ڈوریاں ہلانےوالے اب غلطی نہہیں کریں گے

جب زرداری دور اپنے احتتام کو پہنچ رہاتھا تو اگلے الیکشن کے لیے اتنی سردرد سیاسی جماعتوں کو شاید نہ تھی۔جتنی غیر سیاسی قوتوں نے لی۔زرداری دور ان کے لیے ایک آئیڈیل دور تھا۔جو مانگا ملا جو چاہا کرلیا۔جس کو روکنا چاہا وکوالیا گیا۔یہ وہ دور تھا۔جب پرویز مشرف جسے آج پی پی والے اپنی بی بی کا قاتل کہنے کی سیاست کررہے ہیں۔زردار ی صاحب کی سب سے زیادہ محبت رکھتے تھے۔اپنی فراغت کا غصہ مشرف کو تھا۔مگر زرداری حکومت کی طرف سے ملنے والی نوازشوں سے اس قدر مطمئن ہوئے کہ فراغت کا گلہ بھول گیا۔ زرداری دور میں اس آمر کو ایک کانٹا تک نہ چبھنے دیاگیا۔وہ بی بی کا قاتل کہنے والے انہی لوگوں کی نظروں کے سامنے دنیا بھر میں جھومتا۔تھرکتارہا۔ زرداری حکومت نے تکلیف تو کیا پہنچانی تھی۔اس کی تمام تر ضروریات کی فراہمی کا ذمہ نبھایا۔اب جیسے جیسے زرداری ڈارلنگ کادور احتتام پذیر ہورہا تھا۔یہ فکر لاحق ہور ہی تھی۔کہ زرداری جیسا کوئی نیا سیٹ اپ کیسے تیار کیا جائے۔ایک بار استعمال کیے گئے مہرے کو فوری دوبارہ استعمال نہ کرنے کی بری عادت نے ان لوگوں کی نظرمیں زرداری صاحب کی اہمیت کم کردی تھی۔اگر ذرا سی محنت کی جاتی تو پی پی کو دوبارہ کامیا ب کروایا جاسکتاتھا۔مگر بے ایمانی کا کھیل کھیلنے والے کسی نئے لیبل میں اپنا ردی مال بیچنے کی پالیسی ترک کرنے پر آمادہ نہ تھے۔تحریک انصاف پر پچھلے کچھ برسوں سے محنت کی جارہی تھی۔مگر پورا اطمینا ن ابھی بہت دور تھا۔الیکشن دوہزار تیرہ بس ایسے ہی کشمکش کے دور میں آیا۔جب کوئی تدبیر نہ سوجھی تو اسی آدھ ادھوری تحریک انصاف کو اپنی نئی ڈارلنگ قراردے دیا گیا۔اندازہ تھا۔کہ تحریک انصاف میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے کچھ کمال دکھائیں گے۔اور کچھ کمال پردے کے پیچھے رہ کر دکھایا جائے گا۔افسوس ان کا منصوبہ عوام الناس نے رد کردیا۔نہ عمران کو بھجوائے گئے نگینے کام آئے۔نہ پردے کے پیچھے چھپ کر ڈالی جانے والی گھوریاں۔بھولی بھالی عوام نے سب کچھ نظر اندازکرکے وہی کیا جو ان کے دل نے چاہا۔
ان دنوں تحریک انصاف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی تبدیلی پر توجہ دے رہی ہے۔بظاہر یہ کوئی بڑا ٹاسک نہ تھا۔عددی لحاظ سے موجودہ قائد حزب اختلاف کی جماعت کو تحریک انصاف سے کچھ خاص برتری نہیں ہے۔پھر اس کے اتحادیوں کی تعداد بھی عمران خان کے اتحادیوں کی تعداد کے قریبا برابر تھی۔اب متحدہ نے پی پی کی بجائے تحریک انصاف کو اس معاملے پر سپورٹ کرکے فضا یکسر طور پر اس کے حق میں بنا دی ہے۔اس لحاظ سے قائد حزب اختلاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد مذید آسان ہوچکی۔جانے تحریک انصاف کو اس کام میں مذید کیوں تاخیر کا سامناہے۔اسے عمران خاں کی بد قسمتی ہی تصورکیاجاسکتاہے۔جو بنی بنائی گیم کے بگڑ جانے کا مقدر رکھتے ہیں۔جس طرح انہیں متحدہ کی سپورٹ حاصل ہوچکی تھی۔قائد حزب اختلاف کی تبدیلی چٹکیوں کا کھیل بن چکی تھی۔مگر خاں صاحب کے لیے نئی رکاوٹیں اس کھیل کو طویل بنانے کا باعث بن رہی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو نیا قائد حزب اختلاف بنانے کے لیے نامزد کیاتھا۔قریشی صاحب کی تحریک انصاف کے اندر سے بھرپور مخالفت آنے کے بعد خاں صاحب کو بیک فٹ پر جاناپڑا۔کچھ ایسی ہی صورت حال تحریک انصاف کے اتحادیوں کی جانب بھی سامنے آئی۔کچھ اتحادی متحدہ سے ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے لیے چلائے جانے والی اس تحریک کی مخالفت کرتے ہیں۔کچھ اتحادی اس تبدیلی کے سرے سے ہی خلاف ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان آخری پانچ چھ مہینوں میں اس نئی چھیڑ کا مقصد کیا ہے۔یہ فائدہ تو شاید کچھ نہ د ے مگر اپوزیشن کو مذید تقسیم ضرورکردے گی۔
تحریک انصاف کی جانب سے قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کا مقصد غالبا یہی ہے کہ جو غلطیاں پچھلے الیکشن سے قبل ہوئیں۔انہیں نہ دہرایاجائے۔پچھلے الیکشن میں عوام الناس نے تحریک انصا ف اور ان کے پیچھے چھپے لوگوں کو مسترد کردیاتھا۔تحریک انصاف ان الیکشن کو دھاندلی زدہ الیکشن قراردیتی ہے۔پی پی بھی اسے آر او الیکشن کہتی ہے۔حالانکہ یہ تمام آر اوز پی پی کی مرضی اور خوشی سے مقرر ہوئے تھے۔تب سوائے پنجاب کے تین دوسرے صوبوں اور مرکز میں پی پی کی حکومت تھی۔صرف پنجاب ہی نہیں دوسرے علاقوں سے بھی پی پی کا بوریا بستر گول ہوجانا ثابت کرتاہے کہ خالی آر او ہی اس عبرت ناک انجام کا باعث نہیں تھے۔تحریک انصاف ان الیکشن کے نتائچ کو افتخار چوہدری ماڈل الیکشن کمیشن کی جانب عنایت کیے جانے والے نتائج سمجھتی ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ تب الیکشن کمیشن او راس کے ذیلی اداروں نے تحریک انصا ف کو ناکام بنانے میں اہم رول اداکیا۔تب کے الیکشن کمیشن کو تحریک انصاف سے شاید کوئی بغض نہ ہو۔مگر افتخارمحمد چوہدری سمیت اس ماڈل کو تیار کرنے والوں کے لیے تب پرویز مشر ف نفرت کی وہ مثال بن چکے تھے۔جس کو وہ کسی طورنظراندازنہ کرسکتے تھے۔تحریک انصا ف نے بھی پرویز مشر ف دھڑے کو جوائن کرنے کی سزا پائی۔

نئے الیکشن زیادہ دورنہیں۔نگران سیٹ اپ کی مشارت قریب ہے۔ نیب کے نئے سربراہ کا انتخاب بھی ہونے کو ہے۔تحریک انصاف قائدحزب اختلاف کا عہدہ پاکر اس طرح کے اہم فیصلوں میں اپنی شمولیت یقینی بنانے کی تمنا رکھتی ہے۔غیر جمہوری قوتوں کو گذشتہ الیکشن میں اپنی بے جاخوش فہمی پر مسلسل پچھتاوہ رہا۔انہوں نے الیکشن کو ایزی لینے کی کوتاہی کی۔وہ اس کا اعادہ نہیں کرنا چاہتے۔اب یہ اگلے الیکشن کے انعقادکے لیے قائم کیے جانے والے الیکشن کمیشن میں من پسندلوگ گھسا نے کی نیت کیے ہوئے ہیں۔پچھلی باری الیکشن کمیشن کی مشینری نے چھوٹی چھوٹی چیونٹیا ں بن کر ایک بڑے دشمن کو کھدیڑڈالاتھا۔یہ دشمن اس بار ان چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں میں کچھ چیونٹیاں اپنی گھسانے کی پلاننگ کررہاہے۔خاں صاحب کو قائد حزب اختلاف بدلنے کا خواب راتو ں رات یوں ہی نہیں آیا۔اس کے پیچھے یہی ڈوریاں ہلانے والے بیٹھے ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141152 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.