شدید مہنگائی اور قربانی کے
جانوروں کی قیمتوں کی گرانی کے باوجود جب بکرے کی تلاش میں بکر منڈی پہنچا
تو قیمتیں سن کر ہاتھ پاﺅں الگ پھولے اور ادھر سے ادھر چکر لگانے سے سانس
الگ۔ جب ایک بکرا کسی حد تک پسند آیا اور اس کے مالک سے گفت و شنید شروع
ہوئی تو مجھے ایسا لگا جیسے بکرا مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہو، اس کے مالک کی
اجازت سے میں نے اپنا کان بکرے کے منہ کے پاس کیا تو مجھے کچھ محسوس ہوا،
ایسا لگا جیسے قدرت نے اسے انسانی زبان عطا کردی ہو اور وہ مجھ سے گفتگو
کرنا چاہتا ہے۔ میرے تخیل نے پرواز کی تو اس کی باتیں سمجھ میں بھی آنا
شروع ہوگئیں جو کچھ اس طرح تھیں۔
بکرا زبان حال سے کہہ رہا تھا، مجھے پتہ ہے جناب آپ کو یہاں قربانی کا جذبہ
نہیں مجبوریاں لے کر آئی ہیں، میں حیران ہوا کہ یہ تو بڑا پہنچا ہوا بکرا
ہے، وہ کہنے لگا، اس مہنگائی کے دور میں کون اللہ کی خاطر قربانی دینے کا
سوچتا ہے، سبھی اپنے بچوں کی فرمائش پر، اہل محلہ اور عزیز رشتے داروں کو
دکھانے کے لئے مجبور ہوکر یہاں آتے ہیں اور میرے کسی بھائی کو روتا پیٹتا
لے جاتے ہیں۔ عید پر اسے ذبح کر کے جو اچھا اچھا گوشت ہوتا ہے وہ خود کھاتے
ہیں اور جن لوگوں کو سارا سال گوشت کا ایک ٹکڑا نصیب نہیں ہوتا ان کے حصے
میں کیا آتا ہے، چھیچھڑے اور اوجری، کوئی بہت ہی دریا دل واقع ہوا ہو تو وہ
پھیپھڑا اور سری بھی اللہ کی راہ میں بہا دیتا ہے، دروازے پر جو سائل آتے
ہیں ان کو پہلے دھتکارا جاتا ہے اور پھر بڑا احسان کر کے چند بوٹیاں پھینک
دی جاتی ہیں، بوٹیاں بھی وہ جن کو وہ خود اور ان کے بچے منہ لگانا پسند
نہیں کرتے، مہینے بھر کے لئے فریزر بھر لئے جاتے ہیں، نظریں ہیں کہ پھر بھی
نہیں بھرتیں۔ تھوڑا سا کھانس کر دوبارہ کہنے لگا، میں ہوں تو ایک بے زبان
بکرا لیکن میرے بھی کچھ محسوسات (Feelings) ہیں جو میں کسی کو بیان نہیں
کرسکتا، مجھے ترس آتا ہے اپنے آپ پر اور اپنے بھائیوں پر کہ اللہ نے ہمیں
کس قوم کے پاس قربان ہونے کے لئے بھیج دیا ہے، یہ ایسی قوم ہے جس میں بے
حسی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، قربانی کا مقصد یہ تو ہرگز نہیں تھا کہ سال
کے سال بکرا، دنبا، گائے یا اونٹ اپنی اناﺅں کی بھینٹ چڑھا دئے جائیں، اس
قوم کے لوگوں کو قربانی تو اپنی ضد کی کرنی چاہئے، یہاں کے لوگوں کو اپنی
انا کی قربانی کرنا چاہئے، یہاں کے حکمرانوں کو اپنی خواہشات کی قربانی
کرنی چاہئے، لیکن ہوتا کیا ہے، ہر شخص اپنے لئے قربانی طلب کرتا ہے، ہر ایک
کی یہی خواہش ہوتی ہے کی میرے عزیز و اقارب، میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی،
میرے بیوی بچے اور دوست احباب صرف اور صرف میری ذات کو سامنے رکھیں، میری
کوئی بات بری لگے یا اگر میں ان کے ساتھ کوئی زیادتی بھی کر جاﺅں تو وہ
اپنے جذبات کی قربانی دیتے ہوئے اف تک نہ کریں۔ عوام، حکمرانوں سے قربانی
مانگتے ہیں تو حکمران عوام سے!
ادھر ادھر دیکھ کر، تھوڑی سی جگالی کر کے دوبارہ گویا ہوا، اگر اپنی جیب کے
مطابق جانور تلاش کرنے والے یہ لوگ اللہ کے لئے قربانی کا جذبہ رکھتے، اللہ
کے احکامات کے مطابق زندگیاں بسر کرتے تو کیا تمہارے ملک کے ایسے حالات
ہوتے؟ ان لوگوں سے پوچھ کر دیکھو اکثر لوگ ایسے ہیں جن کی اپنے ماں باپ،
بہن بھائیوں، عزیزوں سے لڑائیاں چل رہی ہیں، وہ ان سے ناراض ہیں اور اللہ
کے دین کے مطابق جس شخص کی ماں، باپ، بھائی یا بہن اس کی کسی زیادتی یا
کرتوت کی وجہ سے ناراض ہو، اس کی کوئی عبادت، کوئی قربانی اللہ قبول کرتا
ہے؟ تمہارے وطن میں کچھ عرصہ قبل زلزلے نے تباہیاں مچائیں اور اب تم سیلاب
میں گھرے ہوئے ہو، کیا یہ اللہ کی طرف سے تم سے ناراضگی کی نشانیاں نہیں
ہیں، تم اپنے ہم وطنوں کو سیلاب کے بے رحم پانیوں میں بے یار و مددگار چھوڑ
کر کیسے اللہ کو خوش کرسکتے ہو؟ اتنے بڑے بڑے محلات میں رہنے والوں کو
معلوم نہیں کہ ان کا ٹھکانہ آخر کار دو گز زیر زمین ہوگا؟ تو وہ کس بل پر
چند ہزار کے جانور قربان کر کے اللہ کی خوشنودی کی تلاش میں ہیں؟ تم نے
کبھی اپنی حرکتوں پر غور کیا ہے، تمہاری پوری قوم پر ایک بے حسی چھائی ہوئی
ہے، تم اگر صرف ہسپتالوں اور کچہریوں میں ایک دن گزار لو تو تمہیں آٹے دال
کا بھاﺅ پتہ چل جائے۔ کہیں تم کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کرتے ہو تو
کہیں دوائیوں میں، اور تو اور جانوروں کے کھانے کی چیزوں میں حرام چیزوں کو
شامل کرنے سے بھی نہیں چوکتے، رشوت تو ایسے مانگتے ہو جیسے یہ تمہارا حق
ہو، مجھے پتہ ہے کہ جس ٹرک میں ہم سارے بکرے اس بازار تک لائے گئے ہیں اس
ٹرک کے ڈرائیور نے کہاں کہاں اور کس کس کو کتنی رقم دی ہے۔ میرا مالک تم سے
تیس ہزار روپے مانگ رہا ہے جبکہ میری قیمت کسی طرح بھی سات آٹھ ہزار سے
زیادہ نہیں، اس کے باوجود وہ پورے پچیس ہزار روپے لے گا، ایک پیسہ بھی کم
نہیں۔ دوبارہ کہنے لگا، تم لوگ تو اپنے بچوں کو بھی شروع دن سے جھوٹ اور
فراڈ کے نئے نئے طریقے بتاتے ہو، ان کی تربیت ہی ایسے کرتے ہو کہ کیسے اور
کہاں سے مال حرام سمیٹا جاسکتا ہے، پورے سال میں اگر نمازیں بھی پڑھتے ہو
تو جمعہ کی یا عیدوں کی، تم تو نماز کے لئے اپنے وقت اور نیند کی قربانی
نہیں دے سکتے اور پھر کہتے ہو کہ تم اللہ کے لئے جانوروں کی قربانی دے کر
اسے خوش کر رہے ہو! کہنے لگا مجھے پتہ ہے تم ان باتوں سے خوش نہیں ہو رہے
ورنہ میں تمہارے مولویوں اور علماء کرام کے بارے میں بھی بہت کچھ کہنا
چاہتا ہوں جن لوگوں نے اپنی اور تمہاری خواہشات کا نام دین رکھ چھوڑا ہے،
جو سوچتے ہیں تو صرف پیٹ کی خاطر، منصب کی خاطر یا اپنے جاہ و جلال کی
خاطر، ارے تم تو اتنے نامراد لوگ ہو کہ جب تمہارا کوئی تہوار آتا ہے تو
کھانے پینے کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کر کے قیمتیں بڑھا دیتے ہو، حج و عمرے
کے سیزن میں کرائے بڑھا دیتے ہو، اپنے نام دیکھو، اپنا مذہب دیکھو اور اپنے
کرتوت دیکھو، بڑے آئے قربانی دینے والے....!
اس کی ایسی جلی کٹی باتیں سن کر میں مزید وہاں ایک لمحہ نہ ٹھہر سکا اور
واپس آگیا، اب اس کشمکش میں ہوں کہ گھر جاکر کیا جواب دوں گا کہ میں بکرا
کیوں نہیں لایا؟ ذہن میں یہ خدشہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اگر
کوئی اور بکرا لے جاﺅں اور وہ اس سے بھی زیادہ ”پہنچا“ ہوا ہو اور میری قوم
کے وہ کرتوت جو ابھی تک پوشیدہ ہیں وہ بھی ببانگ دہل کسی کو بتا دے، آپ ہی
بتائیں اب کیا کروں....؟ |