ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو
اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں، اور عہد نبوت سے لے
کر اس وقت تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ
وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کی ایک سو
آیات کریمہ، رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ (دو سو دس
احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کا سب
سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے۔آنحضرت
صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی
جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی کل
تعداد 259 ہے اور عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں
پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عہد خلافت میں مسیلمہ
کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے
صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور تابعین رحمۃ اﷲ علیہ کی تعداد بارہ سو ہے جن
میں سے سات سو قرآن مجید کے حافظ اور عالم تھے۔رحمت عالم صلی اﷲ علیہ وسلم
کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس
سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔
حضرت حبیب بن زید انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے
یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے
حضرت حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمدؐ اﷲ
کے رسولؐ ہیں؟ حضرت حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا
کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اﷲ کا رسول ہوں؟
حضرت حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ
بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور
مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بن زید
کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ
حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس
طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، اب حضرات تابعین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میں سے ایک
تابعی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو: ’’حضرت ابو مسلم خولانی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جن کا نام عبداﷲ بن ثوب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہے اور یہ امت
محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اﷲ تعالیٰ
نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آتش
نمرود کو گلزار بنادیا تھا۔ یہ یمن میں پیدا ہوئے تھے اور سرکار دو عالم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد مبارک ہی میں اسلام لاچکے تھے لیکن سرکاردو عالم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار
اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے
مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت
دی، حضرت ابو مسلم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا
تم محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہاں، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور
حضرت ابو مسلم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن اﷲ تعالیٰ نے
ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔
یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقأ پر ہیبت سی طاری ہوگئی
اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلاوطن کردو، ورنہ خطرہ ہے
کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروؤں کے ایمان میں تزلزل آجائے، چنانچہ انہیں یمن
سے جلاوطن کردیا گیا۔ یمن سے نکل کرمدینہ منورہ تشریف لے آئے۔ حضرت ابوبکر
صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب ان سے ملے تو فرمایا’’اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس
نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس شخص کی زیارت کرادی
جس کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا
تھا۔‘‘
منصب ختم نبوت کا اعزاز
قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ’’رب العالمین‘‘ آنحضرت صلی اﷲ
علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرآن مجید کے لئے ’’ذکر
للعالمین‘‘ اور بیت اﷲ شریف کے لئے ’’ھدی للعالمین‘‘ فرمایا گیا ہے، اس سے
جہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت
ہوتی ہے، وہاں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے، اس لئے کہ پہلے تمام انبیاء
علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے۔
جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی
نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنادیا۔جس طرح کل کائنات کے لئے
اﷲ تعالیٰ ’’رب‘‘ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا اعزاز و اختصاص ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں
سے ایک یہ بھی ہے:: ’’میں تمام مخلوق کے لئے نبی بناکر بھیجا گیا اور مجھ
پر نبوت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔‘‘ (مشکوٰۃ صفحہ 512 باب فضائل سید
المرسلین‘ مسلم جلد1 صفحہ 199
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت آخری
امت ہے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا قبلہ آخری قبلہ بیت اﷲ شریف ہے، آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب آخری آسمانی کتاب ہے۔ یہ سب آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کی ذات کے ساتھ منصب ختم نبوت کے اختصاص کے تقاضے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے
پورے کردیئے، چنانچہ قرآن مجید کو ذکر للعالمین اور بیت اﷲ شریف کو ھدی
للعالمین کا اعزاز بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے میں ملا۔
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت آخری امت قرار پائی جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
’’انا آخر الانبیأ وانتم آخرالامم۔‘‘ (ابن ماجہ صفحہ297)
|